پاناما لیکس کا یہ خربوزہ‘ جس کی ایک ایک قاش ہم سب ‘ مدتوں پہلے کھا چکے ہیں‘ پتہ نہیں کیوں ہمارے بہت سے دوست‘ اس بچے ہوئے خربوزے سے امید لگائے بیٹھے تھے کہ16مئی کو یہ میٹھا ہو جائے گا۔ باقی ماندہ خربوزہ ہمیں آج16مئی کو ملنا ہے۔ لیکن میں نے کئی بار اس خربوزے کی ایک ایک پھانک کھا کر دیکھی ہے اور یہ جانتا ہوں کہ اس میں مٹھاس ہرگز پیدا نہیں ہو گی۔ اس کی خوشبو تو بہت دن پہلے ختم ہو چکی تھی۔ اب صرف خالی گودا ‘رہ گیا ہے‘ جو آج کی شام قومی اسمبلی میں بانٹا جائے گا۔ اڑے ہوئے رنگ‘ اڑی ہوئی خوشبو اور اڑے ہوئے ذائقے والے اس خربوزے کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بٹ جائیں گے۔ لیکن اس پھیکے اور خوشبو سے محروم کھیل کا نتیجہ کچھ نہیں نکلے گا۔ یہ پھیکا خربوزہ کھانے کا مشغلہ اسی طرح تھا‘ جیسے سرتاج عزیز‘ راجہ ظفرالحق‘ اسحق ڈار یا چوہدری سرور کی تقریریں سن لی ہوں۔ آج شام کو ہمارے ساتھ یہی کچھ ہونے والا ہے۔ جیسے انتظار کرتے کرتے پھیکے خربوزے کا ایک ٹکڑا کسی کے ہاتھ لگا ہو۔ آج شام‘ پارلیمنٹ کی کارروائی کے بعد ہم سب اتنے بدمزہ ہوں گے‘ جتنے 1993 ء کے الیکشن اورحال میں بلدیاتی انتخابات کے بعد ہوئے تھے۔ پشاور کے حالیہ ضمنی الیکشن کے بعد تو اب یہ امید ہی ختم کر دینا چاہیے کہ موجودہ حکومت کے دور میں پاکستان میں ہونے والے کسی الیکشن کا خربوزہ میٹھا نکلے گا۔ مجھے تو اپنی زندگی میں کبھی میٹھا خربوزہ ملتا نظر نہیں آ رہا۔ میاں صاحب کے دور اقتدار میں جتنے خربوزے بھی لگیں گے ‘سب کے سب بدمزہ ہوں گے۔ ان کے بعد عزیزہ مریم نواز‘کھیت کی ذمہ داریاں سنبھالیں گی اور پھیکے خربو زوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔
آج شام کو وزیراعظم نوازشریف‘ لمبے انتظار کے بعد جو خربوزہ کاٹ کر بانٹیں گے‘ وہ اسی کھیت کا ہو گا‘ جس کا خربوزہ گزشتہ 31سال سے کھاتے آرہے ہیں۔ درمیان میں پرویزمشرف نے اپنی فصل بونے کی کوشش کی تھی۔ لیکن خربوزے اسی کھیت میں اگتے رہے‘ جس میں فصلیں بونے اور کاٹنے کا اختیار صرف میاں صاحب کے مزارعین کے پاس تھا۔ پرویزمشرف نے کھیت پر قبضہ کرنے کی بہت کوشش کی لیکن قبضہ میاں صاحب کے مزارعین کا ہی رہا۔ و ہ سعودی عرب میں بیٹھ کر‘ مزارعین کے ذریعے کھیتی باڑی کرتے رہے اور جب واپس آئے‘ تو اپنے کھیت سنبھال لئے۔ بعد میں پانچ سال کے لئے آصف زرداری کو اس کھیت کی ذمہ داریاں ملیں۔ لیکن جو اختیار فوجی طاقت کے باوجود پرویزمشرف کو نہ مل سکا‘ وہ آصف زرداری کے ہاتھ کیسے لگتا؟ ہمیں اس نظام کو سمجھنا چاہیے جس کے تحت پاکستان کی عوامی طاقت روبہ عمل آتی ہے۔ ہم نے آزادی حاصل کرنے کے فوراً بعد ‘ ریاستی طاقت کے ڈھانچے کو جس طرح استعمال کرنا شرع کیا‘ اس کا نتیجہ وہی نکلنا تھا‘ جو ہم آج دیکھ رہے ہیں۔ دور غلامی میں انگریزوں کے زیرسرپرستی‘ جس جمہوری نظام کا ہم نے تجربہ کیا‘ اس میں چند گنے چنے خاندانوں کی حکومت معرض وجود میں آئی تھی۔ سندھ میں تو وہی وڈیرہ شاہی قائم رہی۔ وہاں پر بھٹو صاحب کے انقلاب کے بعد بھی‘ انگریزی دور میں چنے جانے والے چند خاندانوں کی حکمرانی ہی جاری رہی۔ بلوچستان میں طویل فوجی آپریشن کے بعد ‘ہم سرداروں کی حکمرانی کا خاتمہ نہ کر پائے۔فوج نے بھی حکمرانی کے لئے سرداروں ہی کا سہارا لیا۔ آج بھی وہاں انہی کا کنٹرول ہے۔
خیبرپختونخوا میں میاں صاحب نے اے این پی اور مولانا فضل الرحمن کو اپنے حلقہ ارادت میں شامل کر لیا۔ لیکن تحریک انصاف‘ اچانک عوامی طاقت کے ساتھ قابل ذکر نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی اور اس نے جماعت اسلامی کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنا لی۔ مگر آج بھی میاں صاحب کا مسلط کردہ نظام ہی موثر ہے۔ ہرچند حکومت میں مختلف پارٹیاں ہیں لیکن میاں صاحب کو قابل ذکر انتخابی قوت حاصل ہو گئی ہے۔ صوبائی اسمبلی کے حالیہ انتخاب میں میاں صاحب کے امیدوار کو اکثریت ملی۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ آنے والے انتخابات تک میاں صاحب کس طرح اپنی جڑیں پھیلائیں گے؟ اس کے امکانات کم نہیں؛ کیونکہ مولانا فضل الرحمن کو انہوں نے اپنا قابل اعتماد اتحادی بنا لیا ہے۔ اے این پی کے ساتھ ان کا دیرینہ سمجھوتہ مضبوط ہوتا جا رہا ہے اور اگلے انتخابات اگر میاں صاحب کی بنائی ہوئی عبوری ٹیم نے کرائے‘ تو وہ اپنی پارٹی کے ساتھ دونوں مذکورہ اتحادیوں کو لے کر اچھی خاصی پوزیشن لے سکتے ہیں اور ہو سکتا ہے‘ آئندہ مخلوط حکومت بھی میاں صاحب کی ہو۔
پنجاب میں ان کا مکمل کنٹرول ہے۔ 2008ء میں میاں برادران کو پنجاب میں پورا کنٹرول حاصل ہو گیا۔ آصف علی زرداری کی کمزور حکومت کے دوران‘ میاں صاحب نے اپنی پرانی جڑیں مزید مضبوط کرنے کے ساتھ‘ نئے انتخابی حلقے بھی بنا لئے۔ 2013ء میں انہوں نے مرضی کی عبوری حکومت بنا کر‘ مرضی کے نتائج حاصل کئے اور وہ اب تک انتخابی اعتبار سے فیصلہ کن طاقت حاصل کر چکے ہیں۔ پاناما سکینڈل شروع ہوا‘ تو یوں لگتا تھا کہ میاں صاحب کا سنبھلنا مشکل ہو جائے گا۔ لیکن انہوں نے انتہائی کامیابی کے ساتھ جوابی اقدامات کر کے‘ اپنے اقتدار کو لاحق
خطرات بے اثر کر دیئے۔ سب سے پہلے انہوں نے پاناما سکینڈل کا زور توڑنے کے لئے طرح طرح کے جوابی وار کر کے‘ مخالفین کی طاقت منتشر کر دی۔ حکومتی مشینری نے مختلف تدبیروں کے ذریعے یہ تصور پھیلا دیا کہ پاناما کی آف شور کمپنیاں کوئی غیرمعمولی چیز نہیں ہوتیں۔ وہ سرمایہ کاری کا ایک جائز طریقہ ہے۔ آخر میں عمران خان کی ایک پرانی آف شور کمپنی کا سراغ نکال کر‘ اسے اپنی آف شور کمپنیوں کے مساوی ثابت کرنے کی مہم چلائی۔ چونکہ میڈیا حکومت کے کنٹرول میں ہے‘ اس لئے عمران خان کی بھولی بسری آف شور کمپنی کو ‘ اپنی کمپنیوں جیسا بنا کر زبردست پراپیگنڈہ مہم چلا دی۔ کابینہ کے وزرا بھی ساری طاقت استعمال کر کے‘ ایک کھلے جھوٹ کو سچ میں بدلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کھلا جھوٹ یہ ہے کہ کرکٹ کے ممتاز کھلاڑی کی حیثیت سے عمران خان نے‘ پونڈز میں جو رقم کمائی تھی‘ وہ اس سے اپنے لئے ایک فلیٹ خریدنا چاہتے تھے۔ معلومات حاصل کرنے پر انہیں پتہ چلا کہ اگر وہ یہ فلیٹ آف شور کمپنی بنا کر خریدیں تو مقامی ٹیکس بچایا جا سکتا ہے۔ عمران خان کو یہ رعایت قانونی طور پر حاصل تھی۔ انہوں نے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تھوڑا بہت ٹیکس بچا لیا۔ مجھے نہیں معلوم وہ ٹیکس کتنا تھا؟ چھ سات ہزار پونڈ میں کیا بچایا جا سکتا ہے؟ ایک نہیں تو دو ہزار پونڈ کی رقم بچی ہو گی اور وہ بھی جائز تھی۔ عمران خان نے اس رعایت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فلیٹ خرید لیا اور جب یہ فلیٹ بیچا تو سارا فائدہ اس کے معاوضے میں شامل ہو گیا۔ یوں وہ ساری رقم قانونی طریقے سے پاکستان لے آئے۔ گویا ٹیکس بچا کر جتنے پونڈ عمران خان نے حاصل کئے تھے‘ وہ پاکستان پہنچ گئے۔ وہ کمپنی صرف فلیٹ خریدنے کے لئے بنائی گئی تھی‘ جسے ختم کیا جا چکا ہے۔ بیشک عمران خان پارلیمنٹ میں اپنی پوزیشن واضح کر دیں۔ لیکن اس قانونی ڈیل کو جرم بنا کر جو تاثر میاں صاحب کی حکومت پیدا کر چکی ہے‘ وہ یقینا اثر انداز ہو گیا ہو گا۔ یہ نوٹنکی‘ ہاتھی کو بیل اور بیل کو ہاتھی بنانے کے‘ شاندار مظاہرے کر رہی ہے۔ جس کے اثرات عوام کے ساتھ ساتھ ممبران اسمبلی تک بھی پہنچ رہے ہیں۔ آخری بات یہ کہ میاں صاحب ‘ اپوزیشن کے قلعے میں بھی شگاف ڈال چکے ہیں۔پیپلزپارٹی کی قیادت بلاول بھٹو کے سپرد کرنے کا بھرم کھل گیا ہے۔ وہ صرف بلاول زرداری رہ گئے ہیں۔ثبوت یہ ہے کہ بلاول نے وزیراعظم سے استعفے کا دو مرتبہ مطالبہ کیا لیکن خورشید شاہ پارٹی کے باس کا حکم سن کر‘ استعفے کے مطالبے سے کنارہ کش ہو چکے ہیں۔ سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کے استعفے کے مطالبے سے ''دستبرداری‘‘ کے بعد‘ حکومت کو مزید حمایت ملنے سے ‘ اسے لاحق خطرات ٹل جائیں گے۔ آئندہ انتخابات تک میاں صاحب کے لئے راوی چین لکھتا ہے۔
نوٹ: یہ کالم دوپہر ایک بجے لکھا گیا۔