''دوڑ و دوڑو۔۔۔۔۔پکڑو پکڑو۔۔۔۔۔ بھاگنے مت دو‘‘۔اور مختصر سے ہجوم میں سے دو تین لوگوں نے آگے بڑھ کے‘ آخر کار اسے پکڑ ہی لیا۔انہیں پکڑنے والوں نے پہلے سے تعاقب کرنے والوں سے پوچھا کہ '' اس کا جرم کیا ہے‘‘؟ دو تین ہانپتے ہوئے بندوں نے جواب دیا کہ ''یہ برادری کا مجرم ہے۔اسے ہم منع کرتے تھے کہ بجلی کا پورا بل مت دو لیکن یہ باز نہیں آیا۔ ہم سب کی مصیبت آئے گی۔میٹر ریڈر جو کہ ہم سے مل ملا کر‘ بل میں رعایت دے دیا کرتا تھا۔ اب وہ انتقاماً ہمارے بل بڑھا دے گا۔ چونکہ بدقسمتی سے افسران بالا میں ایک دیانتدار شخص‘ آکے بیٹھ گیا ہے۔ اب نہ وہ میٹر ریڈروں کے ساتھ انڈرسٹینڈنگ کرتا ہے‘ نہ اوپر کے افسروں کے ساتھ۔اس بد بخت نے ہمیں مصیبت ڈال دی ہے۔ہم پورا بل دے کر‘ لائن مین کا حصہ کہاں سے دیں گے؟یہ لوگ معاف کرنے والے نہیں۔ کہتے ہیں کہ تم جانو اور تمہارا کام جانے ۔ہم کب کہتے ہیں کہ بجلی کا بل پورا دو؟ نہ ہم تمہیں کہتے ہیں کہ ہمیں اپنی جیب سے ہمارا حصہ دو۔ ہم تو بل میں ہی دونوں انتظام کر دیتے ہیں۔ ہمارا حصہ بھی دے دو اوراپنی بچت بھی کر لو۔ پھر بھی تم میں سے کوئی غداری کر کے‘ پورا بل ادا کر دے تو ہم اپنا گزارہ کیسے کریں؟اس نے مصیبت کھڑی کر دی ہے۔پکڑو اور مارو‘‘۔ہجوم نے اپنا کام شروع کر دیا۔انہیں ان کے حال پر چھوڑتے ہیں اور میں اپنی صحافت جھاڑتاہوں۔جب سے کرپشن قومی سطح پر جائز قراردی جا چکی ہے اور ہمارے وزیراعظم اپنے بچوں کو اس میں نہلا رہے ہیں‘ اس کے بعد‘ایمانداری کرنا ''لاقانونیت‘‘ ہے۔ اس بدبخت نے بجلی کا پورا بل دے کر‘کرپشن کے اچھے بھلے چلتے ہوئے کام میں خلل ڈال دیا ہے۔اب افسروں کی خوشامداور کچھ دے دلا کر ‘ دوبارہ لائن سیدھی کرناپڑے گی۔
اصل میں ان لوگوں کو جہالت خراب کرتی ہے۔انہیں پتہ ہی نہیں کہ موجودہ حکومت نے کرپشن کو جائز قرار دے دیا ہے۔یہ ایک مہینہ پہلے کی بات ہے کہ اراکین پارلیمنٹ نے چیخ چیخ کے کہنا شروع کر دیا تھا کہ وزیراعظم ‘کرپشن میں ملوث ہیں۔انہوں نے اپنے بچوں کے نام پر لندن میں جمع شدہ سرمایہ جائز قرار دے دیا ہے‘ تو پھر ہمارا کیا قصور ہے؟ ہمیں بھی اپنی اپنی بساط کے مطابق‘ کرپشن کرنے کا حق ہے۔ جو کام وزیراعظم کا خاندان‘ بے خوف و خطر کر رہا ہے اور ان کی تقلید میں جتنے با ہمت لوگ‘ کرپشن میں ہاتھ دھو رہے ہیں‘ اصل میں انہی کو جائز سمجھنا چاہئے۔ لیکن ناجائز پیسے والے بھی ‘ اتنے کمزور نہیں۔ عالمی سرمایہ داروں کا گروپ‘اقوام متحدہ کے ذریعے اس کوشش میں ہے کہ جو سرمایہ‘ آف شور کمپنیوں میں آچکا ہے‘ اسے منجمد کر کے محفوظ کر دیا جائے۔ اگر یہ بھاری سرمایہ‘ ایماندار حکومتوں کے ہاتھ لگ کرٹیکسوں کی زد پر آگیا ‘تو کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ وطن کی حکومتیں اس پر ٹیکس کاٹ کر‘باقی ماندہ رقوم پر‘ اس الزام میں قبضے کر لیں گی کہ اس سرمائے کے مالکوں نے ٹیکس چرا کر‘ دولت دوسرے ملکوں میں جمع کرا ئی اورترقیاتی کام رکوائے ۔ اصل سرمائے کے مالکان ‘بعد میں جتنا چاہیں شور مچائیں‘یہ تو انہیں واپس نہیں مل سکے گا۔البتہ نئے سرے سے کمائی کر کے‘ ٹیکس دیں اور اپنی رقوم جہاں چاہیں‘ جمع کرا دیں۔ یہ باز نہیں آنے والے۔قبل ا س کے کہ یہ سرمایہ اصل مالکان کے ہاتھ لگ جائے‘ انہیں بنکوں کے اندر ہی رکھ لیا جائے اور انٹرنیشنل کانفرنس بلا کر‘ٹیکس چوروں کی دولت محفوظ رکھنے کے طریقے ڈھونڈے جائیں۔ اس دوران نئے عالمی قوانین تیار ہو جائیں گے اورٹیکس چرانے کے محفوظ طریقے جائز ہوجائیں گے۔
پاکستان کی حد تک تو میں پر امید ہوں کہ ہماری پارلیمنٹ کالے دھن کو جائز قرار دینے کے قوانین ‘ نافذ کر دے گی۔اس کے بعد کسی میں ہمت ہو تو ہمارے حکمران خاندان کی لامحدود دولت کی طرف میلی آنکھ اٹھا کر‘ دیکھنے کی جرات تو کرے؟۔پچھلے کچھ دنوں میں ہمارے وزیراعظم نے بے تحاشہ جلسہ وار عوامی رابطوں کی مہم چلائی اورقومی خزانے سے دولت یوں بانٹی‘ جیسے ناجائز ہو۔شاید وزیراعظم کو پتہ نہیں کہ ناجائز دولت کے خزانے میں تو اب چار پیسے بھی نہ بچے ہوں۔بھاری رقوم آف شور کمپنیوں میں جا چکی ہوں گی اور جو کچھ پاکستان میں خرچ کر نے کے لئے رکھا گیا ہے‘ اس میں صرف مسلم لیگ(ن) والوں کے پیٹ بھریں گے۔ وزیراعظم نے جتنے پل‘ سڑکیں‘ ہوائی اڈے‘ سکول‘ کالج‘ یونیورسٹیاں اور ہاسٹلز‘ پہاڑی علاقوں میں بنانے کے دعوے کر ڈالے ہیں‘ ان کے لئے فی الحال رقوم دستیاب نہیں۔ میرا خیال ہے کہ ابھی ان کے منصوبے بھی نہیں بنائے گئے ہوں گے۔ بلڈنگوں کے ڈیزائن بھی تیار نہیں۔سڑکیں کہاں کہاں سے گزاری جائیں گی؟ ان کے سروے بھی نہیں ہوئے۔وزیراعظم کچھ زیادہ ہی جوش میں آگئے ہیں۔ جہاں جاتے ہیں‘ بے شمار منصوبوں کا اعلان کر دیتے ہیں اور حاضرین بیٹھے سوچتے رہ جاتے ہیں کہ یہ سب کچھ کیسے بنے گا؟ کب تعمیر ہو گا؟ جبکہ وزیراعظم ہیں کہ پیچھے مڑ کر دیکھے بغیر‘ آگے ہی آگے بڑھتے جا رہے ہیں۔ ان کے خیال میں شاید ذاتی خزانوں کی رقوم ہوں۔ ہو سکتا ہے انہیں پتہ نہیں کہ جتنے دعوے وہ کر رہے ہیں‘ وہ صرف ان کے ذاتی خزانے سے پورے ہو سکیں گے اور ذاتی خزانہ بچوں کے پاس ہے۔آج کل کے بچوں کا کیا بھروسہ؟ پیسہ قبضے میں آجانے کے بعد‘ وہ کیا کریں؟اور دوسری بات یہ ہے کہ ایمانداری کوتوخود‘ ان کے دور حکومت میںختم کیا جا رہا ہے۔عجیب بھگدڑ اور ہلچل کا منظر ہے۔ وزیراعظم کے پیسے‘ وزیراعظم کی اولاد کے پاس ہیں۔ قومی خزانہ‘ ایسے بیوروکریٹ کے پاس ہے‘جنہیں ایمانداری تر ک کئے مدت گزر گئی۔ یہ بھی کسی کو پتہ نہیں کہ مختلف محکموں کو جو فنڈز بھیجے گئے تھے‘ وہ کہاں پر ہیں ؟ نیب نے بلوچستان میں کارروائی کی‘ تو پہلی ہی کوشش میں ایک بیوروکریٹ کے گھر سے‘ 78 کروڑ روپے مل گئے۔ یہ صوبہ‘ قبائلی ہے۔ قبائلی رجسٹروں‘ چیک ‘ ڈرافٹ اور قانونی کاغذات پر یقین نہیں رکھتے۔ وہ اپنا مال ہمیشہ نقد مانگتے ہیں اور اس کے بعد‘ بوریوں اور تھیلوں میں بھر کے‘ گھر میں رکھ لیتے ہیں۔اس کا چھوٹا سا نقصان یہ ہوا کہ ایک سرکاری افسر کی دولت پکڑ لی گئی۔ یہ اور بات ہے کہ نیب والوں کو نوٹ گننے کے لئے‘ مشینوں کا بندوبست کرنا پڑا۔ رقم اتنی تھی کہ اہلکاروں کے ہاتھ نوٹ گنتے گنتے تھک گئے تھے۔ کل ہی کوئٹہ کی ایک دکان سے ‘ 53لاکھ روپے مزید مل گئے۔اتنی دیر میں سرکاری اہلکاروں کی انگلیاں‘ ٹھیک ہو چکی تھیں اور وہ مشینوں کے بغیر‘ نوٹ گننے میں کامیاب ہو گئے۔
الحمد للہ‘ اب ہمارا معاشرہ بدلنے لگا ہے۔دقیا نوسی قسم کی بے ایمانی مارکیٹ سے آئوٹ ہو رہی ہے۔ سلجھی اورشائستہ بے ایمانی‘ رائج ہو رہی ہے۔کسی زمانے میں سرکاری مال کھانے والے کو نا پسندیدہ نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا اور وہ اپنے محلے میںنظریں چرا کر پھرتا تھا۔ اب سرکاری مال کھانے والوں نے پرانے محلوں میں رہنا چھوڑ کے‘ دیہات میں ڈیرے جما لئے ہیں لیکن یہ ڈیرے بھی عارضی قیام گاہوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اصل رہائش کے لئے یورپ میں قیمتی فلیٹس لے لئے گئے ہیں۔جب تک پاکستان کے قوانین ناجائز دولت‘ جائز طریقے سے رکھنے کی اجازت دیتے رہیں گے۔ ہمارے یہ مہربان بھی وطن عزیز کو رونق بخشتے رہیں گے۔ جیسے ہی کالے دھن کو خطرہ لاحق ہوا۔ یہ ذاتی ہوائی اڈوں سے ذاتی طیاروں میں پرواز کر کے‘ یورپ کے فلیٹوں میں قیام پذیر ہو جائیں گے۔ان لوگوں کے جانے کے بعد‘ ایمانداروں کی مشکلات ختم ہو جائیں گی اور وہ حلال کی روٹی کھا کر‘ خطرات کے بغیر زندگی گزار سکیں گے۔پھر کوئی بجلی کا پورا بل دے کر‘حرام خور افسروں اور ان کے کارندوں کا نشانہ نہیں بنے گا۔ ایماندار ‘بے خوف و خطر گلی محلوں میں آزادی سے پھر سکیں گے۔ حکمرانوں نے اپنی سزائیں پہلے ہی تجویز کر لی ہیں۔ نہ وہ پاکستان میں رہیں گے‘ نہ یہاں کے عوام کے غیظ و غضب کا نشانہ بنیں گے۔ وہ عوام کی نگاہوں سے بہت دور جا کر‘ پردیس میں زندگی گزاریں گے۔ اسے وہ اپنی عیاشی سمجھیں گے اور ہم جلاوطنی۔چوری کی دولت سے جلاوطنی کی سزا کاٹنا کیسا ہوتا ہے؟ اس کا پتہ رضامندی سے جلاوطنی اختیار کرنے والوں کو لگ جائے گا۔یہ اور بات ہے کہ اگر انہیں پھر واپس آنے کا موقع ملا تو مظلوم بن کر کہیں گے‘ ہمیں جبراً جلاوطن کیا گیا۔ ہمارے ساتھ بہت زیادتیاں کی گئیں۔