خیبر پختونخوا ‘ مولانا فضل الرحمن کا صوبہ ہے۔ یہاں پر ان کی جماعت براہ راست بھی وزارت اعلیٰ پر فائز رہ چکی ہے اوروہ مختلف پارٹیوں کی حکومتوں میں شریک کار کے طور پر بھی عوام کو ڈیزل فراہم کرتے رہے ۔اس مرتبہ انہیں گہرے صدموں سے دوچار ہونا پڑا۔ ایک یہ کہ وہ صوبائی الیکشن ہار گئے اور اس پر ستم ظریفی یہ ہوئی کہ حکومت پی ٹی آئی کی بن گئی۔وہ جب بھی اپنے صوبے کارخ کرتے ہیں تو یہ سو چ کر ان کا مزاج بگڑ جاتا ہے کہ یہاں کا وزیراعلیٰ‘ عمران خان کی پارٹی سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ دو چیزیں ایک ساتھ برداشت کرنا‘ مولانا کے مزاج کے خلاف ہے۔تحریک انصاف نے جب پشاور میں جلسہ عام کا اہتمام کیاتو مولانا اس پر بہت خوش تھے کیونکہ ان کی اتحادی جماعت‘ مسلم لیگ(ن) نے اس جلسے کو تہس نہس کرنے کی مکمل تیاریاں کر رکھی تھیں۔مولانا چند دن قبل ہی‘ بنوں میں وزیراعظم نوازشریف کے بل بوتے پر‘ ایک جلسہ عام سے خطاب فرما چکے تھے۔ظاہر ہے پانامہ سکینڈل کی وجہ سے جناب وزیراعظم کا موڈ‘ ان دنوں زیادہ اچھا نہیں رہتا ۔ کے پی کے میں عمران خان کی حکومت دیکھ کر‘ مولانا کی طبعیت بھی مکدر ہو جاتی ہے ۔ دونوں اتحادی یعنی وزیراعظم اور مولانا‘ ایک دوسرے کو دیکھ کر تقویت پکڑتے رہے۔کسی جادوگر نے جناب وزیراعظم اور مولانا کو‘ ایک جیسے طلسمی چشمے بطور تحفہ پیش کر دئیے تھے۔یہ چشمے لگا کر جلسے کی حاضری اصل سے چھ گنا نظر آتی تھی۔ اتنی بڑی حاضری دیکھ کر‘ ظاہر ہے دونوں خطیبوں کا جوش و خروش ضرورت سے کچھ زیادہ ہی بڑھ گیا۔
مسلم لیگ(ن)‘ عمران خان کے جلسوں کی فحاشی سے بہت تنگ تھی۔ کافی دنوں کے بعد‘ جب عمران خان نے اسلام آباد میں جلسہ کیا تو حسب روایت وہاں خواتین کی حاضری بہت زیادہ تھی۔دوسری تمام جماعتوں کے جلسوں میں خواتین کی تعداد برائے نام ہوتی ہے اور مولانا فضل الرحمن کے جلسے کا پتہ چلنے پر تو خواتین راستہ ہی بدل جاتی ہیں۔مسلم لیگ(ن) نے بہت کوشش کی کہ اس کے جلسوں میں بھی‘ خواتین بڑی تعداد میں شریک ہو جائیں مگر تھانیدار اور تحصیلدار‘پرجوش خواتین سیاسی کارکن کہاں سے لاتے؟ تحریک انصاف کے علاوہ دوسری جماعت ایم کیو ایم ہے‘ جس کے جلسوں میں خواتین بڑی تعداد میں شریک ہوتی ہیں۔علامہ طاہرالقادری کے جلسوںمیں بھی خواتین کی حاضری قابل ذکر ہوتی ہے لیکن وہاں معاملہ سیاست کا نہیں روحانیت کا ہے۔ اس لئے ان کا موازنہ‘ ایسے اجتماعات سے نہیں کیا جا سکتا۔ (ن) لیگ نے کافی جتن کرنے کے بعد‘ کافی پیش و پس کے بعد فیصلہ کیا کہ ہمارے جلسوں میں خواتین کی حاضری‘ تحریک انصاف سے زیادہ تو کجا‘ اس کے نصف بھی نہیں ہو رہی۔ کیوں نہ سیاسی جلسے جلوسوں میں خواتین کی حاضری کو ہی معیوب بنا دیا جائے ؟ ۔ چنانچہ آپ نے دیکھا ہو گا کہ گزشتہ چند ہفتوں سے ‘بڑی تیاری کے ساتھ عمران کے جلسوں کو ہدف بنایا جا رہا ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ اسلام آباد میں دھرنے کے دنوں میں جب خواتین پوری پوری رات جلسوں میں بیٹھ کر تقریریں سنا کرتی تھیں‘ تو(ن) لیگ کے صحافیوںاور رہنمائوں نے‘ خواتین کی موجودگی پر گھٹیا قسم کے ریمارکس دینا شروع کر دئیے مگر کوئی بھی انہیں خاطر میں نہ لایا۔عمران خان نے لمبے وقفے کے بعد‘ اسلام آباد میں جلسہ منعقد کیا تو(ن) لیگ کے ''جانبازوں‘‘ نے جلسے میں گھس کر‘ خواتین کے ساتھ بدتمیزیاں کیں‘ جن پر تحریک انصاف کے کارکنوں نے قابو پا لیا لیکن اگلے روز ‘میڈیا میںایسی خبریں اور تبصرے پیش کئے گئے ‘ جیسے جلسے میں غنڈوں نے خواتین کے ساتھ انتہائی بدتمیزی کی ہو۔ تاثر یہ پیدا کیا گیا کہ خواتین ‘عمران کے جلسوں میں نہ جائیں تو ان کے لئے بہتر ہے‘ورنہ انہیں بہت تنگ کیا جائے گا۔تحریک انصاف نے لاہور کے جلسے میں خواتین کا انکلیوژر عین سٹیج کے سامنے بنایا‘ جہاں پر پولیس اور پارٹی کارکنوں کو خصوصی طور سے سیکورٹی پر مامور کیا گیا کہ کوئی غنڈہ‘ خواتین کے قریب سے بھی نہ گزر پائے۔ یہ انتظام کافی موثر ثابت ہوا مگر جب جلسہ ختم ہواتو اچانک (ن) لیگی''فرشتے‘‘ نمودار ہوئے اور انہوں نے خواتین کے انکلیوژر میں گھس کرحملے کرنا شروع کر دئیے۔ انہیں ماراپیٹا۔ ان کے بال اور دوپٹے کھینچے۔ پولیس اور تحریک انصاف کے کے کارکنوں نے خواتین کو بمشکل ان''فرشتوں‘‘سے بچایا۔ اگلے دن منصوبے کے عین مطابق‘ میڈیا پر ایسی کوریج کی گئی‘ جیسے وہاں خواتین کے ساتھ ضرورت سے زیادہ بدتمیزیاں کی گئی ہوں۔ اگر آپ مختلف ٹی وی چینلوں پر دکھائی گئی‘ فوٹیج کو دوبارہ دیکھیں( جوانٹرنیٹ پر دستیاب ہے) تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ سب کچھ مصنوعی ہے۔ پولیس نے''فرشتوں‘‘ کی کارروائی شروع ہوتے ہی آگے بڑھ کر‘ معاملات کو کنٹرول کر لیا تھا۔ خواتین کی چیخیں اور رونے کی آوازیں بعد میں ریکارڈ کی گئی تھیں۔
قبل اس کے کہ (ن)لیگ مزید اشتعال میں آکر ‘خواتین پر باقاعدہ منظم حملے نہ شروع کر دے‘ تحریک انصاف نے فیصلہ کیا کہ جلسوں میں خواتین کو سرے سے مدعو ہی نہ کیا جائے چنانچہ پشاور کے جلسے سے پہلے‘ باقاعدہ اعلانات کر دئیے گئے کہ اس جلسے میں خواتین کی شرکت ممنوع ہو گی۔ان واضح اعلانات کے بعد‘ گنجائش ہی نہ رہی کہ خواتین جلسے میں شریک ہوتیں۔یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ تحریک انصاف نوجوانوں کی جماعت ہے اور
عمران ان کے محبوب لیڈر۔ نوجوانوں نے دوپہر ڈھلتے ہی جلسہ گاہ میں پہنچ کر نعرے لگانا شروع کر دئیے۔ یہاں اچانک ایک اور کریکٹر نمودار ہوتا ہے۔پشاورایک روایت پسند اور مذہبی طور طریقوں پر عمل کرنے والا شہر ہے۔ یہاں مدرسوں کی بہتا ت ہے اور خواتین عموماً برقع یا بڑی چادر اوڑھتی ہیں۔بے پردہ خواتین بہت کم دیکھنے میںآ تی ہیں۔ خصوصاً نوجوانوں کے اجتماع میں کسی خاتون کا داخل ہونا ہی'' اشتعال انگیزی‘‘ ہے۔یہ تو ممکن ہی نہیں سیاسی کارکن خاتون‘ بدمستیاں کرتے ہوئے تن تنہا ساڑھی پہنے نوجوانوں کے ہجوم میں آن گھسے۔ایک فیشن ایبل اور بے پردہ خاتون کا یوں اچانک ہجو م میں گھس آنا‘نوجوانوں کے لئے بھی تعجب خیز تھا لیکن جو چیز قابل غور تھی ‘ وہ یہ کہ چند ٹی وی چینلز کے کیمرہ مین‘ پھرتی سے اس خاتون کے گرد جمع ہو گئے اورفوراً ہی اس کی فوٹیج ٹی وی پر چلنے لگی۔اس وقت کوئی ساڑھے چار ‘پانچ کا وقت تھا۔ جلسہ شروع ہونے میں دوگھنٹے باقی تھے۔ کیمرے والوں کا اتنی دیر پہلے مخصوص جگہ پر پہنچ جانا اور وہ بھی اتنی بڑی تعداد میں غیر معمولی ''اتفاق‘‘ تھا۔جن ''وضع دار ‘ ‘ لوگوں نے اس خاتون کو جلسے میں داخل کیا تھا‘وہ نوجوانوں کی بھیڑ میں یقیناً کسی بدتمیزی کی توقع کررہے تھے لیکن کارکنوں نے ‘خاتون کے گرد ایک دائرہ سا بنا دیا اور اس کے لئے باہر جانے کا راستہ بناتے رہے۔ یہ ایک ماڈل خاتون تھی۔مگر اتنی بھی دبنگ نہیں تھی کہ نوجوانوںکے ہجوم میں صاف بچ کر نکل جائے۔ یقیناً کارکنوں نے اسے تحفظ دیتے ہوئے‘جلسہ گاہ سے باہر نکلنے کا راستہ فراہم کیا۔ کارکنوں میں کچھ ایسے بھی تھے‘ جنہوں نے مدرسوںکی روایتی ٹوپیاں پہن رکھی تھیں مگر ان میں سے بھی کوئی کارکن ‘نازیبا حرکت کرتا دکھائی نہیں آیا۔ادھر ایک ہجوم نے سٹیج پر چڑھنے کے لئے ہلہ بول دیا۔پارٹی کے کارکن اور پولیس چوکس کھڑے تھے۔انہوں نے سیڑھی پر آکر ‘اس یلغار کو روکا۔یہاں ایک اور چیز دیکھنے میں آئی۔ جن لوگوں نے عمران کی آمد سے کچھ پہلے اس یلغار کو پسپا ہوتے دیکھا ۔تو انہیں ایک منظر یاد ہو گا‘ جو بار بار دکھایا جاتا رہا۔اوروہ تھا سرمئی شلوار قمیض میں ملبوس ایک تنومند شخص‘ جس نے سٹیج پر چڑھنے کے لئے بہت زور لگایا مگر اسے پولیس اور رضا کاروں نے دھکیل کر سٹیج سے دور کر دیا۔ یہ منظر کئی چینلز پر بار بار دکھایا گیا۔ایسا کیوں تھا؟ میں اس کا اندازہ نہیں کر سکا۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑے گا کہ ایک سیاسی تحریک میں گھریلو اور تعلیم یافتہ خواتین نے اتنی بڑی تعداد میں پہلی بار سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کیا۔ 2013ء کے عام انتخابات میں بڑھ چڑھ کرووٹ ڈالے۔ اس طرح سیاست میں خواتین کا جوش و خروش سے حصہ لینا‘سیاسی جماعتوں کے لئے خطرے کی علامت ہے۔ سب جانتے ہیں کہ اگر خواتین نے اسی جذبے کے ساتھ ووٹ ڈالے تو اکثریت کے ووٹ ‘عمران کے حق میں جائیں گے۔مجھے یوں لگتا ہے کہ خواتین کے لئے انتخابی عمل میں حصہ لینا مشکل بنا کر‘ قدامت پسند جماعتوں کی کامیابی میں آسانی پیدا کرنا ہے۔ کہیں یہ سوچا سمجھا منصوبہ تو نہیں؟