"NNC" (space) message & send to 7575

ہم ہوں گے کامیاب

پاناما لیکس کی تحقیقات کے لئے‘ ضابطہ کار طے کرنے والی جو پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی‘ اب تک اس کے سات اجلاسوں میںقابل ذکر پیش رفت نہیں ہو سکی۔تحریک انصاف کے سینئر رہنما‘جناب مخدوم شاہ محمود قریشی ‘ٹی اوآرز کمیٹی کے نتائج کے بارے میں پر امید نہیں۔انہوں نے بیشتر اجلاسوں کے اختتام پرمایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ'' حکومت محض تضیع اوقات کے لئے کوشاں ہے۔ اس کا وفد مختلف حیلے بہانوں سے وقت گزاری کر رہا ہے۔ اپوزیشن کے پیش کردہ نکات پر سنجیدگی سے بات چیت نہیں کی جا رہی‘‘۔اس طرح کے سیاسی اتحاد جب تک جدوجہد کی آزمائش سے نہ گزریں‘ ان کی پختگی کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔پاناما لیکس کا سکینڈل سامنے آنے سے پہلے‘ حزب اختلاف کی جماعتوں کے درمیان مشترکہ جدوجہد کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا تھا۔ یہ سکینڈل اچانک سامنے آیا اور انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ اس پر رائے عامہ منظم ہو گئی ۔ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ سیاسی جماعتوں سے پہلے‘ رائے عامہ نے حکمران جماعت کے رہنمائوں کی کرپشن کے سوال پر فیصلہ کن جدوجہد کی ٹھان لی تھی۔ حزب اختلاف کی جماعتوں کوعوام کے فوری فیصلے کی تقلید میں‘ جلد بازی سے کام لیتے ہوئے‘ کسی ایجنڈے اور تیاری کے بغیر ایک صف میں آنا پڑا۔ حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لئے حزب اختلاف کی جو مشترکہ ٹیم تشکیل دی گئی‘ اس کے لئے نہ تو پہلے سے کوئی ایجنڈا تیار کیا گیا تھا نہ کوئی پروگرام مرتب ہوا اور نہ مقاصد کا تعین ہوا تھا۔سب کچھ حالات کی رو میں ہوتا چلا گیا۔حکومت کو رائے عامہ کے دبائو میں آکر پسپائی اختیار کرتے ہوئے خود عدالت عظمیٰ کی طرف رجوع کرنا پڑا۔ اس نے خود ہی ٹی او آرز کے نکات مرتب کر کے‘ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب سے درخواست کی کہ وہ پاناما لیکس کے سوال پر تحقیقات کریں۔ چیف جسٹس صاحب نے حکومتی نکات پرتحقیقات کرنے کے بجائے چند رہنما اصولوں کی نشاندی کر کے‘حکومت کو ہدایت کی کہ عدالت عظمیٰ کن بنیادوں پر تحقیقات کر سکتی ہے؟
سپریم کورٹ کا جواب پڑھ کر‘اپوزیشن کو مشترکہ جدوجہدکا راستہ اختیار کرنا پڑا۔حکومت کے طرزعمل سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ نتیجہ خیز مذاکرات کے لئے بالکل تیار نہیں اور مذاکرات کومحض وقت گزاری کا ذریعہ بنانا چاہتی ہے۔دونوں طرف کے پارلیمانی وفود کے درمیان‘ جو ابتدائی بات چیت ہوئی‘ اس سے ظاہر ہو گیا کہ حکومت حیلے بہانوں سے کام لیتے ہوئے‘ پاناما لیکس سے پیدا ہونے والے سیاسی مدو جزرکی شدت میں کمی لانے کے لئے کوشاں ہے۔ حالات کی مجبوری کے باعث مذاکرات کے لئے‘ اپوزیشن کوجو مذاکراتی ٹیم مرتب کرنا پڑی‘ اسی میں اپوزیشن کے اتحاد کی بنیادیں موجود ہیں۔مذاکرات کے سات ادوار ہونے کے بعد‘ واضح ہوا کہ تحریک انصاف‘ سخت گیر جدوجہد کے لئے پیش پیش ہے۔ ق لیگ کے ارادے بھی پختہ دکھائی دے رہے تھے جبکہ پیپلز پارٹی گومگو کی کیفیت میں نظر آئی، جس کی وجہ یہ ہے کہ قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے لیڈر‘ سیدخورشید شاہ کو ابتدا میں اپنی قیادت کی طرف سے واضح ہدایات نہیں ملی تھیں۔ وہ محض ایوان کی کارروائی چلانے کے لئے‘ پیپلز پارٹی عددی اکثریت کی بنیاد پر کام کر رہی تھی لیکن کو ئی واضح ایجنڈا طے نہیں تھا۔
پاناما لیکس کا موقع اچانک سامنے آیا تو حکمران جماعت کے خلاف ‘واضح موقف کے خدوخال نمایاں ہوئے اور جب حکومت کے ساتھ پارلیمانی جماعتوں کے مذاکرات کا مرحلہ آیا تو حزب اختلاف اور حکومت‘ دونوںکو روا روی میں‘ اپنی مذاکراتی ٹیمیں تشکیل دینا پڑیں۔حکومت ہڑبڑاہٹ میں اپنی مذاکراتی ٹیم کا موزوں انتخاب بھی نہ کر سکی ۔ جہاں تک مجھے یا دپڑتا ہے‘ اپوزیشن نے بھی ابتدا میں جس ٹیم کا اعلان کیا تھا‘اس میں ردو بدل کرنا پڑا۔ جس کا سبب یہ تھا کہ ابتدا میں‘ دونوں طرف کے وفود کے اراکین کی تعداد زیادہ تھی‘ جسے بعد میں چھ تک محدود کرنا پڑا۔ حکومت آخری وقت تک اپنے اراکین کی تعداد میں‘ ردوبدل کرتی رہی جبکہ میری یادداشت کے مطابق‘ اپوزیشن کے اراکین میں کوئی ردوبدل نہیں کیا گیا۔
انتخابات کے قریباً تین سال بعد‘ دو سیاسی طاقتوں کے واضح خدوخال دکھائی دینے لگے ہیں۔حزب اختلاف میں ٹوٹ پھوٹ کی متعدد وجوہ موجود ہیں جبکہ حزب اقتدار کے پاس مفادات کے سوا کوئی قدر مشترک نہیں۔دونوں فریق ابھی زور آزمائی کے میدان میں نہیں اترے۔ لیکن وقت جلد ہی انہیں‘ واضح متحارب فریقوں کی صورت میں سامنے لے آئے گا۔کوئی بھی برسراقتدار جماعت ‘اکائی کی صورت میں نہیں ہوتی۔ اس میں مختلف گروہ ‘ مفادات کی کشمکش میں مبتلا ہوتے ہیں جبکہ حزب اختلاف جدو جہد کے ساتھ ساتھ‘متحد ہوتی چلی جاتی ہے۔یہ عمل شروع ہو چکا ہے۔ میں نہیں جانتا کہ احتجاجی تحریک کیا شکل اختیار کرتی ہے؟ لیکن ایک بات واضح ہے کہ تحریک انصاف‘ احتجاجی تحریک کے راستے پر آگے بڑھ رہی ہے۔ پیپلز پارٹی ابھی تذبذب کی حالت میں ہے کیونکہ وہ مکمل طور پر اقتدار سے محروم نہیں۔سندھ کی حکومت اور سینیٹ کی سربراہی اسے فیصلہ کن اقدامات سے روکے گی۔حزب اختلاف کا یہی حصہ اس کی کمزوری ہو گا‘جہاں حکمران جماعت ضرب لگانے کی کوشش کر ے گی۔بطور جماعت پیپلز پارٹی جدو جہد کے کئی ادوار سے گزر ی ہے لیکن جو قیادت آزمائش کے امتحانوں سے گزری ہے‘ وہ آج کی دنیا میں موجود نہیں۔ اس کے آزمودہ کارکنوں کی جو ٹیم ہے اس کا پالیسی سازی میں کوئی عمل دخل نہیں۔دیکھنا یہ ہے کہ امتحان کے آنے والے مراحل میں‘ پارٹی کی پالیسیاں بنانے کا اختیار نئے اور با اختیارعناصر کے ہاتھ میں ہو گا یا آزمودہ قیادت اورکارکن آگے بڑھیں گے؟ آزمائش کے آنے والے دور میں پیپلز پارٹی کا کردار انتہائی موثر اور فیصلہ کن ہو گا۔
اپوزیشن کی نئی طاقت‘ تحریک انصاف ہے۔عوام کو اس کی قیادت سے لا محدود توقعات وابستہ ہیں۔ اس کے کارکن‘ مقابلہ کرنے کے جذبوں سے مالا مال ہیں۔ وہ‘ نوجوانوںکو متاثر کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن اس کی قیادت کی صفوں میں‘ یک جہتی اور تنظیمی صلاحیتوں کی کمی ہے‘ جو میدان کارزار میں کامیابی کے لئے درکار ہوتی ہیں۔آزمائش اور امتحان‘ایسی جماعتوں کے لئے بہت خطرناک ہوتے ہیں۔ایک طرف حکومتی مشینری کا مقابلہ درپیش ہو گا اور دوسری طرف اختیارات اور وسائل کی ترغیب۔ امتحان کے یہ مراحل جلد ہی آنے والے ہیں۔حکمران طبقوں کے لئے‘ مخدوم شاہ محمود قریشی قابل قبول ہوں گے لیکن آزمائش کے کڑے مرحلوں سے کامیابی کے ساتھ گزر چکے ہیں۔وہ جتنے عزم اور یقین محکم کا مظاہرہ کریں گے‘ ان کی قدروقیمت میں اضافہ ہو گا اور اگر کوئی بڑی کرسی دیکھ کر‘ ڈگمگا گئے تو اقتدار کے بازو‘ ان کے لئے کشادہ ہوں گے۔ موجودہ حکمران طبقے کی طاقت پر غالب آتے ہوئے‘ کامیابی سے سرشار جو عوام آگے بڑھ رہے ہوں گے‘ انہیں روکنے میں مخدوم صاحب شاید ہی سرخرو ہو پائیں۔روایات کے تحت‘ ایسے مراحل پر مسلح مداخلت نتیجہ خیز ثابت ہوتی ہے لیکن گزشتہ اڑھائی سال کے عرصے میںمسلح ادارے بہت کچھ سیکھ چکے ہیں۔ان کی قیادت اقتدار پر قبضے کے متعدد مواقع ٹھکرا چکی ہے۔اسے یہ بھی معلوم ہے کہ اگر پاکستان میں اندرونی انتشار پیدا ہوتا ہے تو دشمن طاقتیں‘ پہلے سے زیادہ طاقتور‘ منظم اور مستعد ہیں۔پاکستا ن کا جدید ترین اسلحہ صرف اسی وقت کارآمد ہوگا‘ جب عوام اور فوج کا اتحادملک کے دفاع کے لئے منظم ہو کر‘ مخالف قوتوں کے سامنے آئے گا۔اندرون ملک اقتدار کی جنگ‘ ہمارے دشمنوں کے لئے آسانیاں پیدا کر دے گی۔ ریاست کی طاقت اگر ایک شخصیت کے ہاتھ میں رہی ‘تو ہم سب خطرے میں ہیں۔اگر ریاستی وسائل عوام اور مسلح افواج کے مشترکہ کنٹرول میں آگئے تو پھر انشا اللہ‘ ہم نا قابل شکست ہی نہیں‘ کامیاب و سربلند ہوں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں