جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے امیر مطیع الرحمن نظامی کو ڈھاکہ جیل میں پھانسی دے دی گئی۔ ان کے حامی ظاہر ہے انہیں شہید قرار دے رہے ہیں۔ میں بھی ان کی پھانسی کو شہادت سمجھنے پر مجبور ہوں‘ لیکن وجوہ مختلف ہیں۔ میں انہیں انسانی بنیادوں پر اس لئے مظلوم سمجھتا ہوں کہ انہوں نے اپنی دانست میں سچائی اور آزادی کی خاطر جنگ لڑی تھی‘ لیکن وہ ان حالات کا پوری طرح تجزیہ ہی نہ کر سکے‘ جن میں انہوں نے یہ سمجھ کر قربانیاں دیں کہ وہ جنگ آزادی لڑ رہے ہیں۔ یہ سانحہ 45 سال پہلے رونما ہوا۔ اب بے شمار حقائق سامنے آ چکے ہیں۔ مثلاً اب یہ واضح ہو چکا ہے کہ جسے جماعت اسلامی مشرقی پاکستان کے غداروں کی مزاحمت سمجھ رہی تھی‘ درحقیقت وہ خود بھی گمراہی کا شکار تھے اور اصل میں وہ مشرقی پاکستان میں موجود پاکستانی فوج کے سربراہ یحییٰ خان کی ہوس اقتدار کا ایندھن بنے۔ یحییٰ خان نے اپنے محسن‘ ایوب خان کی سیاسی کمزوری اور عدم مقبولیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے‘ ان کے گرد سازش کا ایسا جال بنا کہ وہ اقتدار چھوڑنے پر مجبور ہو گئے‘ اور جاتے جاتے اسی یحییٰ خان کو اپنا جانشین بنا گئے‘ جس نے انہیں ایک سازش کے ذریعے اقتدار سے بے دخل کیا۔ ایوب خان ذہنی طور پر عام انتخابات منعقد کرا کے‘ اقتدار منتخب نمائندوں کے سپرد کرنے کا ارادہ کر چکے تھے۔ یحییٰ خان کو ان کے ارادے کا علم ہوا‘ تو انہوں نے خود انہیں اقتدار سے باہر کر کے‘ اس پر قبضہ کر لیا۔ ملک پر گرفت مضبوط کرنے اور سیاسی قیادت اور رائے عامہ کو متاثر کرنے کے لئے انہوں نے فوراً ہی بڑے بڑے اقدامات کر ڈالے۔ درحقیقت یہ دیرینہ عوامی مطالبات کا جواب تھا۔ انہوں نے فوراً ہی ون یونٹ توڑ دیا‘ جس پر مغربی پاکستان کے چھوٹے صوبوں میں شدید غم و غصہ پایا جاتا تھا۔ مشرقی اور مغربی پاکستان میں آبادی کے عدم تناسب کو بحال کر کے ملک کے دونوں حصوں میں برابری کا اصول ترک کر دیا۔ اس پر مشرقی پاکستان کے عوام کی بھاری اکثریت غیرمطمئن تھی۔ مغربی پاکستان کے جاگیردار سیاستدانوں اور جنرلوں نے مساوات کا یہ غیرمنصفانہ نظام نافذ کر رکھا تھا۔ غیرمنصفانہ اس لئے کہ مشرقی پاکستان کی آبادی‘ مغربی پاکستان سے دوفیصد کے لگ بھگ زیادہ تھی۔ جمہوریت کے بنیادی اصول ‘ ایک فرد ایک ووٹ کے بجائے‘ مغربی پاکستان کے حکمران طبقوں نے ملک کے دونوں حصوں کو مساوی کر دیا تھا‘ یعنی پارلیمنٹ میں پچاس فیصد نشستیں مغربی پاکستان کو دے دیں اور پچاس فیصد مشرقی پاکستان کو۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مشرقی پاکستان کی اکثریت کا حق چھین لیا گیا۔ یہ پاکستان کی آئین سازی کا عمل شروع ہوتے ہی ایک مسئلہ بن گیا تھا۔ مشرقی پاکستان کے لیڈر بجا طور پر قومی اسمبلی میں اپنی آبادی کے تناسب سے نشستیں مانگ رہے تھے‘ لیکن مغربی پاکستانی حکمران طبقے ایسا کرنے پر آمادہ نہ ہوئے۔ انہوں نے طاقت کا استعمال کرتے ہوئے‘ مشرقی پاکستان کو مجبور کیا کہ وہ اپنے ووٹوں کی اکثریت کے باوجود مغربی پاکستان کے برابر کی نشستیں قبول کرنے پر تیار ہو جائیں۔ جب بھی مشرقی پاکستانی عوام کا دبائو بڑھتا تو پورے ملک میں مارشل لاء نافذ کر کے ان کے سیاسی حقوق بھی چھین لئے جاتے۔
ایوب خان کے اقتدار چھوڑتے ہی‘ یحییٰ خان نے ایک فرد ایک ووٹ کا اصول مان لیا اور ایک فرد ایک ووٹ کے تحت عام انتخابات منعقد کرانے کا اعلان کر دیا۔ انتخابات منعقد ہو گئے۔ نتائج سامنے آئے‘ تو مشرقی پاکستان کی ایک ہی جماعت فیصلہ کن اکثریت کے ساتھ پارلیمنٹ میں آ گئی۔ ملک کی قسمت کا فیصلہ شیخ مجیب الرحمن کے ہاتھ میں آ گیا۔ اس کے بعد لازم تھا کہ یحییٰ خان اقتدار عوامی لیگ کو منتقل کر کے‘ اسے اپنی اکثریت کے مطابق آئین سازی اور حکمرانی کا اختیار دے دیتا‘ مگر ایسا تبھی ممکن تھا‘ جب یحییٰ خان اقتدار چھوڑ کر‘ انتخابات میں کامیاب ہونے والی جماعت کو اس کا حق دیتے ہوئے ‘شیخ مجیب الرحمن کو اقتدار منتقل کر دیتا۔
افسوس کہ پاکستان کے حکمران طبقوں نے کبھی عوام کو جمہوری حقوق نہیں دیئے۔ یحییٰ ٹولہ انتخابی نتائج دیکھتے ہی بدنیت ہو گیا اور اس نے سازشوں کا کھیل کھیلنا شروع کر دیا۔ مغربی پاکستان سے ذوالفقار علی بھٹو فیصلہ کن اکثریت لے کر کامیاب ہوئے تھے۔ ان کا حق بنتا تھا کہ وہ اپنی پارلیمانی پوزیشن کے مطابق ‘ مجیب سے سودے بازی کرتے اور یہ دونوں لیڈر ملک میں ایک قابل عمل آئین تیار کر کے‘ اس کے مطابق حکومتیں بناتے‘ مگر یحییٰ ٹولہ سیاستدانوں کو اقتدار دینے پر تیار نہیں تھا۔ دونوں منتخب لیڈروں کو حق اقتدار سے محروم کر کے‘ یحییٰ ٹولے نے حکومت اپنے پاس رکھی۔ اس کے بعد جو گھنائونے کھیل کھیلے گئے‘ وہ پاکستانی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے۔ ایک طرف مجیب الرحمن کو اقتدار منتقل کرنے کے وعدے کئے گئے۔ دوسری طرف بھٹو صاحب کو اکسایا گیا کہ وہ آئین سازی کے دوران اپنے اور مغربی پاکستان کے حقوق کا تحفظ کریں اور شیخ مجیب الرحمن کواپنی فیصلہ کن اکثریت کی بنیاد پر حاکم مطلق بننے کا موقع نہ دیں‘ ورنہ اس کے اندر آمرانہ رجحانات پائے جاتے ہیں‘ وہ مغربی پاکستان کے بارے میں انتقامی جذبات رکھتا ہے‘ وہ آپ لوگوں کو کچل دے گا۔ اصل میں مجیب کسی کو کچلنے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا۔ میں نے چند ملاقاتوں میں اس کے جن عزائم اور ارادوں کا اندازہ کیا‘ ان میں زیادتی کا کوئی عنصر نہیں تھا۔ وہ جمہوری حقوق لینا چاہتا تھا اور بھٹو کے ساتھ مل کر ‘ ملک میں آئین اور جمہوریت کو طاقتور بنانا چاہتا تھا۔ دونوں لیڈروں کے درمیان جو نامہ و پیام ہوئے‘ ان میں کم و بیش یہی اصول طے پایا تھا کہ وہ اقتدار کی رسہ کشی میں شریک نہیں ہوں گے اور ملک کے دونوں حصوں میں مکمل جمہوریت بحال کر کے‘ آمریت کو دوبارہ قدم جمانے کا موقع نہیں دیں گے۔ کوئی مجیب الرحمن کو کتنا ہی غدار کہتا رہے لیکن میں اسے ایک سمجھدار سیاستدان مانتا ہوں اور یہ سمجھداری کوئی زیادہ پیچیدہ نہیں۔ کون ہے جو پاکستان جتنے بڑے ملک کی حکومت چھوڑ کر‘ اس کے ایک پسماندہ حصے میں اقتدار مانگے؟ میں مجیب الرحمن کے اپنے الفاظ دہراتا ہوں جو انہوں نے مغربی پاکستان میں اپنے ساتھی برکت علی سلیمی کے گھر میں مجھ سے کہے تھے۔ اس کے الفاظ تھے: ''میں پاگل ہوں جو پورے ملک کی حکومت چھوڑ کر آدھے پر قناعت کروں؟‘‘ یہ بات اگر ہم سمجھتے ہیں‘ تو مجیب بھی جانتا تھا‘ لیکن اس نے شدید بحران کے دنوں میں بھی ایک ہی بات کی کہ ''مجھے دھکیلا جا رہا ہے‘‘۔ وہ کہتا تھا کہ کشمیر کا مسئلہ حل کئے بغیر پاکستانی عوام خوشحال نہیں ہو سکتے۔ میں یہ مسئلہ حل کروں گا۔ پورے کشمیر پر بھارت کا قبضہ نہیں ہونے دوں گا‘ لیکن اس وقت کے فوجی لیڈر‘ کشمیر کا تنازعہ برقرار رکھنے پر مصر تھے۔ خدا جانے کیوں وہ اس بات کے قائل ہو چکے تھے کہ تنازعہ کشمیر حل ہو گیا‘ تو فوج کی بالادستی نہیں رہے گی۔
جب یحییٰ خان کو یہ اندازہ ہو گیا کہ مجیب اور بھٹو اکٹھے ہونے والے ہیں‘ تو اس نے مشرقی پاکستان پر فوج کشی کر دی۔ بھارت ایسے احمقانہ اقدام کے لئے تیار بیٹھا تھا‘ بلکہ اس اقدام کے لئے اس نے خود راستہ ہموار کیا تھا۔ پاکستان کے سیاسی بحران کے دوران‘ عوامی لیگ کے نوجوانوں کی تنظیم مکتی باہنی کو خفیہ جنگی تربیت دینے کا سلسلہ الیکشن کے دنوں میں ہی شروع ہو گیا تھا اور جب شیخ مجیب کو گرفتار کیا گیا‘ تو بھارتی فوج کی مدد سے مکتی باہنی نے پاک فوج کے خلاف فوجی کارروائی شروع کر دی۔ وقت کے ساتھ ساتھ مشرقی پاکستان کا کنٹرول پاک فوج کے ہاتھ سے نکلتا گیا‘ اور وہ لمحہ یاد کر کے کلیجہ منہ کو آتا ہے‘ جب خود پاک فوج نے پلٹن میدان میں ایک میز کرسی لگا کر بھارتی جنرلوں کو مدعو کیا اور اپنے ہی وطن کی سرزمین پر ان کے ساتھ بیٹھ کر شکست کی دستاویزات پر دستخط کئے۔ مشرقی پاکستان کی جماعت اسلامی نے اپنی دانست میں پاکستان کی یکجہتی کی جنگ لڑی تھی‘ لیکن اس کی قیادت حالات کی سنگینی کا اندازہ نہ کر سکی۔ اس نے بحران اور خانہ جنگی کے زمانے میں یحییٰ کی فوج کا ساتھ دیا‘ لیکن جس آبادی میں 85 فیصد سے زیادہ لوگ بغاوت پر اتر آئے ہوں‘ اور دشمن ملک کی فوج ان کی مدد کے لئے آنے پر تیار ہو‘ وہاں ایک ہارتی ہوئی فوج کا ساتھ دینا دانشمندی نہیں ہوتا۔ جماعت اسلامی نے یہی کیا۔ اس کی قیادت کو عوامی موڈ کا اندازہ کرتے ہوئے مشرقی پاکستانی عوام کا ساتھ دینا چاہیے تھا‘ جو اس نے نہیں کیا۔ مشرقی پاکستانیوں پر جماعت اسلامی کے نوجوانوں کے مظالم کی داستانیں بھارتی اور بھارت نواز میڈیا نے پھیلائیں اور آج تک بنگالی قوم پرست‘ جماعت اسلامی کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ آزاد بنگلہ دیش میں عوامی لیگ سے مقابلہ کرنے والے بنگالی اپنے قدم جمانے لگے ہیں‘ لیکن عوامی لیگ کی حکومت‘ بھارتی سرپرستی میں اپنے مخالفین کو ریاستی طاقت کے ساتھ کچلنے کی کوشش میں لگی رہتی ہے۔ مطیع الرحمن کی حالیہ پھانسی بھی اسی مہم کی ایک کڑی ہے‘ لیکن جتنی بہادری کے ساتھ مطیع الرحمن نے پھانسی پائی‘ اسے بنگلہ دیش کے عوام ہمیشہ یاد رکھیں گے اور ان یادوں کے سائے میں پلنے والی نئی نسل‘ عوامی لیگ کی نام نہاد جمہوریت کے خلاف ہو گی اور بنگلہ دیش کے عوام کی آزادی کی جنگ میں جماعت اسلامی کی نئی نسل قوم پرستی کا پرچم اٹھانے والوں کی صف اول میں ہو گی۔ یہ پارٹی جس جذبے‘ جرات اور بہادری کے ساتھ پھانسیوں کے پھندے چوم کر جانیں قربان کر رہی ہے‘ اس کے اثرات سے کوئی الگ نہیں رہ سکتا۔ یہ پھانسیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ ایک نئی بنگالی قوم جنم لے گی‘ جو مغربی بنگال کے عوام کے ساتھ مل کر‘ سارے بنگال کو آزاد کرائے گی۔ یہ میرا خواب سہی۔ مجھے توقع ہے کہ یہ حقیقت میں بھی بدل سکتا ہے۔