پاکستان میں جب حکومت اور اپوزیشن کے مابین سیاسی معاملات طے کرنے کا مسئلہ درپیش ہو‘ تواس کا نتیجہ تھانیدار اور ملزم کے درمیان بات چیت کی طرح نکلتا ہے۔ تھانیدار نے ہر حال میں اپنی بات منوانا ہوتی ہے اور ملزم وکیل کی مدد سے سارے قوانین کے حوالے دے کر بھی اپنی بات نہیں منوا سکتا۔ یہی صورتحال آج کے حالات میں ہمیں درپیش ہے۔ اپوزیشن دلیلیں دے رہی ہے اور حکومت نئی نئی حجت نکال کروقت گزار رہی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن نے آج تک جو دلیلیں پیش کی ہیں‘وہ آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔حکومت کا موقف چوہدری نثار علی خان نے پیش کیا اور اپوزیشن کا چوہدری اعتزاز احسن نے۔دونوں کے موقف انہی کے الفاظ میں پیش ہیں۔ آپ جانیں اور دونوں چوہدری جانیں۔
''حکومت نے پاناما لیکس کی تحقیقات کے لئے حزب مخالف کی جماعتوں کی طرف سے ایک متفقہ ضابطہ کار کو غیر آئینی اور بدنیتی پر مبنی قرار دیا ہے۔بدھ کو اسلام آباد میں وفاقی وزیر داخلہ کے ساتھ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے کہا ہے کہ پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے اپوزیشن کی جانب سے مثبت تجاویز آنے کی امید تھی تاکہ مل بیٹھ کر اگر ہو سکے تو متفقہ ضابطہ کار طے کر لیا جائے لیکن مایوسی ہوئی۔اسی دوران حکومت اور حزب اختلاف کی کم از کم ایک جماعت تحریک انصاف نے مل بیٹھ کر پاناما پیپرز کی تحقیقات کے لیے ظابطہ کار تیار کرنے پر آمادگی ظاہر کر دی ہے۔حکمراں جماعت کے سرکردہ رہنما اور وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے ایک نجی ٹی وی کے ٹاک شو میں تصدیق کی ہے کہ ان کا تحریک انصاف کے سینئر رہنما جہانگیر ترین کے ساتھ اتفاق ہوا ہے کہ دونوں جماعتیں مل کر متفقہ ٹی او آرز کی تیاری کے لیے کام کریں گی۔دونوں رہنمائوں نے مل کر نئے ضابطہ کار کی تیاری پر اتفاق کا اعلان کیا۔ دونوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ ماضی میں انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کے لیے بھی ضابطہ کار متفقہ طور پر تیار کیے گئے تھے۔پریس کانفرنس میں وفاقی وزیرِ قانون کا کہنا تھا کہ 'اپوزیشن کے ضابطہ کار کو پڑھ کر سخت مایوسی ہوئی کیونکہ اس کے مندرجات اور جو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں، اس سے اپوزیشن کی بدنیتی صاف ظاہر ہوتی ہے۔ انہوں نے ضابطہ کار کے نکات کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ اس میں جو سب سے زیادہ بدنیتی ظاہر ہوتی ہے یہ ہے کہ ان کی مکمل توجہ وزیراعظم کی ذات پر ہے۔‘وفاقی وزیر قانون کے مطابق حزب اختلاف کے ضابطہ کار میں کہا گیا ہے کہ پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے قائم کمیشن کے لیے'ایک نیا قانون بنایا جائے حالانکہ 1956ء کا کمیشن آف انکوائری بنا ہوا ہے اور اسی کے تحت حقائق جاننے کی لیے تحقیقاتی کمیشن بنائے گئے ہیں جس میں حمودالرحمان کمیشن اور ایبٹ آباد کمیشن بھی شامل ہے‘ لیکن اس میں کہا گیا ہے کہ کمیشن میں ماہرین کی کمیٹی بنائی جائے گی جس میں انہیںمکمل اختیارات حاصل ہوں گے تاکہ وہ کھاتوں اور دیگر دستاویزات تک مکمل رسائی حاصل کر سکیں اور ایسا نہ کیا گیا تو مجرم ہیں۔‘وفاقی وزیر قانون نے حزب اختلاف کے ضابطہ کار کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ 'اس قسم کی تجاویز غیر آئینی، غیر مناسب اور بدنیتی پر مبنی ہیں اور لگتا نہیں کہ وہ چاہتے ہیں کہ یہ کمیشن بنے اور صحیح حقائق عوام کے سامنے آئیں۔‘ انہوںنے کہا کہ اس کے علاوہ ضابطہ کار میں وزیراعظم کو پہلے ہی قصور وار تصور کر لیا گیا ہے اور یہ ہمارے بنیادی قانونی نظام کے خلاف ہے۔
اس موقع وفاقی وزیر داخلہ نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ حکومت پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے سنجیدہ ہے اور اپوزیشن کا ہر ایک مطالبہ تسلیم کیا۔تاہم اب حزب مخالف کاضابطہ کار سامنے آیا تو اس سے یہ بات ظاہر ہوئی کہ وہ ان الزامات کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ 'ہم اس معاملے کو آگے لے کر جانا چاہتے ہیں اور آج کے اجلاس میں جب ضابطہ کار کی تفصیلات سامنے آئیں تو ایسے لگاکہ ہم کسی اور ملک میں رہتے ہیں اورضابطہ کار بنانے والے کسی اور ملک میں رہتے ہیں۔ انہیںپاکستان کے کسی قانون پر اعتماد نہیں، کسی ادارے پر اعتماد نہیں، اور صرف سپریم کورٹ کو چھوڑ کر ہر چیز نئی بنانا چاہتے ہیں۔ چوہدری نثار کے مطابق آج ہمارا خیال تھا کہ ٹی او آرز سامنے آنے کے بعد حکومت موقف دے گی اور کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر ہم ایک متفقہ رائے سپریم کورٹ کو دیں گے لیکن جب ضابطہ کار کے نکات کو ایک ایک کر کے پڑھا گیا تو سوائے افسوس کے کچھ نہیں تھا۔‘‘
اپوزیشن کا موقف چوہدری اعتزاز احسن نے پیش کیا۔ یہ آپ کے سامنے ہے۔
''پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر اعتزاز احسن نے حزب اختلاف کی طرف سے پیش کردہ ضابطہ کار پر حکومت کی طرف سے اٹھائے جانے والے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم نواز شریف جب خود کو احتساب کے لیے پیش کر چکے ہیں تو حکومت کو حزب اختلاف کی طرف سے پہلے ان کے احتساب پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔تمام حکومتی اعتراضات کے جواب دیتے ہوئے اعتزاز احسن نے کہا کہ اولین ذمہ داری نواز شریف کی ہے کیونکہ وہ وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہیں۔انہوںنے کہا کہ حزب اختلاف کی طرف سے مشترکہ طور پر وضع کردہ ضابطہ کار میں وزیر اعظم اور دیگر افراد کے درمیان کوئی تمیز نہیں کی گئی اور ان تمام افراد کو جنہیں الزامات کا سامنا ہے اپنے اثاثوں کا اعلان کرنا پڑے گا۔ فرق صرف یہ ہے کہ ابتدا وزیر اعظم سے ہونی چاہیے اور قوم سے خطاب میں وزیر اعظم نے ایسا کرنے کے لیے خود کو پیش کیا تھا۔حکومت کی طرف سے وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان اور وزیر قانون زاہد حامد نے حزب اختلاف کی ٹی او آرز کو غیر آئینی قرار دیا تھا کیونکہ ان ٹی او آرز میں اپنے آپ کو معصوم یا بے گناہ ثابت کرنے کی ذمہ داری الزام کا سامنا کرنے والے پر عائد کی گئی ہے۔
اعتزاز احسن نے کہا کہ دنیا بھر میں بدعنوانی اور کرپشن کی تحقیقات میں یہ اصول اپنایا جاتا ہے کہ جب کوئی جائیداد اور اثاثہ کسی شخص کے نام ثابت ہو جائے یا کوئی شخص اس کی ملکیت قبول کر لے تو پھر یہ ذمہ داری کہ یہ جائز طریقے اور وسائل سے حاصل کیا گیا ہے اس شخص پر عائد ہوتی ہے۔بیرسٹر اعتزاز احسن نے کہا کہ 1997ء کے قانون میں، جو نواز شریف حکومت نے خود منظور کیا تھا، اسی اصول کو بنیاد بنایا گیا تھا۔ انہوںنے مزید کہا کہ اسفندیار ولی کے کیس میں سپریم کورٹ نے یہ اصول تسلیم کیا تھا۔ انہوںنے کہا کہ کرپشن کو ختم کرنے سے متعلق تمام قوانین کا اطلاق ماضی سے ہونا چاہیے کیونکہ ان کا مقصد کرپشن ختم کرنا ہوتا ہے۔پیپلز پارٹی کے رہنما نے یاد دلایا کہ نیب آرڈیننس‘ جس میں مسلم لیگ کی حکومت اپنی دو تہائی اکثریت کی بدولت دو ترامیم بھی کر چکی ہے کا اطلاق 1985ء سے ہوتا ہے۔
اپوزیش کے مشترکہ اجلاس کی میزبانی کرنے والے رہنما اعتزاز احسن نے کہا کہ جن لوگوں کا بھی نام آیا ہے وہ ہرسال کے اثاثوں اور انکم ٹیکس ادائیگیوں کی تفصیل فراہم کرنے کے پابند ہیں اور وزیر اعظم کو اس بارے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہیے۔حکومت کی طرف سے اس اعتراض پر کہ پاناما پیپرز میں نواز شریف کا نام نہیں ہے تو پھر ان کے خلاف انکوائری کیوں ہونی چاہیے، اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم خود اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کر چکے ہیں۔ انہوںنے کہا کہ حزب اختلاف کے ضابطہ کار میں جن لوگوں کے پاناما پیپرز میں نام آئے ہیں ان کے والدین، شریک حیات، بچوں اور پوتے پوتیوں کے اثاثوں کو سامنے لانے کی بات کی ہے۔ انہوںنے کہا کہ اگر حسین نواز سمندر پار اثاثوں اور آف شور کمپنیوں کا اعتراف کرتے ہیں تو پھر وہ بھی اسی فہرست میں آتے ہیں۔اس ضمن میں اعتزاز احسن نے 2012ء کے چوہدری نثار علی خان کے ایک انٹرویو کا حوالہ دیا جس میں انہوںنے کہا تھا کہ نواز شریف گزشتہ 18 برس سے مے فیئر کے اپارٹمنٹس کی ملکیت رکھتے ہیں۔ انہوںنے 2000ء میں گارڈین اخبار کو دیے گئے کلثوم نواز کے ایک انٹرویو کا بھی حوالہ دیا جس میں انہوںنے اعتراف کیا تھا کہ چونکہ ان کے بچے لندن میں زیر تعلیم ہیں اس لیے یہ اپارٹمنٹ خریدے گئے ہیں۔زاہد حامد اور چوہدری نثار کے اس بیان پر کہ جو لوگ ٹیکس چوری کرتے رہے ہیں وہ زیادہ شور مچا رہے ہیں‘ اعتزاز احسن نے کہا کہ وزیر اعظم بتائیں کہ ''جس دور میں یہ جائیداد خریدی ‘ان برسوں میں نواز شریف نے کتنا ٹیکس ادا کیا؟‘‘