ہمارے وزیرخزانہ کی عوام دوستی قابل تعریف ہے کہ انہوںنے گلی محلے سے لے کرقومی اسمبلی تک فراخ دلی سے ہر کسی کو حسب ضرورت نیند کی مہلت اور فراغت مہیا کر دی۔ غالباً انہوں نے عہد کر رکھا ہے کہ وہ پیپلزپارٹی کی نقل میں کوئی کام نہیں کریں گے۔ پیپلزپارٹی والے چپڑاسیوں سے لے کر مزدوروں تک‘ ہزاروں بے روزگاروں کو ادنیٰ قسم کی نوکریاں دے دیا کرتے تھے۔ لیکن ہمارے اسحق ڈار‘ہر محنت کش کو روزگار سے محفوظ رکھتے ہیں تاکہ وہ آرام کی نیند سو سکے۔ یہی سہولت وہ اراکین قومی اسمبلی کو بھی فراہم کرتے ہیں۔ ہر چھوٹے بڑے کے ساتھ برابری کا سلوک۔ قومی اسمبلی کے اراکین شدید مصروفیات کی بنا پرسال بھر نیند پوری نہیں کر پاتے۔ معزز اراکین قومی اسمبلی سال بھر انتظار کرتے ہیں کہ ڈار صاحب کی بجٹ تقریریں آئیں اور وہ نیند پوری کر سکیں۔ حالیہ بجٹ میں بھی کسی کو مایوسی نہیں ہوئی۔ ڈار صاحب نے بجٹ پر جتنی بھی تقریریں کیں‘ ان کے دوران جو اراکین زیادہ بے خوابی کا شکار تھے‘ وہ ایوان سے نکل کر سیدھے اپنے کمروں اور گھروں میں چلے گئے اور میٹھی نیند سوئے۔ ذمہ داریوں کا احساس رکھنے والے اراکین‘ ایوان کے اندر تشریف لائے۔ مگر سونے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ ویسے بھی عام طور پر ڈار صاحب کی تقریریں سننا تضیع اوقات سمجھا جاتا ہے۔ ہر کسی کو تجربہ ہے کہ ڈار صاحب بارہ گھنٹے بول لیں۔ بیس تقریریں کر لیں۔ کام کی بات کبھی نہیں کرتے۔کام کی بات ہو بھی‘ تو الفاظ اور لہجے کا چنائو اتنی خوبصورتی سے کرتے ہیں کہ سننے والوں میں سے کوئی بھی دلچسپی لینے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔
آج 22 جون کو صبح کے سیشن میں ڈار صاحب بجٹ پر ایک تقریر فرما رہے تھے‘ جو براہ راست ٹیلی کاسٹ کی گئی۔ مجھے پہلی بار اندازہ ہوا کہ ڈار صاحب کی تقریر‘ اراکین قومی اسمبلی کو سنانے کے لئے ہی کافی نہیں‘ یہ ٹی وی کے ہزاروں ناظرین کو گھروں میں بیک وقت خواب خرگوش کے مزے لینے کے مواقع بھی فراہم کرتی ہے۔میں ان کی تقریر غور سے سننے کے لئے بیٹھا تھا تاکہ اس پر کالم لکھ سکوں۔ لیکن ان کی تقریر کے چند ہی منٹ گزرے تھے کہ میں بھی اونگھنے لگا۔ سبب یہ ہوا کہ ڈار صاحب کے ساتھ والی نشست پر وزیردفاعی پیداوار‘ رانا تنویر بیٹھے تھے۔ وہ تو جیسے ڈار صاحب کی تقریر شروع ہونے کے ہی منتظر تھے۔ ادھر ڈار صاحب شروع ہوئے۔ ادھر رانا صاحب دیکھتے ہی دیکھتے‘ گہری نیند میں ڈوب کر خواب دیکھنے لگے۔ ان دنوں برسراقتدار پارٹی کا ہر رکن موقع پاتے ہی یہ خواب دیکھنا شروع کر دیتا ہے کہ وزیراعظم ‘ وزارت عظمیٰ کی ذمہ داریاں عارضی طور پر کب اس کے سپرد کرتے ہیں؟ منہ سے یہ بات کوئی نہیں کہتا۔ ہم مشرقی لوگ بڑے وضع دار اور لحاظ رکھنے والے ہوتے ہیں۔ مگر حقیقت کب تک چھپائی جا سکتی ہے؟ بلاول بھٹو ‘ نوجوان سیاستدان ہیں۔ ان کی تعلیم و تربیت برطانیہ کی ہے اور وہ جانتے ہیں کہ مغرب میں بناوٹی رکھ رکھائو سے کام لینا بے معنی ہے۔
ہمارے وزیراعظم بھی مغربی معالجین سے استفادہ کر رہے ہیں۔ آج قریباً ایک مہینہ ہونے کو آیا ہے کہ وزیراعظم ملک سے باہر ہیں۔ ملک میں ان کی عدم موجودگی سے ظاہر ہونے لگا ہے کہ بہت سے معاملات وزیراعظم کی توجہ کے طالب ہیں‘ ان معاملات کو مکمل اتھارٹی کی توجہ حاصل نہیں ہو رہی۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے‘ وزارت عظمیٰ کی ذمہ داریاں یا تو بیوروکریٹس کے سپرد ہیں یا عزیزہ مریم نواز وزارت عظمیٰ کے امور کی دیکھ بھال کر رہی ہیں۔ یہ دونوں متبادل انتظامات فیصلہ سازی کے اس معیار کے تقاضے پورے نہیں کر سکتے‘ جو ایک تجربہ کار سیاستدان اور منتظم کر سکتا ہے۔ وہ فیصلے جو خود وزیراعظم کی توجہ کے محتاج ہیں یا تو ہو نہیں رہے یا جن کو ذمہ داری دی گئی ہے‘ و ہ پوری نہیں کر پا رہے۔ ادھورے کام اور ادھورے فیصلے ہونے سے بہتر ہے کہ انہیںموقوف ہی رکھا جائے۔ تجربے سے محروم عورت آٹا بھی گوندھنے لگے‘ تو اتنا خراب کر بیٹھتی ہے کہ دوبارہ چاہے مزید آٹا ڈالے یامزید پانی ‘روٹی ٹھیک سے نہیں پکائی جا سکتی۔ آٹا نئے سرے سے ہی گوندھنا پڑے گا اور بعد از خرابی بسیار روٹی نئے سرے سے ہی پکانا پڑے گی۔ یہی کچھ ہمارے قومی فیصلوں کے معاملے میں ہو رہا ہے۔ جو کام وزیراعظم کر سکتے ہیں اگر دوسرے کر پائیں‘ تو پھر قومی اسمبلی میں بھاری اکثریت سے منتخب کئے گئے آدمی کی کیا ضرورت ہے؟ غیرمعمولی فیصلے‘ غیرمعمولی انسان ہی کر سکتے ہیں۔
ہمارے وزیراعظم ایک ہفتے میں چار بائی پاس آپریشنز کے بعد بھی خدا کے فضل و کرم سے چلنا پھرنا شروع کر چکے ہیں۔ اب آگے انشا اللہ صحت ہی صحت ہے۔ لیکن ترجمانوں نے بتایا ہے کہ میاں صاحب کو طویل سفر اور معمول کا کام کاج کرنے کے لئے ابھی مختصر سا عرصہ درکار ہو گا۔لیکن لوگ دبی زبان میں کہا جا رہا ہے کہ کسی بھی ہمہ مقتدر وزیر اعظم کا ایک ماہ تک‘ اپنے منصب سے لاتعلق ہو کر علاج کرانا‘ مناسب نہیں اور یہ تجاویز زیربحث آنے لگی ہیں کہ وزیراعظم اپنے کسی قابل اعتماد وزیر کو عارضی طور پر چند روز کے لئے ذمہ داریاں
دے کر مکمل آرام کریں۔ تاکہ وہ جلد صحت یاب ہو کر اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ میں تو یہ بھی سمجھتا ہوں کہ آخری آپریشن کے بعد‘ جیسے ہی میاں صاحب چہل قدمی کے لئے نکلے‘ اسی روز وہ ڈاکٹروں کے مشورے سے اپنی ذمہ داریاں عارضی طور پر کسی وزیرکے سپرد کر کے مکمل آرام کرتے‘ تو اب تک وہ صحت یاب ہوکر‘ اپنے دفتر میں کام کر رہے ہوتے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی مکمل صحت مندی میں تاخیر کا سبب وہ تشویش ہے‘ جو انہیں دارالحکومت سے دور رہنے کی بنا پر ہوتی جا رہی ہے۔ اتنے بڑے عہدے کی ذمہ داریوں سے دور رہ کر محض اندازوں کی بنا پر کام جاری رکھنا‘ ذہن پر اضافی بوجھ ڈال سکتا ہے۔ اگر انہوں نے اپنی ذمہ داریاں کسی ساتھی کو تفویض کر کے مکمل آرام کیا ہوتا‘ تو اب تک وہ دفتر جانا شروع کر چکے ہوتے۔ لیکن وہی پاکستانی عادت کہ ہم سچائی کو قبول کرنے میںمصنوعی اور غیرحقیقی جذبات کے زیراثر آ جاتے ہیں۔ آدھی فکرمندی اور آدھی فراغت میں تقسیم ہو کر‘ کوئی کام بھی پورا نہیں کر پاتے۔ نہ پورا آرام کیا جا سکتا ہے۔ نہ پورا کام۔ اس کے برعکس چہل قدمی کے پہلے ہی دن‘ وزیراعظم مکمل آرام کا فیصلہ کر کے‘ چھٹیوں میں وقفے وقفے سے کام بھی کر لیتے اور آج تک صحت یاب ہو کر‘ اسلام آباد میں اپنی ذمہ داریاں سنبھال چکے ہوتے۔ مگر ہم ایسا نہیں کریں گے۔ کام کا نقصان بھی کریں گے اورصحت مندی میں تاخیر بھی۔ یہی فرق مشرقی رکھ رکھائو اور مغربی حقیقت پسندی میں ہے۔ تلخ سچائی کا اعتراف ‘ مغرب کے تربیت یافتہ بلاول بھٹو نے کیا۔ بے شک بات تلخ ہے۔ مگر سچی ہے۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ ایک ماہ سے وزیراعظم اپنے فرائض انجام نہیں دے پا رہے۔ اگلی بات کہنے میںانہوں نے مشرقی احتیاط سے کام لینے کے بجائے ‘ سچائی بیان کرنا مناسب سمجھا اور کہا کہ اگر ملک ایک مہینے تک وزیراعظم کی موجودگی کے بغیر رہ سکتا ہے‘ تو پھر وزیراعظم کی ضرورت ہی کیا ہے؟ بلاول بھٹو کو یہ بات کہنے کا موقع نہ ملتا‘ اگر وزیراعظم نے چہل قدمی کے پہلے ہی دن‘ اعلان کر دیا ہوتا کہ وزارت عظمیٰ کی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لئے وہ اپنے فلاں وزیرکو نامزد کر رہے ہیں اور مکمل صحت یاب ہو کر فرائض سنبھال لیں گے۔مجھے نہیں پتہ کہ اس وقت وزیراعظم کی صحت یابی کی رفتار کیا ہے؟ لیکن وزیراعظم اپنے طبی ماہرین سے مشورہ کر کے‘ فوری طور پر فیصلہ کریں کہ اگر انہیں مزید آٹھ دس دن مکمل آرام کی ضرورت ہو‘ تو وہ آئین کے مطابق متبادل انتظام کر لیں اور جلد ازجلد صحت یاب ہو کر‘ واپس آ جائیں۔سولہ سترہ افراد پر مشتمل خاندان‘ ایک ماہ سے زیادہ امیدوبیم کی حالت میں رہ سکتا ہے۔ لیکن بیس کروڑ عوام کو غیرمعینہ عرصے کے لئے‘ ایسی حالت میں نہیں رکھا جا سکتا۔اب بلاول بھٹو نے زبان کھولی ہے۔ کل کو ایک کے بعد ایک‘ یہی کہنا شروع کر دے گا۔