"NNC" (space) message & send to 7575

کیچ می اِف یُو کین

آج کے پاکستان کے سارے اخباروں میں وزیرخزانہ اسحق ڈار کی سرخیاں لگی ہیں۔ لیکن مجھے اپنے دور کا ہیرو یاد آ رہا ہے‘ جس کے سامنے اسحق ڈار ‘ اس کے حریفوں جیسے بھی نہیں‘ جنہیں وہ ان گنت ناموں سے پکارا کرتا تھا۔ اتنے مختصر سے انسانی جسم میں ‘ زندگی سے اس قدر بھرپور شخص شاید ہی تاریخ کے کسی موڑ پر دیکھنے میں آیا ہو۔ ہو سکتا ہے‘ اس سے زیادہ بھرپور زندگی والے نوجوان آئے ہوں لیکن میرے مشاہدے میں کوئی نہیں آیا۔ اس نے باکسنگ کے 56 مقابلے جیتے اور صرف 5 میں شکست کھائی۔ وہ غریب گھرانے میں پیدا ہوا۔ اس زمانے میں امریکہ کے اندر کسی کالے کے گھر میں پیدا ہونے کا مطلب ہی غریبی تھا۔ وہ ابھی نوجوان ہی تھا جب مارٹن لوتھر کنگ کی جدوجہد عروج پر تھی۔ اس وقت امریکہ میں کالوں کے خلاف نسلی نفرت عروج پر تھی۔ انہیں ہوٹلوں اور ریستورانوں میں علیحدہ رکھا جاتا تھا۔ ہر ریسٹورنٹ میں کالوں کے داخل ہونے اور بیٹھنے کی جگہیں الگ تھیں۔ کسی کالے کی مجال نہیں تھی کہ وہ گوروں کے دروازے سے داخل ہو سکے یا اس حصے میں بیٹھنے کی جراء ت کرے‘ جو گوروں کے لئے مخصوص تھا۔ ایسی گستاخی کرنے والے کو وہیں پر بیٹھے ہوئے گورے پکڑ کر فرش پر لٹا لیتے اور پھر مکے اور ٹھوکریں مار مار کے‘ اسے نیم جان کر دیتے۔ ظاہر ہے‘ کیشئس مارکل کلے جو کہ محمد علی کا اصل نام تھا‘ اپنی انسانی شناخت سے محرومی پر باغیانہ جذبات کا اظہار کرتا اور اس کی باقی زندگی اپنی حیثیت منوانے کی جدوجہد میں گزری۔ وہ پیدا ہوا‘ تو اس کے حصے میں وہ نفرت آئی‘ جو کالوں کی قسمت میں لکھی تھی۔ ابھی وہ کالے پن کی ذلت کے خلاف لڑ رہا تھا کہ باکسنگ کے میدان میں اتر آیا اور جب وہ اپنے قومی سطح کے پہلے مقابلے میں اترا تو باکسنگ کا یہ میچ دہری لڑائی میں بدل گیا۔کالا تو وہ تھا ہی‘ مسلمان بھی ہو گیا۔ وہ گوروں کی دہری نفرت کا نشانہ بنا ہوا تھا۔ اس پر ہر طرف سے حقارت کے تیر چلائے جا رہے تھے اور وہ تن تنہا سامنے آ کر گوروں کو دھتکارتا۔ جتنی توہین اس کی ہوا کرتی تھی‘ وہ اس سے زیادہ توہین گوروں کی کرتا‘جس پر وہ بہت تلملاتے۔ ان سب کی ایک ہی خواہش ہوتی کہ محمد علی کو باکسنگ رنگ میں شکست ہو۔ ایک طرف کالا‘ اوپر سے مسلمان۔ گوروں کی نفرت اور غصے کا ہر پیمانہ چھلکا پڑتا تھا۔ان کے اختیار میں صرف ایک ہی چیز تھی کہ اس کالے مسلمان کو اس کا گورا حریف باکسنگ رنگ میں شکست دیتا اور یہی ان کے بس کی بات نہیں تھی۔ 
وہ ہر مقابلے میں ناچتا کودتا رنگ میں داخل ہوتا۔ گورے حریف کو مشتعل کرنے کے لئے اسے تیزطرار لفظوں سے پکارتا۔اپنے لکھے ہوئے گیت گاتا‘ جن میں سب سے مشہور یہ تھا جو وہ مقابلے کے دوران رنگ میں گایا کرتا ''کیچ می اف یو کین۔‘‘ یہی گیت میوزک میں ڈھل کر اس دور کا مقبول ترین گیت بن گیا اور ہر کالا گورے کو بس‘ ٹرین یا سڑک پر چڑانے کے لئے گاتا ''کیچ میں اف یو کین‘‘ اور گورے طیش میں آ کر اسے گالیاں دیتے اور جس کا بس چلتا‘ وہ مارپیٹ پر بھی اتر آتا۔یہ 1964ء کی بات ہے کہ میں اور عباس اطہر دونوں روزنامہ ''انجام‘‘ میں اکٹھے کام کرتے تھے۔ یہ اس عہد کی مقبول ترین جنگ تھی‘ جس میں کالوں اورمسلمانوں کا سپہ سالار کلے تھا۔ اس کے مقابل گورا باکسر سونی لسٹن تھا۔ یہی دن تھے‘ جب اس خبر کی تصدیق ہو گئی کہ کلے نے اسلام قبول کر لیا ہے اور اس نے اپنا نام محمدعلی رکھا ہے۔ گورے یہ نام نفرت سے لیا کرتے اور مسلمان جواب میں اتنے ہی جوش و خروش سے۔ امریکہ میں کالوں کو مساوی حقوق ملے ابھی زیادہ دن نہیں ہوئے تھے۔ یہ تھا وہ ماحول‘ جس میں محمد علی نے عالمی سطح کے پہلے مقابلے میں اپنے مدمقابل گورے باکسر کو شکست دی۔ امریکہ میں جب دن ہوتا ہے‘ تو پاکستان میں رات ہوتی ہے۔ جس شب(پاکستان کی شب) یہ مقابلہ ہوا‘ سارا کراچی جاگ رہا تھا۔ یقینا پاکستان کے دوسرے حصوں کے لوگ بھی جاگ رہے ہوں گے۔ جب محمد علی کلے کی فتح کا اعلان ہوا‘ تو صبح تک کراچی کی گلیوں میں ہنگامے برپا رہے۔ ہر کوئی اپنے انداز میں اظہارمسرت کر رہا تھا۔ امریکہ میں تو یہ مقابلہ کالے اور گوروں کے درمیان تھااوراسلامی ملکوں میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان۔ بس یہی ایک جنگ تھی‘ جو سپرپاور امریکہ کے ساتھ ہم لڑ سکتے تھے۔ دوسری کوئی بھی جنگ لڑنا ہمارے بس کی بات نہیں تھی۔ مسلمانوں کے جس ملک نے بھی امریکہ سے ٹکر لی‘ اس کا حال اچھا نہ رہا۔ صرف محمدعلی کلے تھا‘ جو باکسنگ رنگ میں ہم سب کی جنگ لڑتا اور فتح کے نعرے لگاتا۔ فتح کے یہی نعرے تھے‘ جو دنیا بھر کے کالوں اور مسلمانوں کو نصیب ہوئے۔
ہم سب کی طاقت کی علامت محمد علی 1984ء میں باکسنگ سے ریٹائر ہو گیا۔ اسے پارکنسنز کی بیماری ہو گئی تھی۔ میں نے اسے بیماری کی حالت میں بھی دیکھا ہے۔ اس کے وہ دونوں ہاتھ جو مکے بنا کر حریف کے جبڑے توڑا کرتے تھے‘ بری طرح سے کانپ رہے تھے اور اس تنومند انسان کو دونوں بازوئوں سے سہارا دے کر چلایا جا رہا تھا۔ آخر 3جون کی رات کو اپنے زمانے میں طاقت کی علامت محمد علی‘ خالق حقیقی سے جا ملا۔ اسی دن ہمارے وزیرخزانہ اسحق ڈار نے نیم جان پاکستانی قوم کو چاروں شانے چت کیا۔ محمدعلی زندگی سے ہار گیا اور ہم اسحق ڈار سے ہارے۔ محمد علی ایک غریب گھرانے میں پروان چڑھے اور دنیا کی طاقتورترین امریکی قوم کو باکسنگ رنگ میں بار بار شکست دے کر‘ اس نے اپنا دم خم دکھایا۔ اسحق ڈار نے بھوک اور بیروزگاری کی ماری ہوئی قوم کو چت کر کے فتح کا نعرہ بلند کیا۔ محمد علی کے نام کے ساتھ گریٹسٹ (عظیم ترین) لکھا جاتا تھا۔اس نے 1964ء میں سونی لسٹن کو شکست دے کر پہلا عالمی خطاب
حاصل کیا اور پھر وہ تین بار یہ خطاب حاصل کر کے‘ دنیا کا پہلا باکسر بنا۔ سپورٹس مین السٹریٹڈ نے ''سپورٹس مین آف دی سنچری‘‘ کے خطاب سے نوازا اور بی بی سی نے اسے ''سپورٹس پرسنیلٹی آف دی سنچری‘‘ کا خطاب دیا۔ محمد علی اپنی شرارتوں‘ شوخیوں اور چھیڑخانیوں کی وجہ سے معروف تھا۔ وہ حریف کو مسلسل چھیڑتا رہتا۔ پھبتیاں کہتا۔ اکساتا اور مسلسل تنگ کرتا رہتا۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ وہ مظلوم اقوام کے بہادر نمائندے کی حیثیت میں کروڑوں انسانوں کا محبوب بن گیا تھا۔اس نے ایک بار کہا تھا ''میں چاہوں گا کہ مجھے ایک ایسے شخص کے طور سے یاد کیا جائے‘ جس نے کبھی اپنے لوگوں کا سودا نہیں کیا اور اگر اس سے زیادہ کچھ کہنا ہے‘ تو پھر ایک اچھے باکسر کے طور پر یاد کیا جا سکتا ہے۔ مجھے اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہو گا اگر آپ میری خوبصورتی کا ذکر نہ کریں۔‘‘محمد علی کے دوست اس کے کسی مقابلے کا ٹکٹ ریزرو کرانے پر خوشی سے کہا کرتے ''کیا میں یہ سمجھوں کہ میری پرینک کال آ گئی ہے؟‘‘ میں نے جب Prank کا مطلب دیکھاتو حیرت زدہ رہ گیا ‘ جو ان الفاظ میں بتایا گیا تھا : شوخی‘ مذاق‘ اٹھکیلی‘ کھیل‘ شرارت‘ غیرمہذب حرکت‘ دل لگی‘ بازی‘ کلیل‘ شوخی‘ کھیل‘ دھکا‘ کودپھاند‘ اتراکر چلنا‘ اکڑکر چلنا‘ چھیڑنا‘ شرارت کرنا‘ سجنا‘ سنورنا۔ اگر میں سچ لکھنا چاہوں‘ تو یہ سارے الفاظ بھی محمد علی کی شخصیت کا احاطہ نہیں کر سکتے۔ وہ ان سارے لفظوں سے کہیں زیادہ تھا۔ 1988ء میں محمد علی پہلی اور آخری مرتبہ پاکستان آیا۔ ایک پاکستانی اس کا منیجر بن کر ساتھ آیا تھا‘ جو سہارا دے کر اسے اپنے ساتھ چلاتا۔ جو کچھ وہ بن چکا تھا‘ وہ اصلی محمد علی کا سایہ تھا۔ اس کی بات‘ اس کا پاکستانی منیجر ہی سمجھتا اور سمجھاتا۔ محمد علی کی بات کو براہ راست سمجھنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں تھی۔قدرت بھی کیا کیا دکھاتی ہے؟ عالمی چیمپئن محمد علی کا نیم جاں جسم اور اسحق ڈار کے بجٹ تلے کراہتی ہوئی پاکستانی قوم۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں