وزیراعظم میاں محمد نوازشریف دل کے مرض کے علاج کی خاطر‘ لندن کے ہسپتال میں داخل ہوئے تو قریباً تیسرے روز خبر آئی کہ اب وہ ایک سے زیادہ دن ہسپتال میں رہیں گے اور ان کے علاج کے لئے بائی پاس آپریشن تجویز کیا گیا ہے۔ باخبر لوگ جانتے ہیں کہ یہ بڑا پیچیدہ اور مشکل آپریشن ہوتا ہے خصوصاً ایسی صورت میں جب وزیراعظم پہلے بھی ایک بار ایسا آپریشن کراچکے ہیں۔جونہی یہ خبر آئی تو ظاہر ہے‘ اہل خاندان کے علاوہ اہل وطن بھی پریشان ہو گئے۔ میاں صاحب کے شدید ترین مخالف بھی ‘اس آپریشن کی خبر سن کر افسردہ ہو گئے اور شاید ہی کوئی ایسا سیاست دان ہو‘ جس نے میاں صاحب کے لئے دعائے صحت نہ کی ہو۔بعید نہیں کہ کچھ مخالف سیاست دان بھی ‘میاں صاحب کی مزاج پرسی کے لئے لندن چلے جائیں۔ میاں صاحب کے شدید ترین مخالف‘ عمران خان اور بلاول بھٹو ہیں لیکن ان دونوں نے بھی میاں صاحب کی صحتیابی کے لئے دعا کرنے میں تاخیر نہیں کی۔دونوں نے ہی اپنے اپنے ٹویٹ پیغامات میں‘ میاں صاحب کی صحتیابی کے لئے دعا کی۔لیکن آج ہی ایک زبان دراز سیاست دان ‘ جو میاں صاحب کی ٹیم میں شامل ہے‘ نے بلاجواز اچھے ماحول میں اچانک کالی آواز بلند کی اورمخالفین کے پرانے اور بے ہودہ الزامات کا حوالہ دے کر تلخ و ترش باتیں کر ڈالیں۔ میاں صاحب کی علالت کے سبب ملک میں جو ماحول پیدا ہو گیا تھا‘ا چانک اس میں تلخ نوائی کو دیکھتے ہوئے عام شہری بھی سکتے میں آگئے کیونکہ ایسا کوئی تازہ واقعہ نہیں ہوا تھا‘ جس کے جواب میں مقررموصوف کو یہ بدزبانی کرنا پڑتی۔ ہر سرکار کی ایک پگڑی اچھال ٹیم ہوتی ہے اور میاں صاحب کی ٹیم کا سائز ‘ کافی بڑا ہو چکا ہے۔ ایسے حالات میں جبکہ ملک کا وزیراعظم‘ بستر علالت پر پڑا ہو اور بدترین مخالفین بھی ان کی صحتیابی کے لئے دعائیں کر رہے ہوں‘ بلاوجہ مخالفین کے خلاف بدزبانی کرنا‘ کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔
میاں صاحب مخالفین کے ساتھ بھی انسانی اور اخلاقی طرز عمل اختیار کرنے میں ہمیشہ پہل کرتے ہیں۔ حالیہ انتخابی مہم کے دوران‘ جب عمران خان سٹیج پر چڑھتے ہوئے لفٹ سے گرے اور انہیں شدید چوٹیں آئیں توانہیں ہسپتال میں داخل ہونا پڑا۔میاں صاحب‘ جو ان دنوں اپنی انتخابی مہم میںمصروف تھے‘ خان صاحب کی عیادت کے لئے ہسپتال گئے اوراپنی انتخابی مہم ایک دن کے لئے معطل کرنے کا اعلان کر دیا۔اس واقعے سے پہلے‘ جب بی بی بے نظیر شہید کو گولی لگی تو میاں صاحب نے تمام مصروفیات ترک کر کے‘ سیدھے ہسپتال کار خ کیا۔ اس سانحے کے بعد‘ بی بی شہید کے اہل خاندان کے ساتھ ‘د یر تک شریک غم رہے۔میاں صاحب کے لندن میں آپریشن کی خبر سن کر‘ عمران خان نے قوم پرستانہ ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ''کاش! میاں صاحب نے پاکستان میں ہی ایک ایسا ہسپتال بنوا لیا ہوتا‘ جہاں وہ خود بھی اپنا علاج کر اسکتے‘‘۔ عمران خان جب حادثاتی طور پر زخمی ہوئے تو ان کی چوٹیں بھی معمولی نہیں تھیں۔وہ چاہتے تو اپنے علاج کے لئے لندن جا سکتے تھے لیکن وہ اپنے ہی بنائے ہوئے ہسپتال میں داخل ہو گئے۔ اپنے ملک کے ڈاکٹروں پر بھروسہ کیا اور پاکستانی ہسپتال میں ہی صحتیاب ہوئے۔ مجھے آج مجید نظامی یاد آرہے ہیں۔وہ بھی دل کے عارضے میں مبتلا تھے۔ وہ بھی چاہتے تو بیرون ملک جا کر اپنا علاج کرا سکتے تھے لیکن انہیں بھی پاکستانی ڈاکٹروں پر بھروسہ تھا۔ انہیں چارمرتبہ دل کا دورہ پڑا ۔ وہ چاروں مرتبہ ہی علاج کے لئے پاکستانی ہسپتالوں میں داخل ہوئے اور پاکستانی ڈاکٹروں ہی سے علاج کروایا۔ ان کی عمر 80سال سے زیادہ ہو چکی تھی۔ ان کا آپریشن کرنا بہت مشکل تھا لیکن نظامی صاحب نے اپنے ہی ڈاکٹروں پر بھروسہ کر کے‘ یہ پیچیدہ ترین آپریشن کرائے۔ ان کے تین آپریشن کامیاب رہے‘ لیکن کوئی بھی نہیں کہہ سکتا کہ وہ تین میں سے کسی ایک بھی آپریشن کی وجہ سے سفر آخرت پر روانہ ہوئے۔جب انہیں دل کا دورہ پڑا‘ ان کی عمر اچھی خاصی ہو چکی تھی۔ یہ پاکستانی ڈاکٹروں کی مہارت تھی کہ وہ بائی پاس کے باوجود‘ کئی برس تک بھر پور اور صحت مند زندگی گزارتے رہے۔ میاں صاحب کو تو بفضل خدا‘ دنیا کی اعلیٰ ترین طبی سہولتیں حاصل ہیں۔پوری قوم کی دعائیں بھی ان کے ساتھ ہیں۔ دل کے دورے کو وہ ایک مرتبہ شکست دے چکے ہیں۔دعا ہے کہ اس مرتبہ بھی وہ کامیاب ہوں اور اپنے حصے کی زندگی‘ پوری شان و شوکت سے گزاریں۔ میاں صاحب‘ ہر امتحان میں کامیاب ہو ئے ہیں۔ میں انہیں پاکستان کا خوش قسمت ترین انسان سمجھتا ہوں۔ انہیں تین مرتبہ اقتدار ملا اور ہر مرتبہ انہوں نے کوئی نہ کوئی ایسا کارنامہ ضرور انجام دیا‘ جس کی حیثیت تاریخی ہے۔
ان کا پہلا کارنامہ موٹروے کی تعمیر ہے۔ جب انہوں نے اس کا عزم کیا تو وسائل دستیاب نہیں تھے لیکن وہ موٹروے بنانے کی ٹھان چکے تھے۔جب انہوں نے اس کا اعلان کیا تو ہر طرف سے تنقید ہوئی اور مخالفین نے کہا کہ انہوں نے وسائل کے بغیر‘ اتنے بڑے منصوبے کی داغ بیل ڈال کر غلطی کی ہے۔موٹر وے ابھی زیر تعمیر ہی تھی کہ وہ اقتدار سے محروم ہو گئے۔ ان کی جگہ بے نظیر شہید وزیراعظم بنیں اور انہوں نے موٹر وے کے فنڈ بند کر دیے۔ ان کی اپنی ترجیحات تھیں۔ وہ بڑے تعمیراتی منصوبے شروع کرنے سے پہلے‘ انسانی خدمت پر زیادہ توجہ دیا کرتی تھیں۔ بے شک وہ اپنے مشن میں بہت کچھ کرگئیں لیکن میاں صاحب بھی اپنی دھن کے پکے ہیں۔ جب دوسری بار انہیں اقتدار ملا تو انہوں نے سب سے پہلے موٹر وے پر توجہ دی۔ موٹر وے تعمیر کرنے والی کمپنی نے معاہدے میں یہ شرط مانی تھی کہ منصوبہ مکمل کرنے کے بعد‘ جتنی جدید ترین مشینری استعمال میں آئے گی‘ وہ سب کی سب مفت پاکستان کے حوالے کر دی جائے گی۔ لیکن تعمیر معطل ہوئی تو ساری مشینری وہیں کی وہیں چھوڑ دی گئی جس کا دو اڑھائی سال میں ستیاناس ہو گیا۔بہت سی جگہ سڑک کے لئے جو کھدائی وغیرہ کر لی گئی تھی‘ وہاں بھی مٹی بھر گئی۔ میاں صاحب سے کہا گیا کہ جتنی موٹروے تعمیر ہو چکی ہے‘ اسی کو قریب ترین شہروں اور بستیوں سے ملا کے‘ ہاتھ اٹھا دیے جائیں لیکن میاں صاحب نہیں مانے اور موٹروے مکمل کر کے ہی دم لیا۔انہیں شوق تھا کہ سڑک اتنی معیاری اور کشادہ ہو کہ وہاں پر جہاز اتارا جا سکے۔ جب پہلی مرتبہ وہ مکمل موٹروے دیکھنے کے لئے گئے تو فیصلہ کیا کہ وہ جہاز میں پرواز کر کے‘ موٹروے پر پہنچیں گے۔ بھیرہ کے قریب جہاز موٹروے پر اتارا گیا اور میاں صاحب نے اپنی بنائی ہوئی موٹروے پر کھڑے ہو کر‘ دعائے شکرانہ پڑھی۔
ا ن کا دوسرا کارنامہ ایٹمی دھماکے تھے۔ بھارت ایٹم بم بنا چکا تھا ۔ پاکستان بھی دھماکے کرنے کے قابل تھا لیکن بھارت سمیت دیگر تمام بڑی طاقتیں‘ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف تھیں۔ میں ان دنوں‘ دن بھر میاں صاحب کے ساتھ ہی رہا کرتا۔ میرے سامنے ہی دنیا کے طاقتور حکمرانوں نے میاں صاحب کو دھماکوںسے روکنے کی کوشش کی۔ دھمکیاں دیں۔ لالچ دیا۔ خطروں سے ڈرایا۔ مگر میاں صاحب اپنے ارادے پر قائم رہے۔ سائنس دانوں اور ٹیکنیشنز کو خاموشی سے تجربہ گاہ کے مقام پر اتارا گیا۔ جہاز دالبندین کے ''مسکین‘‘ ایئرپورٹ پر بم کا سامان لے کر اترتے اور وہاں سے ٹرکوں پر لاد کر‘ تجربہ گاہ کے سامنے پہنچا دیتے۔ پہاڑ کے نیچے ایک بہت بڑی سرنگ تیار کی گئی تھی۔ اس کے ساتھ ہی تہہ خانے کے اندر ہی‘خفیہ لیبارٹری تعمیر کی گئی تھی‘ جس کے اندر جدید ترین کمپیوٹر نصب تھے‘ جہاں سے بم کی طاقت کا اندازہ ہونا تھا۔ تجربہ گاہ سے کافی فاصلے پر سامنے ایک دوسرا پہاڑ تھا۔ وہاں بھی مضبوط پناہ گاہیں اور تابکاری سے محفوظ رہنے کے انتظامات کئے گئے تھے۔ اسی پہاڑ پر بیٹھ کر‘ سائنس دانوں نے سارے دھماکے مانیٹر کئے ۔ وہ ہر دھماکے کے ساتھ نعرہ تکبیر بلند کرتے۔ میاں صاحب اتنے بے تاب تھے کہ تابکاری کے اثرات کی پروا کئے بغیر‘ غالباً دوسرے یا تیسرے دن ‘دھماکے کی طاقت دیکھنے کے لئے موقعے پر پہنچے۔ کالے رنگ کا پہاڑ سفید ہو چکا تھا۔ خوش نصیبی سے مجھے بھی تجربہ گاہ کو اندر سے دیکھنے کا موقع نصیب ہوا۔
میاں صاحب کا تیسرا بڑا کارنامہ‘ جو ایک سازش کے نتیجے میں پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا‘ بھارت کے ساتھ‘ معاہدہ امن کی تیاری تھی۔ بھارت کے مقبول ترین وزیراعظم‘ اٹل بہاری واجپائی پاکستان آئے۔ معاہدے کی تمام تفصیلات طے کر لی گئیں۔فیصلہ ہو گیا کہ دو ماہ کے اندر اندر سیاسی اور سائنسی ماہرین‘ کسی یورپی ملک میں معاہدے کو حتمی شکل دیں گے اور واپس برصغیر آکر‘ دہلی یالاہور میں اس تاریخ ساز معاہدے پر دستخط کر دیے جائیں گے۔کارگل پر شرارت نہ ہوتی تو آج برصغیر میں امن کا دور شرو ع ہو گیا ہوتا۔ میاں صاحب کو ہمیشہ یہ افسوس رہا کہ سازشی ٹولے نے ڈیڑھ ارب کے قریب انسانوں کو‘ امن کے ایک یقینی دور سے محروم کر دیا۔اگر یہ معاہدہ ہو جاتا تو میاں صاحب کا یہ کارنامہ‘ پچھلے دونوں بڑے کارناموں سے کہیں بڑا ہوتا۔دعا ہے کہ میاں صاحب کا آپریشن کامیاب ہو۔ وہ پوری طرح صحتیاب ہو کر اپنے فرائض ادا کرنے لگیں اور جو کارنامہ درمیان میں ہی رہ گیا‘ وہ میاں صاحب کے ہاتھوں سے سر انجام پائے۔ دوسری طرف نریندر مودی بھی اپنی زندگی میں‘ دنیا کی ایک چوتھائی آبادی کو‘ جنگ کے خطرات سے آزاد کر کے‘ مستقل امن دے سکیں۔ حکمرانی انتہائی پیچیدہ چیز ہے۔ ضروری نہیں کہ ہر حکمران‘ ہر کسی کی خواہش کے مطابق نتائج دے سکے۔ میاں صاحب کے موجودہ دور میں‘ ان کے طرز حکمرانی پر میں خوش نہیں ہوں۔ لیکن ہر کسی کو کون خوش کر سکتا ہے؟ ہو سکتا ہے میری زندگی کے چار دن باقی ہوں اورانہی میں میاں صاحب‘ اپنی زندگی کے باقی کارنامے بھی انجام دے لیں۔