راجہ ریاض نے پیپلز پارٹی کے ووٹروں کی مفلوک الحالی دیکھ کر‘ تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کر دیا ہے۔ ان کے پاس دوسرا راستہ نہیں تھا۔ وہ فیصل آباد میں رہتے ہیں۔ فیصل آباد میں ن لیگ پر دو طاقتور گروپوں نے قبضہ کر رکھا ہے۔ دوسری طرح یوں کہہ سکتے ہیں کہ وہ قبضہ کرنے کے بعد طاقتور ہوئے۔ دولت ان کے گھر کی لونڈی ہے۔ دنیاوی دولت تو رہی ایک طرف‘ علم اور ذہانت بھی ان دونوں گھروں کی لونڈیاں اور لونڈے ہیں۔ جنرل ضیاالحق نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت سیاست کو گھیر کے‘ سرمایہ داروں کے گھروں میں پہنچایا یا سرمایہ داروں کو دھکیل کر سیاست میں ڈالا۔ محترمہ بے نظیر شہید نے‘ جنرل ضیاالحق کے بوئے ہوئے سیاسی کلچر سے تنگ آ کر جو تبصرہ کیا‘ مجھے آج بھی یاد ہے۔ ان سے کسی نے ڈرتے ڈرتے پوچھا کہ ''سنا ہے آپ پیسہ بھی کمانے لگی ہیں؟‘‘ بی بی نے جھلا کر جواب دیا ''کیا کروں؟ الیکشن نہیں لڑنی؟‘‘ اس سے ان کے تجربے کی تلخی کا اندازہ ہوا۔ گزشتہ رات اپنے ایک ٹی وی پروگرام میں بی بی جگنو نے‘ بے نظیر شہید کا ایک واقعہ سنایا‘ جس میں بی بی نے جگنو سے کہا تھا ''اب تو سیاست بھی پیسے کا کھیل بن گیا ہے۔ تم سوچتی ہو گی کہ میں پیسے میں دلچسپی لینے لگی ہوں‘ لیکن کیا کروں؟ جب جیل سے رہا ہو کر آنے والا کوئی کارکن‘ مجھے اپنی پیٹھ ننگی کر کے کوڑوں کے نشان دکھاتا ہے‘ اور دوسرا کارکن اپنی قید کے دوران بچوں کی زبوں حالی کے واقعات سناتا ہے یا قرض لینے کے نتیجے میں پیش آنے والے دکھوں اور اذیتوں کی کہانی سناتا ہے‘ تو میں کیا کروں؟ انہیں نوکری نہ دوں؟‘‘ غالباً انہی تلخ تجربات سے گزرنے کے بعد بی بی نے آصف زرداری سے شادی کا فیصلہ کیا۔ بی بی نے آصف زرداری کو بہت پیسے والا نوجوان سمجھا۔ پیسہ ان کے پاس تھا‘ لیکن سیاست کے ضیائی کلچر میں‘ میاں نواز شریف کے خاندان کے ''اتفاقی‘‘ معیار کے مطابق نہیں تھا۔ ہرچند اقتدار میں آنے کے بعد‘ آصف زرداری نے خوب دولت سمیٹی‘ لیکن اس جوڑے کا مقابلہ نواز شریف سے ہو گیا‘ جو پیسے خرچ کر کے سیاست میں داخل ہوئے تھے اور سیاست میں جگہ بنا کر‘ سرمایہ داری کے سمندر میں ایسے ایسے غوطے لگائے کہ سارے سیاستدان‘ ان کے سامنے پانی بھرتے نظر آئے۔ میاں صاحب کی خوبیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ اپنی پارٹی میں آنے والے ہر کمائو پوت کو پہچان کر ایسے کام دیتے کہ وہ بھی کروڑ پتی بن جاتا۔ آج صورتحال یہ ہے کہ میاں صاحب نے جتنے کروڑ پتی بنائے‘ وہ سب کے سب مختلف شہروں میں ان کی پارٹی کے لیڈر ہیں۔ دولت کی اس طاقت نے انہیں ناقابل شکست بنا دیا ہے۔
بی بی نے راجہ ریاض کو غریب کارکنوںکے پیٹ بھرنے کے لئے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ان گنت چیک دے دیئے تاکہ وہ ضرورت مندوں میں بانٹ کر‘ پارٹی کے حامیوں کی تعداد میں اضافہ کریں۔ مگر یہاں یہ حال تھا کہ راجہ ریاض نے‘ اپنے گھریلو اخراجات پر بھی‘ سرکاری چیک خرچ کرنا شروع کر دیئے۔ دھوبی کپڑے لاتا‘ تو اسے چیک ملتا۔ نائی بل مانگتا‘ تو اس کے ہاتھ میں چیک تھما دیتے۔ مگر وہ ن لیگ کے کروڑ پتیوں کے مقابلے میں اپنی لیڈری کیسے چلاتے؟ ناچار تحریک انصاف میں جا رہے ہیں۔ یہ پارٹی ابھی اقتدار سے بہت دور ہے اور اقتدار ملا بھی‘ تو دولت کے جھرنے ان کے گھر میں نہیں گریں گے۔ پارٹی کے لیڈر عمران خان‘ ایک ایماندار آدمی ہیں اور ایماندار شخص بڑا کنجوس ہوتا ہے۔ وہ ن لیگ کی شاہ خرچیوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا (صبح کی خبر تھی کہ راجہ ریاض تحریک انصاف میں جا رہے ہیں۔ میں نے کالم لکھ دیا۔ اب خبر آ گئی ہے کہ نہیں جا رہے)۔ دوسری طرف میاں نواز شریف کی طاقت اور تمکنت کا یہ عالم ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں‘ دنیا کے اندر جا بجا پھیلے ہوئے اپنے خزانوں کا حساب دینا بھی گوارا کرنے کو تیار نہیں۔ ان کی ''ناٹک کمپنی‘‘ نے کئی دن پہلے سے ہی باریاں لگا لگا کر کہنا شروع کر دیا تھا کہ ''میاں صاحب؟ اور پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہی؟ یہ منہ اور مسور کی دال؟‘‘ دولت کے لئے سیاست کرنے والے‘ مادر وطن سے کیا سلوک کرتے ہیں؟ اس کی چند جھلکیاں محمد حنیف نے ''نیو یارک ٹائمز‘‘میں دکھائی ہیں‘ جن کا ترجمہ بی بی سی اردو ڈاٹ کام میں شائع ہوا۔ وہی پیش خدمت ہے۔
''ایک تھے ہمارے ٹھیکیدار دوست۔ سرکاری ٹھیکے لیتے، رشوت خوب دیتے، مال بھی خوب بناتے اور پھر اپنے کارنامے ہمیں مزے لے لے کر سْناتے۔ ایک دن ہم نے بِھنّا کر کہا کہ یار چوری پر اِتنا فخر؟ اْنہوں نے کہا: بھیا چوری کاہے کی؟ ملک اپنی ماں ہے۔ جو ماں کا ہے وہ ہمارا ہے۔ ماں سے لیا تو چوری کیسے کی؟ جب ماں کا دھیان اِدھر اْدھر ہو تو اْس کے پلّو سے دو چار روپے تو تم بھی نکال ہی لیتے ہو گے۔
گزشتہ ہفتے بلوچستان میں نوٹوں سے بھرے کمرے اور گاڑیاں، ارب پتی بریگیڈیئر اور پاناما لیکس میں لِکھے ہوئے نام پڑھ کر خیال آیا کہ یا اللہ ہماری ماں کا پّلو ہے یا قارون کا خزانہ کہ ہم نسلوں سے چرا رہے ہیں‘ اور ختم ہونے میں ہی نہیں آتا؟ پڑھے لکھے لوگ ہمیں یہ بتا رہے ہیں کہ ہمارے سیاست دان اور سیٹھ (اور اکثر سیٹھ سیاستدان) اپنی جائیدادیں باہر اِس لیے رکھتے ہیں کہ اِس ملک میں سرمایہ کاروں سے نفرت کی جاتی ہے۔ آج حکومت میں ہیں تو کل جیل میں۔ آخر وہ اپنے بچوں کے مستقبل کی فکر نہ کریں؟ یہ دانا لوگ ہمیں یہ بتانا بھول جاتے ہیں کہ آدھے سے زیادہ پاکستان بنِ ماں کا بچہ ہے۔ ایک دفعہ سینئر تجزیہ کار سِرل المیڈا نے کہا تھا کہ پاکستان میں زیادہ تعداد ایسے لوگوں کی ہے جنہوں نے کبھی یہ دیکھا ہی نہیں کہ سکول اندر سے کیسا دِکھائی دیتا ہے یا ہسپتال کے اندر کیا مزے ہوتے ہیں؟ لیکن ظاہر ہے اِس مخلوق کو ہم ٹی وی پر کم کم دیکھتے ہیں۔ ٹی وی پر آج کل چوروں کا شور جاری ہے۔ کوئی کہتا ہے‘ تم تو ہو ہی عادی چور۔ دوسرا کہتا ہے‘ تمہارا باپ بھی چور تھا۔ پھر کوئی کہتا ہے لیکن پکڑے تو تم گئے ہو۔ کرپشن پر بحث ایسی ہی ہے‘ جیسے جمعے کے خطبوں میں علما حضرات گناہ گاروں کا دِل گرمانے کے لیے حور و غلمان کا ذکر کرتے ہیں۔
ہم سے ووٹ مانگنے والوں نے تو لندن اور نیویارک میں گھر بنا رکھے ہیں۔ ہمیں اندر سے یہ سْن کر خوشی ہوتی ہے کہ ہم نہ سہی ہمارے کسی فوجی بھائی نے‘ ارب پتی بننے کا طریقہ سیکھ لیا ہے۔ ہم سب کو اندر سے یقین ہے پیسے بنانے کا کوئی سیدھا اور ایماندارانہ طریقہ نہیں ہے۔ کسی سیانے نے کہا تھا کہ آپ 50 ہزار تو حلال طریقے سے کما سکتے ہیں شاید 5 لاکھ بھی لیکن 50 کروڑ بنانے کے لیے چوری کرنی پڑتی ہے۔ اگر ہمارے ملک میں کرپشن کی سرایت کو سمجھنا ہو تو دارالحکومت اسلام آباد پر ہی نظر ڈال لیں۔ نِصف صدی پہلے کچھ جرنیلوں، سرکاری افسروں اور سیاستدانوں نے ایک خوبصورت جنگل چن کر دھڑا دھڑ ایک دوسرے کو الاٹ کرنا شروع کر دیا‘ اور دو نسلوں بعد پاکستان کا سب سے مہنگا شہر وجود میں آ گیا۔ جِس ملک کے دارالحکومت کی بنیادیں ہی ایسے کھڑی ہوں‘ اْس میں کسی سیاستدان یا چند سرکاری ملازمین کا نام اْچھالنے سے کچھ نہیں ہو گا۔ سْنا ہے اسلام آباد کا علاقہ چک شہزاد اِس لیے بنا تھا کہ کھیتی باڑی کرنے والوں کو دیا جا سکے۔ آج وہاں رہنے والوں سے پوچھیں کہ پیاز زیرِ زمین اْگتا ہے کہ درختوں پر لگتا ہے تو وہ کہیں گے ''کیا ہم تمہیں کمّی کمین لگتے ہیں۔‘‘
سیٹھوں، ججوں، جرنیلوں اور سرکاری ملازمین کو تو چھوڑیں ہم جو اپنے آپ کو قلم کا مزدور کہتے ہیں، مساوات اور اِنسانی حقوق کی چھابڑی لگا کر بیٹھے ہیں۔ ہمارے پریس کلب بھی اس انتظار میں رہتے ہیں کہ کوئی راہِ خدا کچھ دے جائے۔ ہمارے ہر چارٹر میں بھی مطالبہ ہوتا ہے کہ صحافیوں کو پلاٹ دیے جائیں۔ ہمارے شہروں کی آرٹ کونسل میں ہر طرح کے آرٹسٹ ہیں لیکن زیادہ تر ظاہر ہے شاعر ہیں۔ آرٹ کونسل بھی مطالبہ کرتی ہے کہ ہمیں بھی پلاٹ دیے جائیں۔ سوچتا ہوں کہ اگر ریاست ہر شاعر کو پلاٹ دینے لگے‘ تو ہندوستان کے ساتھ دو چار اور ملک بھی فتح کر لیں پھر بھی زمین کم پڑ جائے گی۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم جیسے خواب بیچنے والے بھی‘ ایک آنکھ سے ستاروں پر کمند ڈالتے ہیں‘ دوسری آنکھ ماں کے پرس پر رکھتے ہیں۔‘‘