"NNC" (space) message & send to 7575

کامیاب بیماری

ہوش آتے ہی پاکستانی قوم کے محبوب لیڈر‘ جناب نوازشریف نے اپنے بھائی شہبازشریف کی طرف دیکھا اور پوچھا ''چوہدری نثار کہاں ہے؟‘‘
''میں نے زیادہ عرصہ اسی کے ساتھ گزارا ہے۔‘‘
''شاباش!‘‘
''جب مجھے آپریشن کے لئے انتہائی نگہداشت کے کمرے میں رکھا گیا‘ تو میڈیا سیل کی نگرانی کس نے کی؟‘‘
'' مریم بی بی نے؟‘‘
''ماشااللہ! میری بیٹی بہت ہی ذہین ہے۔‘‘
''یہ تو ماننا پڑے گا۔ اس نے میڈیا سیل کی نگرانی بہت اچھی طرح کی۔ پوری دنیا میں جہاں جہاں آپ کے پرستار رہتے ہیں‘ سب کے ہاں دکھ اور افسوس کا اظہار ہونے لگا۔ لیکن سیاست میں ابھی وہ چھوٹی ہے۔‘‘
''میں نے کب کہا ہے‘ وزارت اعلیٰ دے رہا ہوں۔‘‘
''کسی بدبخت نے پاناما کے سوال پر‘ بیہودہ قسم کی باتیں تو نہیں کیں؟‘‘
''بالکل نہیں جی! ہر طرف لوگ آپ کی محبت میںپریشان تھے اور دن رات دعائیں مانگ رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو جلد صحت دے اور آپ کا آپریشن کامیاب ہو۔‘‘
''عمران خان نے کیا کہا؟‘‘
''سچی بات ہے‘ عوام کا دبائو بہت زیادہ تھا۔ کسی کو بھی آپ کے خلاف بات کرنے کا حوصلہ نہ ہوا۔‘‘
''عمران نے کچھ نہ کچھ تو کہا ہو گا؟‘‘
''بالکل نہیں جی! بلکہ اس نے بھی آپ کے لئے دعائے صحت کی۔‘‘
''دل میں تو کچھ کہا ہو گا؟۔‘‘
شہبازشریف کی حس ظرافت پھڑکی اور انہوں نے جواب دیا ''دل کا تو پتہ نہیں مگر لندن اسی ہسپتال میں اس کا سینہ چیر کے دیکھ لیتے ہیں کہ وہ اصل میں کیا کہنا چاہتا تھا؟‘‘
وزیراعظم یہ سن کر مسکرائے اور بولے ''میں تمہاری شرارتوں کو سمجھتا ہوں۔ برخوردار بلاول نے جلسے کئے؟‘‘
''جی بھائی جان! آزاد کشمیر میں اس نے جلسے کئے۔ لیکن ایک ایک لفظ پڑھ کے تقریر کرتا ہے۔ اس نے بھی عمران کی طرح آپ کے لئے دعائے صحت ضرور کی لیکن ساتھ ہی تیرونشتر بھی چلائے۔‘‘
''عوام تو میری برائی سن کر چپ نہیں رہے ہوں گے؟‘‘
''بالکل!‘‘
'' ساری دنیا کو پتہ ہے کہ میں کس حال میں ہوں؟ میرا دوست زرداری سب کچھ جانتا اور سمجھتا ہے۔ اس نے پہلے ہی بیٹے سے کہہ دیا ہو گاکہ اس وقت نوازشریف کے خلاف بات کرنا مناسب نہیں۔‘‘ 
''لیکن بلاول ابھی بچہ ہے۔ پھر بھی کہنے سے باز نہیں آیا۔ مگر ماحول ایسا بن گیا تھا کہ آپ کی برائی سنناکسی نے پسند نہیں کیا۔‘‘
''یہی ہونا تھا۔کچھ دن میں وہ عمران سے بڑھ چڑھ کر میری مخالفت کرے گا تاکہ دونوں ایک دوسرے کی باتوں کا اثر زائل کرتے رہیں اور ہمارا راستہ کشادہ ہوتا رہے۔‘‘
''بھائی آپ کتنے ذہین ہیں؟ سیاست میں آپ کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا۔‘‘
''بیماری پر کیسی زوردار مہم چلائی؟ہم کتنے بھی جلسے کر لیتے‘ پاناما لیکس کے لگے ہوئے جھٹکے کے اثرات سے نکلنا مشکل ہوتا۔‘‘
''نکلنا تو اب بھی مشکل ہے۔‘‘
''مخالفین کی ایسی تیسی۔ میرے ذہن میں ابھی بھی بے شمار منصوبے پڑے ہیں۔‘‘
''بھائی جان! مجھے بھی کچھ بتا دیں تاکہ میرا حوصلہ بڑھ جائے۔‘‘
''میرے پاس ایک ایسا ہتھیارہے‘ جو آسانی سے مخالفین کے خلاف استعمال کر سکتا ہوں۔‘‘
'' ہتھیار کونسا ہے؟‘‘
''مولانا فضل الرحمن۔‘‘
''لیکن معاف کیجئے‘ یہ ہتھیار خفیہ نہیں۔ اس کے بارے میں سب جانتے ہیں۔ ‘‘
''جانتے ہیں۔ مگر جانتے نہیں۔کیا تم جانتے ہو کہ سندھ اور خیبرپختونخوا میں‘ پیپلزپارٹی کے کتنے حمایتی ہیں؟‘‘
''حمایتی تو بہت ہیں۔‘‘
''لیکن وہ ہمیں الیکشن نہیں جتوا سکتے۔ اگر میں مولانا کو قائل کروں کہ ہم الیکشن میں تمہاری حمایت کریں گے‘ توآصف زرداری‘ مولانا کو دونوں ہاتھوں سے فنڈز دے گا۔ دوسری طرف ہم بھی ایسا ہی کریں گے۔ مولانا کامیاب ہوں نہ ہوں‘ ووٹروں کاذہن الجھ جائے گا۔ کسی کو سمجھ نہیں آئے گی کہ وہ اپنا ووٹ کس کو دے؟ لیکن ہمارا کام بن جائے گا۔ووٹر کے کنفیوژن میں ہی ہمارا فائدہ ہے۔‘‘
''لیکن سندھ کا وہ میزائل جو لندن میںنصب ہے‘ وہ صوبے کے دو شہروں میں تو غدر مچا دے گا۔ اس کا کیا کیا جائے؟‘‘
''انتخابات کا وقت آنے تک‘ مصطفی کمال اس کی جڑوں میں بیٹھ چکا ہو گا۔ اس کے اندر بہت توانائی ہے۔ وہ لوگوں کو تیزی سے متاثر کر سکے گا۔ اس کے پاس چھوٹے چھوٹے میزائلوں کا بھی بہت بڑا ذخیرہ ہے اور چھچھوندروں کے بھی ڈھیر لگے ہیں۔تمہیںیاد ہو گا کہ ہمارے محلے میں بھی شب برات کو لڑکے چھچھوندریں چھوڑ کے لوگوں کو ڈرایا کرتے تھے جو‘ شوں کر کے پاس سے نکل جاتیں۔ ان کی آواز اور چنگاریوں سے لوگ ڈر کے ادھر ادھر ہو جاتے۔ ‘‘
''لیکن اس میں ہمارا کیا فائدہ ہو گا؟‘‘
''خود کو یا کسی دوسرے کو فائدہ پہنچانا بھائی کی فطرت میں نہیں۔میں نے ہمیشہ اسے اپنے دوستوں اور پارٹی سے دور رکھا ہے۔اسے شکست دینے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ اس کی ڈیوٹی‘ بھرے مجمعے میں چھچھوندریں چھوڑنے پر لگا دی جائے۔‘‘
''مگر ہمارے ہاں کونسی ایسی سیاسی شخصیت ہے‘جو اس کے ساتھ بات کر سکے؟‘‘
''تمہیں زیادہ دیرتذبذب میں رکھنے سے بہتر ہے کہ بتا ہی دوں۔ وہ ہے ممنون حسین۔ جتنی گاڑھی اردو وہ بولتا ہے‘ وہ بھائی کے بس کا کام بھی نہیں۔ جب وہ میری سیاسی طاقت کے ساتھ بھائی کے پاس جائے گا‘ تو اس کی امیدیں آسمانوں کو چھونے لگیں گی۔ اکثریت ‘وہ کسی اسمبلی میں حاصل نہیں کر سکتا۔ جو سیاسی جمع پونجی لے کر وہ آتا ہے‘ وہ صرف پاسنگ بنا کر ہی استعمال کی جا سکتی ہے۔ ‘‘
''بھائی جان گستاخی معاف! آپ کا یہ فارمولا مجھے چلتا ہوا نظر نہیں آتا۔‘‘
''آج تک میرا کوئی فارمولا چلاہے؟‘‘
''اگر برا نہ لگے تو کہہ دوں؟‘‘
''مجھے تمہاری کونسی بات بری لگی ہے؟ جو سمجھ میں آئے کہہ دو۔‘‘
''آپ نے ہمیشہ صرف پیسے کی مدد لی ہے۔‘‘
''آئندہ بھی انشاء اللہ یہی کروں گا۔پاناما میں میرے دونوں الیکشنوں کی کامیابی محفوظ ہے۔ اس کے بعدبچوں کے لئے بہت کچھ بچ رہے گا۔‘‘
''اور میرے بچے؟‘‘
''وہ اپنی سیاست خود کر سکتے ہیں۔ماشاء اللہ بہت ذہین ہیں۔‘‘

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں