"NNC" (space) message & send to 7575

موجودہ سیاسی منظرنامہ

جس طرح غلط کاریوں پر کرکٹ کے کھلاڑیوں پر پابندی لگائی جاتی ہے‘ ایسا کوئی ضابطہ سیاست کے کھیل میں نہیں ہے۔ حال ہی میں‘ بدتمیزیاں کرنے اور کھیل میں عدم دلچسپی کی بنا پر احمدشہزاد کو انگلینڈ جانے والی ٹیم میں شامل کرنے کے بعد‘ خراب رویئے کی بنیاد پر کیمپ میں اور اب انگلینڈ جانے والی ٹیم میں لے جانے سے بھی انکار کر دیا گیاہے۔اسی طرح سیاست کے بہت سے کھلاڑیوں کو بھی ان کے تجربے کی وجہ سے تھوڑے یا کم عرصے کے لئے کھیل کے میدان سے باہر کر دیا جاتا ہے۔ ان دنوں میاں منظوروٹوکو آہستہ سے باہر بٹھایا گیا ہے۔ لیکن وٹو صاحب ایسی چیز نہیں کہ باہر نکل کر آرام سے بیٹھ جائیں گے۔ وہ کچھ نہ کچھ کرتے ضرور رہتے ہیں۔ ایک بار وہ یہی کچھ کرتے ہوئے صوبائی اسمبلی کے 18اراکین کے ساتھ وزیراعلیٰ بن گئے تھے۔ دونوں بڑی پارٹیاں ‘ پنجاب کی وزارت اعلیٰ اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتی تھیں۔ لیکن وٹو صاحب نے ایسا ہاتھ دکھایا کہ ممبروں کی تعداد زیادہ ہونے کے باوجوددونوں پارٹیاں ‘میاں منظور وٹو کو وزیراعلیٰ بنانے پر راضی ہو گئیں۔ یہ وٹو صاحب کی ہنرمندی تھی کہ جن دونوں پارٹیوں کے اراکین کی تعداد وٹوصاحب کے حامی اراکین سے تین تین چار چار گنا تھی‘ انہیں وزارت اعلیٰ سے محروم کر کے‘ وٹو صاحب کرسی پر بیٹھ گئے اور جب تک حالات پوری طرح نہیں بدل گئے‘ اس کرسی پر ڈٹے رہے۔ آخری مرتبہ انہوں نے پیپلزپارٹی کا اتحادی بن کر وزارت اعلیٰ کے مزے لوٹے اور جب پیپلزپارٹی کا انجرپنجر ڈھیلا ہو گیا‘ تو پھر اسی میں شامل ہو گئے۔ اسے کہتے ہیں مجبوری کا نام شکریہ۔ نہ پیپلزپارٹی کے ہاتھ میں کچھ رہ گیا تھا‘ نہ منظور وٹو کے۔ ایک اندھا‘ ایک کوڑھی؟ رب نے بنائی جوڑی۔ 
یہ جوڑی‘ سیاست کے موجودہ گھمسان کے رن میں اپنا حصہ لینے کے لئے ہاتھ پائو ں مار رہی ہے۔ وٹو صاحب کو کولڈ سٹور میں رکھ دیا گیا ہے۔ مگر وہ آرام سے بیٹھنے والے نہیں۔ فی الوقت انہیں سیاسی دائو پیچ دکھانے کے لئے جگہ نہیں مل پا رہی۔ کیونکہ وہ جس پارٹی کے اندر ہیں‘ اس پارٹی کا ''اپنا اندر ‘‘شدید کشمکش میں ہے۔ بے نظیربھٹو کی شہادت کے بعد‘ آصف زرداری کے حواریوں نے سمجھا تھا کہ زرداری صاحب کی لاٹری نکل آئی ہے۔ لیکن عملی سیاست نے ثابت کیا کہ لاٹری میں نکلی لیڈرشپ‘ میدان سیاست میں کام نہیں آتی۔ دوسروں سے زیادہ یہ بات خودزرداری صاحب سمجھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنے یا بنانے کے باوجود‘ انہیں ملک کا چیف ایگزیکٹو بننے کا حوصلہ نہ پڑا۔ ان کے بیشتر دوستوں کی رائے تھی کہ ''صاحب‘‘ کو وزیراعظم بننا چاہیے۔ ان مشیروں کا مقصد زرداری صاحب کو ہمہ مقتدر بنانا نہیں بلکہ انہوں نے اپنے دونوں ہاتھ جس کام کے لئے تیار کئے تھے‘ وہ وزارت عظمیٰ کی مدد سے ہی کئے جا سکتے تھے۔ دوسری طرف زرداری صاحب کو اچھی طرح معلوم تھا کہ اگر وہ وزیراعظم بن گئے‘ تو پھر ان کی ایسی درگت بنے گی کہ دوبارہ چیف ایگزیکٹو بننے کا نام نہیں لیں گے۔ انہوں نے آئین کی آڑ میں چھپ کر وارداتیں کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ اس کے باوجود انہیں کھل کھیلنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ اس وقت کے چیف جسٹس چوہدری افتخار پنجے اچھی طرح جھاڑ کے ان کے پیچھے پڑنے کو تیار بیٹھے تھے۔ جیسے ہی زرداری صاحب نے حلف اٹھایا‘ وہ ایکشن میں آ گئے۔ انہوں نے اس بات کا بھی انتظار نہیں کیا کہ زرداری صاحب کے خلاف کوئی مدعی اپنا کیس لے کر عدالت میں حاضری دے۔ وہ صبح کے اخبارات لے کر بیٹھ جاتے اور کوئی ایسی خبر یا تبصرہ تلاش کرتے‘ جس کا ازخود نوٹس لے کر وہ زرداری صاحب پر قانون کا ڈنڈا چلا سکتے۔ لیکن یوں لگتا ہے کہ زرداری صاحب نے بھی سکول میں ماسٹر کے ڈنڈے سے بچنے کی خوب پریکٹس کی تھی۔ انہوں نے افتخار چوہدری کے قانونی ڈنڈے کو کہیں بھی چوٹ لگانے کا موقع نہیں دیا۔
جو بھی ان کی ترچھی نظروں کی زد پر آیا‘ اسے رگید ڈالا۔ لیکن ان کا اصل شکار آصف زرداری‘ ان کی ہر ترچھی نظر کو مروڑ کے ناکارہ بنا دیتا۔ لیکن جو ہتھیار انہوں نے آصف زرداری پر اٹھا لئے تھے‘ ان کا وار ضائع کرنا بھی انہیں گوارا نہ تھا۔ چنانچہ انہوں نے صدر کے بجائے وزیراعظم کو اپنا ہدف بنا لیا۔ ہرچند جج صاحب ایک عرصے تک ناکام وار کرتے رہے۔ لیکن اس دوران انہوں نے بہت سے لوگوں کو گھائل کر دیا تھا۔ زرداری صاحب کے متعدد ساتھیوں کو قانون کے ایسے چرکے لگائے کہ ان کے لئے نارمل زندگی گزارنا مشکل ہو گیا۔ چیف الیکشن کمشنرفخرالدین جی ابراہیم ایک دیانتدار اور منصف مزاج افسر تھے لیکن بڑھاپے نے انہیں کمزور کر دیا تھا۔ دوسری طرف جج صاحب ''آدم بو آدم بو‘‘ کرتے ہوئے دندنا رہے تھے۔ بزرگ اور بیمار فخرالدین جی ابراہیم نے ‘ طاقت کے نشے میں دھت جج کو ہر طرف کشتوں کے پشتے لگاتے دیکھا‘ تو خاموشی سے اپنا دفتر چھوڑ کر کراچی میں گھر جا بیٹھے۔ اس کے بعد جج صاحب نے الیکشن کمیشن پر ہی قبضہ کر لیا اور ایسے ضابطے بنائے کہ پورا الیکشن ان کے کنٹرول میں چلا گیا۔ انہوں نے جیسے چاہا‘ اپنے پسندیدہ لیڈر کی پارٹی کو کامیاب بنانے کے تمام حربے استعمال کئے۔ ان حربوں کے نتیجے میں جو گنجائش پیدا ہوئی‘ اس کا فائدہ جج صاحب کی پسندیدہ پارٹی کے لیڈر نے خوب اٹھایا۔ یہاں میں نجم سیٹھی کی شہرت کے خلاف بات کروں گا۔ یہ تصور بالکل غلط ہے کہ عام انتخابات کے دوران پنجاب میں انہوں نے ن لیگ کو فوائد پہنچائے۔ 
ایسی کوئی بات نہیں تھی۔ شریف برادران نے انہیں جھاڑ پونچھ کر وزیراعلیٰ ہائوس میں بٹھا دیا تھا۔ وہاں ان کے لئے نہ کوئی سٹاف تھا اور نہ ہی طاقتور افسروں کاجھرمٹ۔ سارے طاقتور افسر‘ رائیونڈ اور ماڈل ٹائون میں دفتر لگا کر بیٹھ گئے اور سارے انتخابی نتائج کا کنٹرول شریف برادران پر چھوڑ دیا۔ جو چیف منسٹر ہائوس سیٹھی صاحب کے گلے پڑا‘ اس میں صرف کچن کا سٹاف رہ گیا تھا۔ وہ جیسے چاہتے اپنی مرضی کا پرہیزی کھانا بنوا کر کھا لیتے۔ مزید انہیں کوئی کام نہیں تھا اور اصل میں یہ آزادی دے دی گئی تھاکہ ''جتنا چاہو ‘ کھائو۔‘‘ زور ''کھائو ‘‘ پر ہے۔ انتخابی نتائج کی نوک پلک سنوارنے میں سیٹھی صاحب کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ جو کچھ ہوا‘ اس کی ذمہ داری شریف برادران پر تھی اور انہوں نے اپنی آزادی کا خوب فائدہ اٹھایا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ شریف برادران کی ساری طاقت پنجاب سے جمع ہوئی تھی اور پنجاب میں کھل کھیلنے کی آزادی انہیں نجم سیٹھی نے فراخ دلی سے مہیا کر دی تھی۔ میری رائے کے مطابق نجم سیٹھی کے لئے کرکٹ کنٹرول بورڈ کے بجائے‘ پنجاب کا گورنر ہائوس موزوں تھا۔ اصل میں وہ سیاست کے کھلاڑی ہیں اور گورنر ہائوس میں بیٹھ کر قابل ذکر سیاسی سرگرمیاں کر سکتے تھے۔ سیاست کے میدان میں منظوروٹو اور نجم سیٹھی دونوں ایک جیسے انجام دوچار ہوئے۔ میرا ارادہ پاناما لیکس کے لگائے ہوئے گھمسان کے سیاسی رن پر لکھنے کا تھا اور میں قارئین کو بتانا چاہتا تھا کہ سیاست کی انتہائی خونخوار جنگ بھی کیسے سوچ سمجھ کے لڑی جاتی ہے؟ موجودہ سیاست کے اصل کھلاڑی‘ نوازشریف اور آصف زرداری ہیں۔ دونوں نے کافی عرصہ پہلے سے یہ سمجھوتا کر رکھا ہے کہ ''تو میرا ہاتھ نہ روک۔ میں تیرا ہاتھ نہ روکوں گا۔‘‘ دونوں نے اپنا اپنا وعدہ پورا کیا۔ نوازشریف نے آصف زرداری کو سندھ میں کھلی چھوٹ دی اور آصف زرداری نے پورا ملک نوازشریف کے حوالے کر دیا۔ جس کا دل جہاں چاہا‘ اس نے آزادی سے بڑے بڑے ہاتھ مارے۔ سیاست کے میدان میں جو گھمسان کا رن پڑا ہوا ہے‘ وہ صرف چھوٹے کھلاڑیوں کو بہلانے کی خاطر ہے۔ تاکہ وہ یہ سمجھیں کہ ہم بھی کوئی سیاسی کردار ادا کر رہے ہیں۔ لیکن سچ یہ ہے کہ یہ دونوں اپنی اولادوں کو بھی اصل سیاست کے قریب نہیں آنے دے رہے۔ میاں صاحب نے اپنے بچوں کو 
دولت کی بھول بھلیوں میں دھکیل کر خود کو سیاسی زور آزمائی کے لئے وقف کر دیا ہے۔ جبکہ آصف زرداری نے اپنے نوجوان بیٹے کو سیاست کے دائو پیچ سکھائے بغیر گارڈز کی نگرانی میں‘ سیاست کرنے کے لئے چھوڑ دیا ہے۔ سیاسی جنگ کا اصل فیصلہ زرداری اور نوازشریف ایک دوسرے کی مدد سے کریں گے اور جتنے سیاسی جنگجو‘ محاذ جنگ کا نقشہ بنائے بیٹھے ہیں‘ انہیں اچانک سمجھ آئے گی کہ جنگ کا نتیجہ تو دونوں بڑے کھلاڑیوں نے مل کر مرتب کیا ہے۔ فوج اسی طرح خاموش تماشائی بن کر رہی‘ تو سیاست اسی طرح دونوں پہلوانوں کے درمیان رہے گی۔ رہ گئے عوام؟ تو انہیں سسکنے بلکنے کی کافی تربیت مل چکی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں