"NNC" (space) message & send to 7575

ناپختہ اپوزیشن

خبر ہے کہ مسلم لیگ (ن)‘ ٹی او آر پر نظرثانی کے لئے حزب اختلاف سے مشاورت کے سوال پر غور کر رہی ہے۔ وزیراعظم نے مجوزہ کمیشن کا جو دائرہ کار متعین کیا ہے‘ اس میں ''تعین‘‘ تو ہے ہی نہیں۔ یہ لامحدود دائرہ کار ہے‘ جس میں پاکستان بنانے والے سیاستدانوں سے لے کر‘ آج تک کے برسراقتدار مسلم لیگی لیڈروں سمیت ہر کوئی اس لامحدود دائرے میں آ جاتا ہے۔ میرا خیال ہے مجوزہ کمیشن کے دائرہ کار کو دوبارہ پڑھ کے‘ خود وزیراعظم بھی مسکرائے ہوں گے۔ ان کی حس مزاح کافی عمدہ ہے۔ دوبارہ ٹی او آر پڑھ کے انہیں خود بھی ہنسی آ گئی ہو گی۔ شاید اسی لئے انہوں نے ٹی او آر کے بارے میں حزب اختلاف سے مشاورت کا ارادہ کر لیا ہے۔ موجودہ حزب اختلاف بھی اپنی نوعیت کی پہلی ہے۔ اس میں شامل جماعتیں کسی بات پر بھی متفق نہیں ہیں۔ روایتی طور پر حزب اختلاف جب حکمران جماعت سے اختلاف کرتی ہے‘ تو عموماً ان چند باتوں پر کہ حکومت کی پالیسیوں کو رد کیا جائے۔ لیکن موجودہ حزب اختلاف میں سب سے بڑی پارلیمانی جماعت پیپلزپارٹی کا رویہ جداگانہ ہے۔ یہ عجیب و غریب حزب اختلاف ہے‘ جو وزیراعظم کے ساتھ مذاکرات پر بھی آمادہ ہے اور ساتھ شرط بھی لگاتی ہے کہ وہ پہلے استعفیٰ دیں۔ ان خدا کے بندوں سے کوئی پوچھے کہ جب وزیراعظم کو استعفیٰ ہی دنیا ہے‘ تو پھر مذاکرات کس بات پر؟ دوسری طرف حزب اقتدار کے بھی انوکھے طور طریقے ہیں۔ اس نے تحریک انصاف بلکہ عمران خان کے خلاف کئی توپیں نشانے لگانے کے لئے وقف کر رکھی ہیں۔
یہ تو بدذوقی کی انتہا تھی کہ دو تین وزیروں کو توپچی بنا کر مستقل عمران خان کی ذات کو نشانہ بنانے پر مامور کر دیا گیا۔ خصوصاً تین وزیروں نے تو ایک سے ایک اوچھا وار کرنے میں ‘ ایک دوسرے پر سبقت لینے کی انتھک کوشش کی۔ بلکہ اب بھی کر رہے ہیں۔ خصوصاً شوکت خانم ہسپتال پر تو بہت ہی انوکھا وار کیا گیا۔ سب جانتے ہیں کہ یہ ایک خیراتی ہسپتال ہے‘ جس میں کینسر کے غریب مریضوں کا مفت علاج کیا جاتا ہے۔ یاد رہے یہ مہنگا ترین علاج ہے اور پاکستان میں صرف یہی ایک ہسپتال ہے‘ جس میں کینسر کے ماہر ڈاکٹر پائے جاتے ہیں۔ اس مرض کے علاج کے لئے ایک دوسرا ہسپتال ابھی شروع ہوا ہے لیکن وہ بھی شوکت خانم ہسپتال ہی ہے اور اسے بنانے والے بھی عمران خان ہیں۔ عمران کی یہ شکایت بجا ہے کہ سیاسی لڑائی میں وزیروں اور خود جناب وزیراعظم نے ہسپتال کو نشانہ بنایا۔ جتنے بھی اعتراض نکالے گئے‘ ان پر ہسپتال کے خلاف قانونی کارروائی کی جا سکتی تھی۔ اقتدار میں ہونے کے باوجود‘ حکومتی 
اختیارات سے کام لینے کے بجائے‘ ہسپتال کو ہدف بنانے کی ضرورت نہیں تھی اور نہ ہی سرکاری تنقید ‘ عمران خان یا ان کی پارٹی کا کچھ بگاڑ پائی۔ یہ ایک لاحاصل مشق تھی۔ اس کے بجائے عمران خان کی سیاست کو ہدف تنقید بنایا جاتا‘ تو یہ سمجھ میں آنے والی بات تھی۔ عمران خان نے بہت دن پہلے24اپریل کو یوم تاسیس پر ایک جلسہ عام کا اعلان کر رکھا تھا۔ کافی دنوں کے بعد عین اسی دن اور اسی وقت ‘دو جماعتوں نے اپنے اپنے جلسے بھی رکھ لئے۔ لاہور میں جماعت اسلامی نے اور کراچی میں مصطفی کمال نے۔ حاضری کے اعتبار سے ان جلسوں میں کوئی مقابلہ نہیں تھا۔ کیونکہ تینوں جلسے مختلف شہروں میں ہوئے۔ لیکن ٹیلی ویژن پر ان جلسوں کو لائیو دکھانے سے خلل پڑا۔ میں نہیں سمجھ سکا کہ بعد میں جو دونوں جلسے رکھے گئے‘ ان کا جواز کیا تھا؟ جناب سراج الحق کی تقریر کا بڑا حصہ دونوں جلسوں کے مقررین سے متصادم ہوتا رہا۔ مصطفی کمال کی تقریر عمران خان کے بعد شروع ہوئی۔ اس میں قباحت یہ تھی کہ ایک مقرر کو خاموش دکھانا پڑتا تھا اور ایک کی تقریر سنوائی جا رہی تھی۔ اس میں لطیفہ یہ ہے کہ ایک وزیر کو پریس کانفرنس کے نام پر دو جلسوں میں جھونک دیا گیا۔ وہ بیچارے پچھلے کئی مہینوں سے اپنا تمام ذخیرہ الفاظ اور طنز کے سارے تیر ختم کر بیٹھے تھے۔ ان کے پاس اپنی ہی باتیں دہرانے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں تھا۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ انہیں اپنے ہی لفظوں کی جگالی کرتے ہوئے‘ خود بوریت ہو رہی تھی۔ وہ تقریر نہیں کر رہے تھے‘ بیگار کاٹ رہے تھے۔ صرف محکمے کے اختیارات کی طاقت سے سارے چینلز پر یہ تقریر زبردستی چلوائی گئی۔ مقرر نے زبردستی کی اور ناظرین نے زبردستی دیکھی۔ کیونکہ بیشتر ناظرین نے ٹی وی سیٹ کی آواز بند کر کے وقت گزارا۔ جیسے ہی عمران یا سراج الحق صاحب کی تقریر آتی‘ وہ آواز کھول دیتے اور وزیرصاحب نمودار ہوتے‘ تو آواز بند کر دی جاتی۔ خدا جانے غیرمقبول حکومتوں کے لیڈر یہ بات کیوں نہیں سمجھتے کہ عوام کے لئے ان کی تقریروں میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ ان کے دعوے سن سن کر‘ لوگ بیزار ہو چکے ہوتے ہیں۔ صرف وزیراعظم یا بااختیار صدر کی تقریریں سنی جاتی ہیں‘ اس لئے کہ وہ عوام کو متاثر کرنے کی خاطر بعض پھُس پھُسے اعلانات کر دیتے ہیں۔ ان میں سے ایک دو میں شاید عوام کی دلچسپی ہو۔ ورنہ موجودہ حکومت کے زیادہ تر اعلانات تو بیزارکن ہوتے ہیں۔ جیسے ہر مہینے پٹرول‘ گیس یا بجلی کے نرخوں میں اضافہ۔ 
گزشتہ چند ہفتوں سے پاناما لیکس کا موضوع‘ میڈیا اور سیاسی بات چیت پر چھایا رہا۔ اس سکینڈل میں وزیراعظم کا اپنا نام تو متنازعہ ہی رہا کہ وہ پاناما پیپرز میں شامل ہے یا نہیں؟ لیکن بچوں کے نام آنے پر حزب مخالف نے خوب تنقید کی۔ عمران خان نے وزیراعظم کے استعفے کا مطالبہ مسلسل جاری رکھا۔ ان کا مسلسل اصرار یہی تھا کہ چیف جسٹس کو کمیشن کے قیام کے لئے خط لکھا جائے۔ یہ مطالبہ پورا کر دیا گیا۔ مگر جس مقصد کے لئے مطالبہ کیا جا رہا تھا‘ وہ دائرہ کار کا تعین کرتے وقت خردبرد کر دیا گیا۔ کمیشن کے دائرہ کار میں آف شور کھاتوں کا ذکر بطور خاص نہیں کیا گیا۔ صرف رسماً ذکر ہوا۔ مثلاً عمران خان کی ایک شرط پوری کر دی گئی کہ چیف جسٹس کو تحقیقاتی کمیشن بنانے کے لئے خط لکھ دیا جائے۔ اس کے سوا اصل مطالبات نظرانداز کر دیئے گئے۔ جیسے آف شور کھاتوں کی تفصیل شائع کرنا۔ مثلاً تحریک انصاف کے نمایاں لیڈروں نے واضح طور سے کہہ دیا کہ جو ضابطہ کار کمیشن کے لئے خط میں تجویز کیا گیا ہے‘ اپوزیشن نے اس سے مسترد کر دیا ہے۔ نوابزادہ نصراللہ خاں کی کمی بہت محسوس ہوئی۔ مثلاً ساری اپوزیشن آف شور کھاتوں پر قریب قریب اتفاق رائے رکھتی ہے۔ صرف پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت نے میاں صاحب کو رعایت دیتے ہوئے‘ استعفے کا مطالبہ ختم کر دیا۔ اس کے بعد کوئی جھگڑا ہی باقی نہ رہا۔ اب کوشش کی جا رہی ہے کہ حزب اختلاف کی ساری جماعتیں اتفاق رائے سے کوئی موقف اختیار کریں۔ لیکن وزیراعظم کے استعفے کا مطالبہ ختم کر کے‘ حزب اختلاف کے پاس رہ کیا گیا ہے؟ ہرچندوزیراعظم خود یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ کمیشن کی سفارشات پر عمل کریں گے اور ان میں انہیں قصور وار ٹھہرایا گیا‘ تو وہ اپنے منصب سے علیحدہ ہو جائیں گے۔ لیکن کمیشن کے دائرہ کار میں لفظوں کا ایسا گورکھ دھندہ رکھ دیا گیا ہے کہ استعفے کا تو شاید تذکرہ ہی مشکل سے آئے۔ ساری بحث ادھر ادھر کے موضوعات پر ہوتی رہے گی۔ دوچار مہینوں بعد‘ اس موضوع میں دلچسپی ہی ختم ہو جائے گی۔ نئے نئے مسائل آ جائیں گے۔ حکومت اپوزیشن کو الجھانے کے لئے نئے نئے فیصلے کرے گی اور سچی بات ہے موجودہ اپوزیشن لیڈروں میں سیاسی چالبازیوں کا سامنا کرنے کے لئے نوابزادہ نصراللہ خاں جیسے قدوقامت کی کوئی شخصیت موجود نہیں۔ مثلاً آج بھی حزب اختلاف کی تمام جماعتوں کے باہمی اختلافات کا تجزیہ کر کے دیکھا جائے‘ تو مشترکہ موقف سامنے آ سکتا ہے۔ لیکن نوابزادہ نصراللہ خاں کو کہاں سے لائیں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں