سید مشاہد حسین نے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان میں فوری طور پر ایک پورا وزیرخارجہ مقرر کیا جائے۔ شاہ جی نے چونکہ یہ مطالبہ خود کیا ہے‘ اس لئے وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اپنی خدمات پیش نہیں کیں۔ حالانکہ اس وقت ایک پورے وزیرخارجہ کے لئے‘ شاہ جی سے بہتر کوئی شخصیت دستیاب نہیں۔ پھر بھی پاکستان میں لائق سے لائق شخصیات موجود ہیں۔ ذرا سی توجہ دی جائے‘ تو بہترین وزیرخارجہ مل سکتا ہے۔ ہمارے سیاسی نظام میں سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ کسی بھی اعلیٰ عہدے پر فائز کرنے کے لئے‘ ارباب اقتدار محض اپنی کرسی کے اردگرد نگاہیں پھیرتے ہیں اور اگر کوئی پسندیدہ امیدوار دکھائی نہ دے‘ تو مایوس ہو کر جو بندہ بھی قریب نظر آئے‘ اسے عہدہ دے دیتے ہیں اور اس بار تو یوں ہواکہ تین بندوں کو بلا کر حکم دیا گیا کہ وہ خارجہ امور کی دیکھ بھال کریں۔ تینوں بہت خوش ہوئے۔ جھومتے گنگناتے گھر پہنچے اور ہر ایک نے بتایا کہ اسے وزیرخارجہ بنا دیا گیا ہے۔ مگر رات کو میڈیا پر ایسی کوئی خبر نہیں تھی۔ بیگمات اور بچے مایوس ہوئے اور انہیں سمجھ نہیں آئی کہ عہدہ کیا دیا گیا ہے؟ اگلے روز تینوں نے اس امید کے ساتھ اخبارات دیکھے کہ شاید کوئی بھول چوک ہو گئی ہو اور رات گئے تصحیح کر کے اصل نام دے دیا گیا ہو۔ لیکن اخبارات بھی بے رخی کا مظاہرہ کرتے نظر آئے۔ کسی کا نام بھی بطور وزیرخارجہ شائع نہیں ہوا تھا۔ اب امید لگانے کی کوئی وجہ باقی نہیں رہ گئی تھی۔ تیسرا امیدوار تو مایوس ہو کرکھسک گیا۔ باقی دو بڑے پرامید تھے کہ ان میں سے ایک کو وزیرخارجہ بنا دیا جائے گا۔
سرتاج عزیزہر لحاظ سے ایک موزوں اور جائز امیدوار تھے۔ پاکستان کے خارجہ امور کے شعبے میں وہ ہر اعتبار سے بہتر تھے۔وہ خوش نصیب ہیں کہ تحریک پاکستان میں انہیں سرگرم حصہ لینے کا موقع ملا۔ آج کل تویہ کوئی اعزاز نہیں۔ جنہوں نے واقعی تحریک پاکستان میں حصہ لیا ہو‘ ان میں سے اگر کوئی زندہ ہے‘ تو منہ چھپاتا پھرتا ہے اور موجودہ پاکستان میں اپنے آپ کو گناہگار سمجھتا ہے۔ اگر کوئی زیادہ اصرار کرے تو سرتاج عزیز نیم شرمندگی کی کیفیت میں تحریک پاکستان میں حصہ لینے کے گناہ کا اقرار کر لیتے ہیں۔ لیکن جاب لینے کے لئے کوئی دعویٰ نہیں کرتے۔ 1990ء میں انہیں پہلی مرتبہ وزیرخارجہ بنایا گیا۔ 1993ء میں نوازشریف حکومت ختم کی گئی‘ تو وہ بیکن ہائوس سکول سسٹم سے وابستہ ہو گئے اور تحقیقی اور تعلیمی سرگرمیوں میں مصروف رہے۔ 1997ء میں نوازشریف دوبارہ منتخب ہو کر آ گئے‘ تو انہیں وزارت خزانہ میں خدمات انجام دینے کے لئے کہا گیا۔ یہ ہر اعتبار سے موزوں انتخاب تھا۔ بھارت کے ساتھ تعلقات کے نئے عہد کا آغاز کرنے کے لئے ایسی ہی شخصیت کی ضرورت تھی‘ جسے تحریک پاکستان کے ہر مدوجزر کا علم ہو اور اس نے حصول پاکستان کی جدوجہد کرنے والے قائدین کو بھی قریب سے دیکھا ہو۔
پاک بھارت مذاکرات کا آغاز ہوا‘ تو ابتدائی ایجنڈے کی تیاری میں‘ سرتاج عزیز نے درپردہ حصہ لیا اور بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے دورہ پاکستان کی دھماکہ خیز خبر آ گئی۔ واجپائی نے خوب سوچ بچاراور ہمہ جہتی مشاورت کے بعد‘اپنے وفدکے شرکاء کا انتخاب کیا‘ جنہیں واجپائی ساتھ لے کر پاکستان آنا چاہتے تھے۔ میں اس وفد میں شریک کئی اہل قلم اور فنکاروں سے ملا ہوں۔ سب نے یہی بات بتائی کہ واجپائی محض سیاست کھیلنے پاکستان نہیں آئے تھے‘ وہ صاف دلی سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں گہرائی اور پھیلائو لانے کے خواہش مند تھے۔ واجپائی خود بھی شاعر تھے اور انہیں معلوم تھا کہ شاعروں اور فنکاروں کے درمیان دوری میں کمی کر دی جائے‘ تو عوام میں قربتیں پیدا ہو جاتی ہیں۔ واجپائی نے ذاتی طور پر وفد کے اراکین کا انتخاب کیا۔ جن لوگوں نے اس دورے کی جھلکیاں دیکھی ہیں‘ انہیں اچھی طرح یاد ہو گا کہ کتنے بڑے بڑے فنکار اور فنون کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے نمایاں افراد‘ اس وفد کے ساتھ پاکستان آئے تھے۔ پاکستان میں وفد کے استقبال کی تیاریاں سرتاج عزیز کی سربراہی میں کی گئیں اور ہماری طرف سے بھی جن لوگوں نے دوطرفہ تعلقات کے عمل میں حصہ لیا‘ وہ بھی ہماری تہذیبی اور سماجی سرگرمیوں میں خاص مقام رکھتے تھے۔ یہ بھی سب جانتے ہیں کہ جب بھارت نے ایٹمی دھماکے کئے‘ تووفاقی کابینہ میں سرتاج عزیز واحد شخصیت تھے‘ جنہوں نے امن کے حق میں آواز بلند کی۔وہ پاکستان کے ایٹمی تجربے کے مخالف تھے۔وقت گزر گیا۔ ہم نے ایٹمی تجربات کر لئے۔ مگر اب تک پاکستان کو ایٹمی طاقت بننے کا واحد فائدہ یہ ہوا کہ دہشت گردوں کو تحفظ مل گیا۔ وہ بھارت میں تخریب کاری کر کے اشتعال کی فضا پیدا کرتے ہیں اور پاکستان کے ایٹم بم‘ اسے ہمارے ملک کے خلاف جارحیت سے روک دیتے ہیں۔ سرتاج عزیز کی امن پسندی پر جارحانہ قوم پرستی غالب آئی اور گزشتہ صدی کے اختتامی دنوں میں نوازشریف کی حکومت ختم کر دی گئی۔
سرتاج عزیز نئی صدی کے نئے تقاضوں سے لاتعلق رہے لیکن نوازشریف نے انہیں اپنی ٹیم میں شامل رکھا اور اب بھی وہ خارجہ امور میں‘ تفویض شدہ ذمہ داریاں ادا کر دیتے ہیں۔ نوازشریف شریف ذاتی طور پر سرتاج عزیز کو پسند کرتے ہیں۔ مگر لگتا ہے کہ پاکستان کی ریاستی مشینری میں سرتاج عزیز کو آگے بڑھنے سے روکنے والی قوتیں زیادہ طاقتور ہیں۔ اپنے آپ کو سرتاج عزیز کا حریف سمجھنے والے‘ طارق فاطمی فارن سروس کے آدمی ہیں۔ انہوں نے کبھی کسی سیاسی
تحریک میں حصہ نہیں لیا اور بطور سفارتکار بھی انہیں جو اعلیٰ سے اعلیٰ پوزیشن ملی‘ وہ پاکستان کی سفارتی ٹیم کی رکنیت میں رہے۔ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی او ر قائد اعظم یونیورسٹی میں لیکچر دیتے رہے اور مختلف عالمی میٹنگوں اور کانفرنسوں میں پاکستان کی نمائندگی کرتے رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد مسلم لیگ (ن) میں گھس گئے۔ مشرف کا دور ختم ہونے سے پہلے جو عام انتخابات ہوئے‘ ان میں پیپلزپارٹی کو وفاقی حکومت مل گئی اور پنجاب کی حکومت ن لیگ کو۔ لیکن اس دور میں دونوں جماعتوں کے مابین جو سیاسی کشمکش ہوئی‘ اس میں ٹی وی کے ٹاک شوز بھی نمایاں ہو گئے۔ طارق فاطمی ان ٹاک شوز میں شرکت کر کے مسلم لیگ کی حمایت میں بولنے لگے اور غالباً وہیں سے میاں نوازشریف نے انہیں ایک زبردست ڈبیٹر سمجھ لیا۔ لیکن اب تک وہ اپنی یہ صلاحیت کہیں ثابت نہیں کر سکے۔ اعلیٰ سفارتی ذمہ داریاں انجام دینے والے ہر شخص کی خوب چھان بین کی جاتی ہے۔ لیکن ایک یہودی خاندان کے ساتھ طارق فاطمی کے تعلقات کی غالباًتحقیق نہیں کی گئی۔ جانتا تو میں بھی کچھ نہیں۔ میری معلومات بھی سنی سنائی باتوں تک محدود ہیں۔ طارق فاطمی کے پورے کیریئر میں کہیں بھی غیرمعمولی صلاحیتوں کا اظہار نہیں ہوا۔ وہ ایک معمول کے بیوروکریٹ رہے اور موجودہ نوازحکومت میں بھی کسی اعتبار سے غیرمعمولی کارکردگی نہیں دکھا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ وزارت خارجہ کے لئے دونوں متوقع شخصیات میں سے کسی کو وزیرخارجہ نہیں بنایا گیا۔ لیکن قدم قدم پر مکمل وزیرخارجہ کی ضرورت محسوس ہوتی رہتی ہے۔ ہو سکتا ہے‘ مشاہد حسین کی نظروں میں کوئی دوسرا امیدوار ہو۔ لیکن میری نظروں میں سرتاج عزیز ہی موزوں انتخاب ہو سکتے ہیں۔ انہیں پاکستان اور بھارت کے باہمی تعلقات کے شاندار دنوں کا پوری تفصیل سے علم ہے۔ ان امید بھرے دنوں میںان کا کردار ہمارے سامنے ہے۔ وہ امید بھرے دن دوبارہ تو شاید نہ آ سکیں۔ لیکن تاریخ سازی کے عمل میں ممکنات کی انتہائیں بھی نہیں ہوتیں۔ سرتاج عزیز کو بھارت میں بھی احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ نریندر مودی تاریخ میں قابل ذکر مقام حاصل کرنے کے خواہش مند ہیں۔ ایسے لوگ جرات مندانہ فیصلے کرنے کے مشتاق بھی ہوتے ہیں۔ انہیں نہ توواجپائی کی طرح تاریخ کا گہرا علم ہے اور نہ ان کی طرح انسانی نفسیات کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن تاریخ میں مقام حاصل کرنے کو بے تاب ہیں۔ بھارتی عوام ان پر اعتماد کرتے ہیں۔ پاکستان میں یہ مقام نوازشریف کو حاصل ہے۔ بیماری کے دوران‘ ان کے لئے جس طرح دعائیں مانگی گئیں‘ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ لوگ نوازشریف سے بھی محبت کرتے ہیں۔ یہ دونوں کردار برصغیر میں نفرت کے ماضی کو‘ خیرباد کہنے کے قابل ہیں۔ بشرطیکہ یہ سازگار حالات پیدا کر سکیں۔ عمران خان بلاشبہ ایک مقبول لیڈر ہیںاور انہیں دینے کے لئے آسمانوں کے دامن میں بے انتہا روشنی موجود ہے۔