"NNC" (space) message & send to 7575

داڑھ کا درد

وزیردفاع خواجہ آصف‘ قومی اسمبلی میں جس شائستگی اور خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہیں‘ وہ قوم کے منتخب ایوان کے لئے باعث ندامت نہیں‘ تو باعث فخر ہو گا۔ اس کا فیصلہ خود خواجہ صاحب ہی کر سکیں گے کہ ان دونوں میں سے کونسا ''اعزاز‘‘ وہ اپنے لئے پسند کریں گے؟ جہاں تک خواجہ صفدر مرحوم کا تعلق ہے‘ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اپنے فرزند ارجمند کے قومی اسمبلی میں طرزکلام پر ان کی روح یقیناندامت محسوس کر رہی ہو گی۔ خواجہ صاحب مرحوم سے میرا وہی رشتہ تھا‘ جو ایک مسلم لیگی سے ہو سکتا ہے۔ میں ترقی پسندی کی طرف مائل تھا اور خواجہ صاحب مرحوم زبردست قسم کے مسلم لیگی تھے۔ مسلم لیگیوں سے میرا تعلق ہمیشہ نجی نوعیت کا رہا۔ جبکہ نظریاتی طور پر میں کبھی ان کا ہم خیال نہ ہو سکا۔ مگر جہاں تک انسانی رشتوں کا تعلق ہے‘ اس میں خواجہ صاحب مرحوم ہمیشہ اپنی وضعداری پر قائم رہے۔ لیکن ان سے میرا دوسرا رشتہ اور بھی خوشگوار تھا کہ چوہدری ظہورالٰہی سے میری نیازمندی ہی نہیں‘ اس کلب کی ہم نشینی بھی تھی‘ جہاں چوہدری صاحب کی شامیں گزرا کرتیں۔ میں ان کے مشاغل کے قابل نہیں تھا اور وہ میرے مشغلے سے سخت گیری کے ساتھ پرہیز کرتے تھے۔ صرف ایک تعلق تھا کہ بل میرا ہوتا اور ادا چوہدری صاحب کیا کرتے اور اکثر یہ بل ڈبل ہو جاتا جب حبیب جالب اور میں اکٹھے ہوتے۔ جب چوہدری ظہورالٰہی کے گھر جانا ہوتا‘ تو وہاں خواجہ صفدر مرحوم بھی ملا کرتے۔ ان کے دو ہی ٹھکانے تھے۔ چوہدری صاحب کا گھر یا مسلم لیگ کا دفتر۔ جب خواجہ صاحب مرحوم حزب اختلاف کے نمائندے ہوتے‘ تو انہیں اسمبلی میں بھی دفتر مل جاتا‘ جہاں وہ اپنا سیاسی دفتر جمایا کرتے۔ 
خواجہ صاحب مرحوم بہت ہی محفل پسند انسان تھے۔ میں کبھی سیالکوٹ جاتا‘ تو ایک پٹرول پمپ پر ان کی نشست گاہ ہوتی۔ وہیں وہ احباب کے ساتھ بھرپور محفل جماتے۔ مجھے کبھی کبھی وہاں جانے کا اتفاق ہوا اور وہ بھی انتہائی دلچسپ۔ میں پیپلزپارٹی کا حامی تھا اور خواجہ صاحب روایتی طور پر مسلم لیگی تھے۔وہ 1970ء کاالیکشن لڑ رہے تھے جبکہ میں پیپلزپارٹی کی طرف سے پورے ضلع سیالکوٹ کی انتخابی مہم میں حصہ لے رہا تھا۔ پسرور سے مولانا کوثر نیازی امیدوار تھے اور میری ڈیوٹی میں ان کی انتخابی مہم کی نگرانی بھی شامل تھی۔ رات گئے تک پسرور کی انتخابی مہم میں حصہ لیتا اور سونے کے لئے شہر کے اس ہوٹل میں آ جاتا‘ جہاں میں قیام پذیر تھا۔ دوپہر کو بیدار ہونے کے بعد جب میں کھڑکی کے سامنے بیٹھتا‘ تو وہاں خواجہ صفدر کی محفل جمی ہوتی اور میں بھی ناشتہ وغیرہ کر کے‘ اس محفل میں شریک ہو جاتا۔ آج کل کے لوگوں کو یقین کرنا مشکل ہو گا کہ دو مخالف سیاسی کیمپوں سے تعلق رکھنے کے باوجود ہم گرماگرم سیاسی بحث میں حصہ لیتے اور کوئی تلخی یا بدمزگی نہ ہوتی۔ 
خواجہ صفدر کے بیٹے سے میری پہلی ملاقات اس وقت کے چوہدری پرویزالٰہی کے دفتر میں ہوئی۔ چوہدری صاحب نے تعارف کرایا کہ یہ خواجہ صفدر کا بیٹا ہے اور سینیٹ کا ٹکٹ مانگ رہا ہے۔ میری ہلکی سی علیک سلیک ہوئی اور چوہدری صاحب سے کہا کہ جس کی آپ حمایت کر رہے ہیں‘ سینیٹر تو وہ بن ہی جائے گا۔ یہ تھی خواجہ آصف کی سیاسی زندگی کی ابتدا۔ وہ کسی خلیجی ملک سے نوکری چھوڑ کر آئے تھے۔ سینیٹر بنتے ہی ان کی قسمت کھل گئی اور پھر وہ کیسے میاں نوازشریف کے قریب آئے؟ کیسے ان کا دم چھلا بننے کی جدوجہد کی؟ اس کی ایک جھلک مجھے بھی یاد ہے کہ میاں صاحب جب اپنے خصوصی جہاز میں اسلام آباد جایا کرتے‘ تو خواجہ صاحب دعوت کے بغیر جہاز کے قریب کھڑے ہو جاتے اور درخواست کرتے کہ مجھے بھی جہاز میں بٹھا لیں۔ میاں صاحب رکھ رکھائو میں بہت شائستہ انسان ہیں۔ کبھی وہ خواجہ آصف کو جہاز میں بٹھا لیتے اور کبھی معذرت کر لیتے۔ ایسے کئی منظر میں نے دیکھے ہوئے ہیں۔ لیکن ان کے طرز گفتگو سے مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ خواجہ صاحب سے جب بھی ملنا ہو‘ تو بقول میر ع
دونوں ہاتھوں سے تھامئے دستار
میں نے شروع میں ہی بھانپ لیا تھا کہ خواجہ آصف بہت خطرناک ''چیز‘‘ ہیں۔ عزت بچانا ہو‘ تو ان سے فاصلہ رکھ لینا چاہیے۔ یہ احتیاط میرے بہت کام آئی۔ اب بھی کبھی خواجہ آصف سے سامنا ہو جائے تو انہیں محض ادب سے سلام کر کے‘ ان کا وہ روپ دیکھنے سے محفوظ رہ جاتا ہوں‘ جو انہوں نے گزشتہ روز قومی اسمبلی میں شیریں مزاری کو دکھایا۔ ان کے وہ جملے بھی اراکین قومی اسمبلی کو یاد ہوں گے جو انہوں نے بائیکاٹ کے بعد تحریک انصاف کے اراکین کی اسمبلی میں آمد کے بعد کہے تھے ''شرم ہوتی ہے‘ حیا ہوتی ہے۔‘‘ سننے والے حیرت سے دیکھ رہے تھے کہ خواجہ آصف کو واقعی ان چیزوں کا پتہ ہے؟ کیا وہ حقیقت میں یہ سمجھتے ہیں کہ شرم بھی کوئی چیز ہوتی ہے؟ حیا بھی ہوتی ہے؟ 
سیاست میں ہر لیڈر نے مختلف لوگوں کو‘ مختلف کاموں کے لئے رکھا ہوتا ہے۔ کسی کی کارکردگی بھی پارٹی لیڈرکی رضا کے بغیر نہیں ہوتی۔ پارٹی کا جب کوئی کارکن کسی کی پگڑی اتارے‘ تو سمجھ لینا چاہیے کہ اشارہ کدھر سے آیا؟ اگر آپ کو وزیراعظم کے پسندیدہ ہدف کا اندازہ کرناہو‘ تو ان کی تقریروں سے کر لینا چاہیے۔ہمارے وزیراعظم اپنی تقریروں میں عمران خان کا ذکر بطور خاص کرتے ہیں‘ تو یہ اس چیز کی نشانی ہے کہ انہیں سب سے زیادہ غصہ کس پر ہے؟ آپ نے کبھی وزیراعظم کی تقریر میں کسی سیاسی مخالف کا نام نہیں سنا ہو گا۔ اگر سنا بھی ہو گا‘ تو کبھی کبھار۔ لیکن جو نام عموماً ان کی تقریروں میں آتا ہے‘ وہ عمران خان کا ہے‘ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وزیراعظم داڑھ کے درد کا نام عمران خان ہے اور آپ جانتے ہیں کہ داڑھ کا درد بڑا تکلیف دہ ہوتا ہے۔ رات کو بھی سونے نہیں دیتا۔ شیریں مزاری کے ساتھ کل ایوان کے اندر بدتمیزی کی گئی‘ تو انہیں سمجھ لینا چاہیے تھا کہ یہ کس کی داڑھ کا درد ہے؟ 
چند الفاظ عمران خان کے بارے میں۔ قدرت نے انہیں پاکستان کا مقبول ترین عوامی لیڈر بنا دیا ہے۔ میں نے بھٹو صاحب کے ابتدائی ایام دیکھ رکھے ہیں۔ جب وہ مقبولیت کی انتہا پر تھے‘ تو بڑے بڑے روایتی امیدوار‘ ان کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے اور بھٹو صاحب بھی ان سے متاثر ہو جاتے۔ کیونکہ وہ روایتی امیدواروں کی تلاش میں تھے۔ میں سیاسی باریکیوں سے زیادہ واقف نہیں تھا اور نہ مجھے اندازہ تھا کہ یہ روایتی امیدوار بھٹو صاحب اور ان کی پارٹی کا کیا حشر کریں گے؟ لیکن ایک ''سمجھدار‘‘ سیاستدان کی طرح وہ روایتی طور پر کامیاب ہونے والے امیدوار کی تلاش میں رہتے اور جیسے ہی کوئی ان کے پاس آتا‘ فوری طور پر اس کے ساتھ ٹکٹ کا وعدہ کر لیتے۔ بھٹو صاحب یہ سمجھتے تھے کہ کامیاب امیدواروں کی آمد‘ ان کی کامیابی ہے۔ لیکن تدبیر کنند بندہ تقدیرکنند خندہ
بھٹو صاحب جس کو اپنی کامیابی سمجھ رہے تھے‘ وہی ان کی ناکامیوں کا سامان تھا۔ اس وقت عمران کے ساتھ آنے والے روایتی سیاستدان‘ ان پر مہربانی نہیں کر رہے بلکہ ان کی کشتی کے بوجھ میں اضافہ کر رہے ہیں۔ اس کے برعکس عمران خان کو چند روایتی امیدواروں کا ماضی دیکھ کرانہیں حیثیت دینی چاہیے۔ لیکن پارٹی کاڈھانچہ مخلص اور ایسے کارکنوں کا انتخاب کر کے تیار کرنا چاہیے‘ جو اپنا مستقبل تحریک انصاف میں دیکھتے ہوں۔ضروری نہیں کہ سب کے سب عمران کے ساتھ رہیں۔ بیشتر ایسے ہوں گے جو عمران کے کندھوں پہ چڑھ کر اپنے لئے کسی جگہ کی تلاش میں ہوں گے۔ یوں ہوتا رہتا ہے۔ لیکن جدوجہد کے دور میں بہت سے قابل اعتماد ساتھی بھی مل جائیں گے۔یہی پارٹی کا اثاثہ ہوتے ہیں۔جو لوگ ان دنوں میں حکمرانوں سے وفاداری کا بہروپ دھارتے ہیں‘ وہ رات کو گھر جانے سے پہلے میک اپ اتار دیتے ہیں اور پھر نیا دن۔ نیا میک اپ۔ نئے مکالمے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں