"NNC" (space) message & send to 7575

پیپلزپارٹی کی قربانی

میں اس انتظار میں ہوں کہ امریکہ کے صدارتی انتخابات میں ریپبلکن پارٹی کے ممکنہ امیدوار‘ ڈونلڈ ٹرمپ کے حق میں‘ عمران خان کا بیان کب شائع ہوتا ہے؟ عمران خان کے خلاف''مال‘‘ تیار کرنے کی سرکاری فیکٹری میں بھرتی ضرورت سے زیادہ ہو گئی ہے۔ وزیراعظم کے مخالفین کو ہدف بنا کر بیانات جاری کرنے والے مشقتی ‘بہت بڑی تعداد میں بھرتی کر لئے گئے ہیں۔ زیادہ زور عمران پر ہے۔باقی اپوزیشن کو ''یہ منہ اور مسور کی دال‘‘ کی دھمکی دے کر رام بلکہ رام رام کیا جا چکا ہے۔ لوگ بلاول بھٹو کا یہ مطالبہ پڑھ کر‘ پرامید تھے کہ وہ اپنے نانا کے نام کا بھرم رکھ لے گا اور وزیراعظم سے استعفیٰ مانگنا پیپلزپارٹی کی پالیسی بن جائے گی۔ میری طرح بہت سے خوش فہم تجزیے کر رہے تھے کہ پنجاب کی پیپلزپارٹی‘ موجودہ حکومت کی مخالف ہے اور وہ بلاول پر زور ڈال رہی ہے کہ پارٹی ‘پاناما کی طرف سے منہ موڑ کر‘ پاکستان کی طرف آ جائے۔ تاکہ عوام کے جذبات کی ترجمانی کر سکے۔ لیکن یہاں تو معاملہ ہی الٹ ہو گیا۔ جسے دیکھو‘ جاتی عمرہ کی طرف منہ موڑتا جا رہا ہے۔ کچھ نے رخ بدل کر‘ اپنا منہ ادھر کیا ہے۔ کچھ مُنڈی موڑ کے‘ اپنی نگاہوں سے جاتی عمرہ کا طواف کر رہے ہیں اور کچھ پورے کا پورا رخ بدل چکے ہیں۔ سب سے دلچسپ پوزیشن قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کی ہے۔ ان کا منہ ایک طرف ہے اور ترچھی آنکھیں دوسری طرف۔انہیں اگر خبر ہوتی کہ'' آئین‘ جمہوریت اور پارلیمنٹ‘‘ کی خاطر انہوں نے برسراقتدار حکومت کی بھرپور مدد کر کے‘ اسے بحران سے جس طرح نکالا تھا‘ وہی پالیسی اب مستقل ہوتی نظر آرہی ہے۔ عوام میں مقبول ہونے والی پالیسی اختیار کرنے کا ڈھونگ تھوڑے دن ہی چل سکا۔
اس وقت‘ جبکہ عوام کے جذبات کی لہروں کا رخ پاناما کی طرف ہے‘ اچانک عوام کو غچہ دے کر‘ جاتی عمرہ کی طرف کھسکنا‘ ہمارے سادہ لوح اور جذباتی عوام کے لئے تکلیف دہ ہو گا۔ ابھی تک عوام کو پوری طرح ا ندازہ نہیں ہوا کہ شاہ جی کسی بھی پل آنکھیں پھیر لیں گے۔ سیاسی موسموں پر نظر رکھنے والے بھانپ چکے ہیں کہ شاہ جی کے ارادے کیا ہیں؟ شاہ جی کے تازہ بیانات کو دیکھئے‘ تو صاف پتہ چل جاتا ہے کہ وہ کدھر کو رخ بدلنے والے ہیں؟ صاف اندازہ ہو رہا ہے کہ وہ ایک مرتبہ پھر ''پارلیمنٹ‘ جمہوریت اور آئین‘‘ کو بچانے کی وہی پالیسی اپنانے والے ہیں‘ جو انہوں نے جمہوریت کو لاحق فرضی خطرے سے‘ قوم کو بچانے کی خاطراختیار کی تھی۔ افسوس اس بات پر ہے کہ گھوڑے کی لگامیں ان کے اپنے ہاتھ میں نہیں۔ گھوڑے پر سواری آصف زرداری کر رہے ہیں۔ جدھر کو باگیں کھینچتے ہیں‘ گھوڑا اسی طرف مڑ جاتا ہے۔ جب سے انہوں نے گھوڑے کی باگ سنبھالی ہے‘ بارہا اسے مختلف سمتوں میں موڑرہے ہیں۔ پیپلز پارٹی والوں کو کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ انہیں کس طرف چلایا جا رہا ہے؟ جناب آصف زرداری‘ بے نظیرشہید کے جانشین تو بن بیٹھے لیکن ان کی سیاسی سوچ کے قریب نہیں گئے۔گھوڑوں کی نسلیں پہچاننا اور سیاست کو سمجھنا دو الگ الگ باتیں ہیں۔ وہ پانچ سال کے لئے صدر منتخب ہوئے‘ تو عوام ‘ بے نظیر کی شہادت کے صدمے کے زیراثر تھے۔ اسی صدمے کے تحت انہوں نے پیپلزپارٹی کو ووٹ دے دیا۔ صدارت کے منصب پر آصف زرداری فائز ہو گئے۔ جناب نوازشریف نے عوامی طاقت کی جھلک دکھا کر‘ صدر زرداری کو ڈرا دیا۔ شنید یہ ہے کہ جنرل کیانی کی آنکھیں دیکھ کر‘ صدر صاحب ڈر گئے اور ایسے ڈرے کہ باقی ماندہ عرصہ صدارت انہوں نے ڈرتے ڈرتے ہی گزارا۔ آج کل کے سیاستدان ‘ جو درحقیقت دوران ملازمت بھی سیاستدان ہی تھے‘ وہ اپنا راستہ ہموار کرنے کے لئے دائو پیچ لڑاتے رہے۔ انہیں یہ پتہ نہیں تھا کہ اگلی باری نوازشریف کی ہے اور وہ باری چھوڑنے کے عادی نہیں ہیں۔ کیسے کیسے مراحل آئے؟ نوازشریف نے باری نہیں چھوڑی۔ 
اس مرتبہ وزیراعظم بنتے ہی‘ نوازشریف خطروں میں گھر گئے۔ مگرآصف زرداری کی مدد سے بچ نکلے۔ زرداری صاحب نے شاہ جی کو اشارہ کیا اور شاہ جی بلاچون و چرا‘ نوازشریف کے متوالے بن کر‘ پارلیمنٹ میں یوں بولے کہ نوازشریف کو لاحق خطرہ ٹل گیا۔ بعد میںزرداری صاحب کو مایوسی ہوئی‘ تو شاہ جی نے حکومت کے خلاف گرماگرم تقریریں شروع کر دیں۔ عوام میں نوازشریف مخالف جذبات تیز ہوگئے‘ تو انہوں نے فوراً زرداری صاحب سے رابطہ قائم کیا۔ اس کے نتیجے میں خورشید شاہ کے پیچ و تاب ڈھیلے پڑنا شروع ہو گئے۔ آج کل ہم وہی پیچ کھلتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ آج انہوں نے پاناما پیپرز کے ردعمل میں پیدا ہونے والے جذبات کی شدت میں کمی لانے کے لئے ایسا پینترا بدلا ہے کہ بیچارے عوام تو کیا؟ چوہدری اعتزاز احسن اور قمرزمان کائرہ بھی تادم تحریر خاموش ہیں۔ شاید انہیں اندازہ نہیں ہوا کہ خورشیدشاہ نے کنّی کاٹنا شروع کر دی ہے۔ وہ پھر نوازشریف کے تحفظ کے لئے سرگرم ہونے والے ہیں۔ جیسے انہوں نے دھرنے کے دنوں میں کیا تھا۔ ابھی شاہ جی کی مہم درپردہ ہے۔ مگر دائو انہوں نے بڑے کام کا لگایا ہے۔ حکومت کافی دیر سے اس کوشش میں تھی کہ پاناما سکینڈل کا زور توڑنے کے لئے کوئی نیا جھکڑ چلایا جائے۔ آج شاہ جی نے کمال ہنرمندی سے اعلان کر دیا کہ ''قرضے معاف کرانے والے بھی‘ پاناما لیکس والوں جتنے مجرم ہیں۔‘‘ کسی کو پتہ چلا کہ اس میں دائو کیا ہے؟ دائو یہ ہے کہ قرضے معاف کرانے والوں کو‘ پاناما سکینڈل میں پھنسے ہوئے لوگوں سے ملا دیا جائے۔ جب چند سو کے ساتھ ہزاروں مل جائیں گے‘ تولسی پتلی ہو جائے گی۔ یہ چالاکی ہر ایک کی سمجھ میں آ سکتی تھی۔ اگر حکومت اکیلی قرض خوروں کے خلاف دلائل دیتی رہتی تواس پر کوئی بھروسہ نہ کرتا۔لوگ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ قرضے معاف کرانے والے اکثر اوقات مجبور ہوتے ہیں۔ کاروبار میں خسارہ معمول کی بات ہے۔ بینکوں کو یہ اختیار حاصل ہے اور ابھی تک ہے کہ اگر انتظامیہ اپنے ذرائع سے معلومات حاصل کر کے ‘قائل ہو جائے کہ مقروض واقعی خسارے کی وجہ سے بے بس ہے اور قرض ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں‘ تو اس کا قرض معاف کیا جا سکتا ہے۔ اس رعایت کی آڑ میں ان گنت سرمایہ داروں نے قرضے معاف کرا رکھے ہیں۔ بجائے اس کے کہ غلط طریقے سے قرضے معاف کرانے والوں کو پکڑا جائے‘ اب پورا جھاڑو پھیرنے کی تیاری شروع کر دی گئی ہے۔ جھاڑو کبھی نہیں پھیرا جا سکے گا۔ کیونکہ خسارے اور کاروبار میں ناکامی کی وجہ سے ‘تہی دست ہونے والے ان گنت لوگ روتے دھوتے سڑکوں پر نکل آئیں گے۔ ان کی مفلوک الحالی دیکھ کر‘ رائے عامہ کی ہمدردیاں بیدار ہو جائیں گی اور حکومت پہلے ہی سے قرضے معاف کرنے کے لئے تیار بیٹھی ہو گی۔ کیونکہ ارباب اقتدار نے خود بھی قرضے معاف کرا رکھے ہیں۔ مجبور مقروضوں کی حالت زار کے نقشے کھینچ کر ‘مستحقین کے قرضے معاف کرنے کا مطالبہ آئے گا۔ جو یقینا مستحقین کے حق میں ہو گا۔ لیکن جب تک بات یہاں پہنچے گی‘ انتخابات بھی ہو چکے ہوں گے۔ نوازشریف حکومت قرضے معاف کرنے کا اعلان کر کے‘ ضرورت مندوں کی ہمدردیاں حاصل کر چکی ہو گی۔ پاناما سکینڈل فراموشیوں کی دھند میں گم ہو جائے گا۔ اگلی بار اقتدار میں آ کر‘ نوازحکومت ‘ مزیداگلے انتخابات جیتنے کے بندوبست کر چکی ہو گی۔ بلاول بھٹو کی کشش ختم ہو جائے گی۔ بھٹوخاندان اقتدار سے باہر ہو جائے گا اور نوازشریف کا خاندان اگلے جمہوری دور سے فیض یاب ہونا شروع کر دے گا۔ بلاول بھٹو‘ جو اس وقت تک بلاول زرداری ہو چکے ہوں گے‘ وہ اس پلٹن کی نوکری پکی کریں گے‘ جو ان دنوں عمران خان کی کردارکشی پر مامور ہے۔ ہو سکتا ہے پلٹن کو کوئی نیا ٹارگٹ مل جائے۔
نوٹ:۔ گزشتہ کالم میں فارسی کا ایک مقبول مصرع ''تن ہمہ داغ داغ شد‘ پنبہ کجا کجا نہد‘‘ لکھا تھا۔مگر ہمارے شعبہ ادارت نے صحیح مصرعے کی جگہ غلط العام مصرعے کو ترجیح دیتے ہوئے ''نہد‘‘ کا صحیح لفظ کاٹ کر ''نہم‘‘ کر دیا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں