ڈی جی آئی ایس پی آر عاصم سلیم باجوہ نے آج ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے قبائلی علاقوں میں خصوصاً اور پورے ملک میں عموماً فوج کی تاریخ ساز کارروائیوں کی تفصیل بیان کی۔ جس کامیابی کے باجوہ صاحب نے دعوے کئے ہیں‘ وہ اپنی جگہ بے حد اہمیت کی حامل ہے لیکن یہ مکمل نہیں۔ افغانستان سے صدیوں پرانا سرحدی تنازعہ ‘ چند برسوں میں ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لاتعداد پہلو ہیں۔ ڈیورنڈ لائن پر دونوں ملکوں میں ہونے والے مذاکرات‘ کئی بار باہمی معاہدوں پر منتج ہوئے لیکن ان میں سے کوئی بھی معاہدہ دیرپا ثابت نہ ہوا۔ قیام پاکستان کے بعد‘ افغان حکومتوں نے بارہا اس تنازعے کو اٹھایا مگر مستقل اور دیرپاامن حاصل نہیں کیا جا سکا۔ پاکستان میں جب دہشت گردوں کا جال پھیلا‘ تو حکومت ان کے سامنے بے بس ہو چکی تھی اور کوشش ہو رہی تھی کہ دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے امن حاصل کیا جائے۔ لیکن فوج کو معلوم تھا کہ دہشت گردوں کے ساتھ کوئی معاہدہ دیرپا ثابت نہیں ہو سکتا۔ وہ ہر معاہدے کے بعد چند قدم آگے بڑھا کر مزید پیش قدمی کی کوشش کریں گے۔ چنانچہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے جہادی عزم کے تحت ‘ دہشت گردوں سے فیصلہ کن جنگ کا آغاز کر دیا۔ جس وقت اس جنگ کا فیصلہ کیا گیا‘ اس وقت دہشت گرد پورے پاکستان میں سرگرم تھے۔ ہر روز کہیں نہ کہیں دھماکہ ہوتا۔ جنوبی وزیرستان‘ دہشت گردوں کا ہیڈرکوارٹر تھا اور وہاں ہماری دفاعی فورسز کارروائی کرنے میںناکام ہو رہی تھیں۔ چنانچہ فوج کا پہلا آپریشن جنوبی وزیرستان میں ہی کیا گیا۔ بے شمار قربانیوں کے بعد ‘جب دہشت گردوں پر حملہ کیا گیا‘تو ان کا سب سے بڑا ہیڈکوارٹر ان کے ہاتھ سے نکل گیا۔ آپریشن وسیع ہوتا چلا گیا اور فوج نے باقی ماندہ سارے قبائلی علاقوں اور پورے پاکستان میں دہشت گردوں کا تعاقب شروع کر دیا۔ اس وسیع تر آپریشن کے نتائج بیان کرتے ہوئے عاصم سلیم باجوہ نے جو کچھ بتایااس کی تفصیل آپ آج کے اخبارات میں دیکھ لیں گے۔ لیکن برصغیر کے امور کے ماہر ‘ زاہد حسین کا تبصرہ قابل مطالعہ ہے۔ پاک افغان امور کے ماہر احمد رشید نے بھی اس مسئلے پر اظہار خیال کیا ہے‘ ان کا تبصرہ کل پیش کروں گا۔ آج زاہد حسین کا تجزیہ پیش خدمت ہے:
''شمالی وزیرستان میں آپریشن ضربِ عضب کا آغاز ہوئے‘ دو برس بیت چکے ہیں اور فوج اعلان کر چکی ہے کہ یہ سارا علاقہ شدت پسندوں سے پاک کر دیا گیا ہے۔ لیکن ابھی اس علاقے کو محفوظ قرار دینا ممکن نہیں ۔ اس اعلان میں ابھی وقت لگے گا۔دہشت گردی کے اس نیٹ ورک کو جو ملکی اور علاقائی سلامتی کے لیے خطرہ تھا یقیناً درہم برہم کر دیاگیا ہے لیکن یہ ابھی مکمل طور پر تباہ نہیں ہوا۔اب بھی اس علاقے میں کچھ مقامات پر مزاحمت ہو رہی ہے اور شدت پسندوں نے افغان سرحد کے ساتھ اور سرحد پار پناہ لے رکھی ہے۔آپریشن ضربِ عضب نے جہاں اس علاقے کے ناقابلِ تسخیر ہونے کا بھرم توڑ دیا، وہیں کچھ حلقوں کے خیالات کے برعکس، یہ ''افواج کا قبرستان‘‘ بھی ثابت نہیں ہوا۔ یقیناً قبائلی علاقوں میں ہونے والی یہ کارروائی، پاکستانی فوج کے لئے اب تک کی سب سے اہم جنگ تھی جس کا نتیجہ ملک بھر میں شدت پسندی کی کارروائیوں کی کمی کی شکل میں نکلا ہے اور یہ اس بات کا بھی اشارہ ہے کہ مختلف دہشت گرد تنظیموں کا شمالی وزیرستان سے براہِ راست تعلق تھا۔ملک میں فرقہ وارانہ اور مذہبی بنیادوں پر تشدد بلاروک ٹوک جاری ہے، لیکن پھر بھی شدت پسند تنظیموں کے بڑے حملے کرنے کی صلاحیت یقیناً متاثر ہوئی ہے۔کہا جاتا ہے کہ اس کی بڑی وجہ سکیورٹی اور خفیہ اداروں کی خفیہ معلومات کی بنیاد پر، ملک بھر میں ہونے والی کارروائیاں ہیں۔شمالی وزیرستان کا آپریشن، ملک میں شدت پسندی اور انتہاپسندی کے خلاف جاری مسلسل جنگ کا صرف ایک رخ ہے اور اب جب کہ ضربِ عضب کے مثبت نتائج کی تعریف کی جا رہی ہے، بہت سے معاملات ایسے بھی ہیں، جن پر سنجیدگی سے سوچ بچار کی ضرورت ہے۔خطرے کی بات یہ ہے کہ شمالی وزیرستان اور دیگر قبائلی علاقوں میں فوج کی جانب سے حاصل کئے گئے اہداف ،بے ثمر ثابت ہو سکتے ہیں۔ہمیں ماضی کے آپریشنوں سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے ،جہاں سرکاری طور پر شدت پسندوں سے پاک کئے جانے والے قریباً تمام علاقوں میں شدت پسند واپس آ گئے۔یہ بار بار ہو چکا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں، فوجی کارروائی سے مکمل مطابقت رکھنے میں ناکام رہیں جس سے نہ صرف ان کی نیت بلکہ جامع انداز سے انتہاپسندی سے لڑنے کی صلاحیت پر بھی سوال اٹھائے گئے۔ شدت پسند اور انتہاپسند تنظیموں کے خلاف، ان کے اقدامات تاحال ادھورے رہے ہیں اور ان میں تیقن کا فقدان بھی دکھائی دیا ہے۔ہماری حکمتِ عملی میں بڑی کمزوری صرف فوجی کارروائی پر مکمل توجہ مرکوز رکھنا بھی ہے۔ قبائلی علاقوں کی آبادی کی حالت میں بہتری پر بمشکل ہی کسی قسم کا غور و فکر کیا گیا ہے۔فی الوقت شدت پسندوں سے صاف کروائے گئے علاقوں میں بھی شاید ہی کوئی باقاعدہ انتظامی ڈھانچہ موجود ہو۔
بدقسمتی سے حکومت ،قبائلی پناہ گزینوں کو بھی مکمل طور پر فراموش کر چکی ہے، جس سے نہ صرف ان میں بے چینی بڑھی ہے بلکہ ان کی تنہائی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔جنوبی وزیرستان میں فوجی آپریشن کو پانچ برس بیت چکے ہیں لیکن وہاں سے نقل مکانی کرنے والے قبائلیوں کی بڑی تعداد آج بھی اپنے گھروں کو واپس نہیں جا سکی۔سول اور عسکری قیادت کے لئے، ان پناہ گزینوں کی دوبارہ آباد کاری ایک بڑا چیلنج ہے۔ اپنی زیادہ تر پالیسیوں کی مانند ،حکومت اس سلسلے میں بھی طویل المدتی منصوبہ بندی میں ناکام رہی ہے۔بے گھر قبائلیوں کو جہاں صحت، تعلیم، روزگار، خوراک، رہائش، دوبارہ آبادکاری اور سلامتی جیسے معاملات میں مشکلات درپیش ہیں، وہیں انھیں صنف کی بنیاد پر تشدد اور جرائم کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔یہ سچ ہے کہ ان قبائلیوں کی بحالی کا عمل طویل ثابت ہو سکتا ہے لیکن کہیں سے تو اس کا آغاز کرنا ہی ہو گا۔یہ خطہ لڑائی کے نتیجے میں تباہ ہو چکا ہے، جس کی وجہ سے وہاں کی آبادی کے لئے زندگی کا نئے سرے سے آغاز اور بھی مشکل ہے۔ وہاں تعمیرِ نو اور اقتصادی زندگی کی بحالی میں برسوں لگیں گے۔فوجی آپریشن قبائلی علاقوں کے پیچیدہ مسائل کا طویل مدتی حل نہیں ہے۔ یہاں سے طالبان کو نکال باہر کرنا کافی نہیں بلکہ ان علاقوں کو مرکزی دھارے میں شامل کرنا اور یہاں ملک کے کسی بھی دیگر علاقے کی مانند، اقتصادی اور سیاسی حقوق کی فراہمی نہایت اہم ہیں۔پاکستان کو قبائلی علاقوں کی آبادی کی پسماندگی اور تنہائی کے خاتمے کے لئے، جلد از جلد اقدامات کرنا ہوں گے کیونکہ اگر مقامی آبادی مرکزی دھارے سے جدا ہو تو شدت پسندوں کو خودبخود جگہ فراہم ہو جاتی ہے۔قبائلی علاقوں میں جاری فوجی آپریشن، ان کی نیم خودمختار حیثیت کے خاتمے اور انہیں پاکستان کا حصہ بنانے کے خیال کو عملی جامہ پہنانے کا موقع بھی فراہم کرتا ہے۔قبائلی علاقہ جات میں نافذ اس جارح انتظامی نظام کو بھی ختم کرنے کی ضرورت ہے جو اب فرسودہ ہو چکا ہے اور یہاں کے عوام کو ملک کے نظامِ قانون کے تحت مکمل تحفظ ملنا چاہیے۔یہ خطہ بڑے پیمانے پر بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کا متقاضی ہے۔ مثلاً یہاں سڑکوں کے جدید نظام کی تعمیر سے قبائلی علاقوں کی اقتصادی تنہائی دور کرنے میں مدد مل سکتی ہے اور انھیں نہ صرف بقیہ پاکستان بلکہ افغانستان سے بھی منسلک کیا جا سکتا ہے۔بہ الفاظِ دیگر اس اہم جنگ زدہ خطے میں ،مزید جنگ مسئلے کا حل نہیں ہے۔اس وقت جب ہم شمالی وزیرستان میں پاکستانی افواج کی کامیابیاں گن رہے ہیں، ضروری ہے کہ ان معاملات پر فوری غور کیا جائے کیونکہ یہی انتہاپسندی کے خلاف جنگ جیتنے کے لیے کلیدی اقدامات ہیں۔نہ جانے کیوں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو فوجی آپریشن سے آگے بڑھ کر سوچنے میں اتنا وقت لگا لیکن پھر بات، سخت اقدامات کرنے کے عزم کی بھی آتی ہے۔
پشاور میں آرمی پبلک سکول میں قتلِ عام کے بعد، سول اور عسکری قیادت نے ضربِ عضب کا دائرہ ملک کے بقیہ علاقوں تک پھیلانے پر اتفاق کیا تھا۔ اس اتفاقِ رائے کا نتیجہ 20 نکاتی نیشنل ایکشن پلان کی شکل میں برآمد ہوا جس کا مقصد دہشت گردی اور شدت پسندی کا قلع قمع کرنا تھا۔اگرچہ نیشنل ایکشن پلان کو بمشکل انسدادِ دہشت گردی کی ایک جامع حکمتِ عملی قرار دیا جا سکتا ہے لیکن اس کے 20 نکات میں سے بھی صرف چند پر ہی عمل درآمد ممکن ہو سکا ہے اور وہ بھی جزوی طور پر۔اس سلسلے میں اگرچہ صوبائی حکومتوں کو مکمل بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا لیکن اصل ذمہ دار وفاقی حکومت ہی ہے کیونکہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت ،جن اقدامات پر اتفاق کیا گیا تھا ان پر عمل درآمد کا کوئی میکینزم تاحال موجود ہی نہیں ہے۔نیشنل ایکشن پلان پر عمل نہ ہونے سے قبائلی علاقوں میں، فوج کی کامیابیوں کو خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ہزاروں فوجی جوانوں اور افسروں نے طالبان کو شکست دینے اور خطے میں حکومت کی رٹ بحال کرنے کے لئے، اپنی جانوں کا نذرانہ دیا ہے۔ اگر اس آپریشن کا دائرہ حقیقی معنوں میں ملک کے دیگر علاقوں تک نہ بڑھایا گیا تو خطرہ ہے کہ ان کا خون رائیگاں جائے گا۔‘‘