"NNC" (space) message & send to 7575

دھاندلی یا دھاندلا؟

یوں لگتا ہے کہ اپوزیشن نے صحیح جگہ ہاتھ ڈالا۔ ابھی تک اس نے جتنے بھی دائو کھیلے‘ وزیرخزانہ جناب اسحق ڈار نے جو عملاً قائم مقام وزیراعظم بھی ہیں‘ نے کوئی دائو چلنے نہیں دیا۔ ایک تو یہ پتہ نہیں چلتا کہ ہمارا قائم مقام وزیراعظم کون ہے؟ ایک کابینہ کمیٹی‘ عزیزہ مریم نواز کی سربراہی میں کام کر رہی ہے۔ یہ منی کابینہ بھی وزارت عظمیٰ کے متعدد امور سرانجام دے رہی ہے۔ اسی لئے اسلام آباد میں مشہور ہے کہ مریم بی بی‘ قائم مقام وزیراعظم ہیں اور مارکیٹ میں جتنے قائم مقام وزرائے اعظم پائے جاتے ہیں‘ ان میں سب سے مضبوط مریم بی بی ہیں۔ اس میں شبہ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ مریم بی بی کے بطور قائم مقام وزیراعظم کئے ہوئے کاموں ہی سے‘ پتہ چل جاتا ہے کہ سارے امور وہی نمٹا رہی ہیں اور جس طرح وہ کام نمٹاتی ہیں‘ ان پر کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے۔ جلد ہی یقین ہو جاتا ہے کہ قائم مقام وزیراعظم کون ہیں؟ مگر ایسا لگتا ہے کہ مریم بی بی کو وزارت عظمیٰ کا جو ''ٹوٹا‘‘ دیا گیا ہے‘ وہ ساری وزارت عظمیٰ کا احاطہ نہیں کرتا۔ لیکن جتنا حصہ دیا گیا ہے اس میں وہ پورے کام نہیں نمٹا سکتیں۔ عملاً پورے قائم مقام وزیراعظم‘ منشی اسحق ڈار ہیں۔ گزشتہ روز وہ پوری کابینہ کے ایک اجلاس کی صدارت کرتے نظر آئے اور وہ صدارتی کرسی‘ جس پر وزیراعظم براجمان ہوتے تھے‘ اسی پر آج کل اسحق ڈار بیٹھتے ہیں(اور شرماتے بھی نہیں)۔ وہ کسی اعتبار سے وزارت عظمیٰ کے اہل نہیں لگتے۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ وہ سینیٹر ہیں۔ عوام کے براہ راست ووٹ لے کر پارلیمنٹ کے اندر نہیں آئے۔ اپوزیشن جو مختلف حیلے بہانوں سے عدلیہ کا رخ کرنے پر تیار رہتی ہے‘ خدا جانے اس کی نظر قائم مقام وزیراعظم پر کیوں نہیں پڑی؟
منشی اسحق ڈار‘ آج کل اسی کرسی پر تشریف فرما ہوتے ہیں‘ جس کرسی پر بیٹھ کر وزیراعظم نواز شریف‘ کابینہ کے اجلاسوں کی صدارت کرتے تھے۔میں حیران ہوں کہ کابینہ کے وزرا ‘ اجلاسوں میں ایک ایسے شخص کی صدارت میں کیوں بیٹھتے ہیں؟ جو نمائندہ قومی اسمبلی کا حصہ نہیں؟۔براہ راست انتخابی عمل سے گزر کے پارلیمنٹ میں نہیں آیا۔کسی بھی منصب پر عارضی طور سے فائز ہونے کے لئے‘ اس میں یہ اہلیت ہونا چاہئے کہ وہ آئینی طور پر اس منصب پر کام کرنے کا اہل ہو‘جس کی ذمہ داریاں وہ قائم مقام حیثیت میں سنبھال سکے۔کیا یہ آئین کی کھلی خلاف ورزی نہیں؟ کہ ایک سینیٹر جو براہ راست عوامی ووٹوں سے منتخب نہیں ہوا‘ قائم مقام وزیراعظم بن کر بیٹھ جائے؟مجھے نہیں معلوم کہ اس کی نوٹیفکیشن کی گئی ہے کہ نہیں؟ اگر نوٹیفکیشن کی گئی ہے تو یہ دھاندلی ہے‘ اور اگر بغیر نوٹیفکیشن کے وہ وزارت عظمیٰ کی ذمہ داریاں سنبھال کر‘ کھلم کھلا کابینہ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہیں تو یہ دھاندلا ہے۔بے شک ''قائم مقامی‘‘ کی نوٹیفکیشن نہ کی گئی ہو‘ ریکارڈ پر بھی اس کا ثبوت موجود نہ ہو لیکن مختلف ٹی وی چینلز پر دکھائی گئی فوٹیج کو تو ختم نہیں جا سکتا۔بیشتر ٹی وی چینلز نے کابینہ کے اجلاسوں کی کوریج کی ‘جن کی صدارت منشی اسحق ڈار کر رہے تھے۔عدالت میں جانے کے لئے کافی ہے۔ معزز جج صاحبان ‘مختلف ٹی وی چینلز پر عملاً ڈار صاحب کو کابینہ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے خود ملاحظہ فرما سکتے ہیں ۔ مزید تفصیلات میں جاننے کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ا سی ہال میںوزیراعظم ‘کابینہ کے اجلاسو ں کی صدارت کرتے ہیں اوراسی کرسی پر جہاں وزیراعظم بیٹھتے تھے‘ ڈار صاحب بیٹھے احکامات جاری کر رہے ہوتے ہیں۔ کیا وزیراعظم کی کرسی پر کوئی سہاقا‘ ماجا ‘ گاماں قبضہ کر سکتا ہے؟ اور وہ بھی باقاعدہ اختیارات کے ساتھ؟ سرکاری ٹی وی پر نقالوں کی کیبنٹ میٹنگ تو دکھائی نہیں جا سکتی۔ اس میں تو وزیراعظم سمیت ‘تمام کردار حقیقی ہونا چاہئے‘
جو اداکاری نہیں اپنی اصل آئینی ذمہ داریاں پوری کر رہے ہوں۔اس سلسلے میں مریم بی بی کی پوزیشن بہتر ہے۔ کم از کم میں نے انہیں وفاقی کابینہ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ اگر دو چار اراکین کے ساتھ‘ انہیں بیٹھے دکھایا گیا ہو تو اسے کابینہ کا اجلاس نہیں مانا جا سکتا۔ کابینہ کے اصل اجلاس میں وزیراعظم کی ''اداکاری‘‘ صرف منشی اسحق ڈار کرتے ہیں‘ جو آئین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔اگر پوری کابینہ ایک اجنبی کے زیر صدارت‘ اپنی سرکاری ذمہ داریاں نبھاتی ہے‘ تو اس کے تمام اراکین آئینی خلاف ورزی کے مرتکب ہوتے ہیں یا نہیں؟اور پھر بات یہیں نہیں رکتی۔ قام مقائم وزیراعظم ‘منشی اسحق ڈار کے دور میں‘ لاقانونیت ہوتی ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟ اگر کوئی شخص وزیراعظم کی عدم موجودگی میں ان کی ذمہ داریاں نبھا رہا ہے تو پھر سارے انتظامی اقدامات کاذمہ دار بھی وہی شخص ہو گا‘ جس نے وزیراعظم کے منصبی فرائض ادا کئے۔ کیا یہ فعل قابل سزا نہیں؟ اور پھر وہ تمام وزرااور سرکاری اہلکار‘ جنہوں نے ایک '' مداری‘‘ کے احکامات مانے ہوں ‘ ان کے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہئے؟ ان آئینی فرائض کا سارا ڈرامہ جس میں قائم مقام وزیراعظم کی اداکاری کی گئی ہو‘ لاتعداد آئینی خلاف ورزیوں کا مجموعہ ہو گا۔منتخب اداروں کے جتنے عہدے دار اس ڈرامے میں حصہ لیں گے‘ وہ تمام کے تمام اس آئینی خلاف ورزی کے مرتکب ہوں گے۔
''اداکاری‘‘ کے اس عمل کا صرف ایک شخص ذمہ دار نہیں ہوتا۔ منتخب اداروں کا کوئی کا رکن بھی یہ سوال اٹھا سکتا ہے کہ کیا وزیراعظم‘ اپنے منصب کی
ذمہ داریاں کسی اجنبی کے سپرد کر سکتا ہے؟ کابینہ کا کوئی رکن جو براہ راست عام انتخابات میں منتخب نہیں ہوا‘ توکیا وزیراعظم اپنی آئینی ذمہ داریاں اس کے سپرد کر سکتے ہیں؟ جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے‘ ایسا کرتے وقت وزیراعظم کو اپنی نشست خالی کر کے‘ قائم مقام منصب حاصل کرنے والے کو وزارت عظمیٰ کا باضابطہ حلف دلانا ہو گا۔منشی اسحق ڈار کو قائم مقام وزیراعظم بناتے وقت‘ ایسی کوئی کارروائی نہیں کی گئی؟۔تو کیا وزارت عظمیٰ کا منصب کسی کلرک یا ہیڈ کلرک جیسا ہے؟ کہ اس پر کوئی بھی شخص جب چاہے‘ ایک آفس آرڈر کے ذریعے براجمان ہو سکتا ہے؟جب اسحق ڈار نے کابینہ کے اجلاس کی صدارت کی تو کابینہ کے کسی بھی رکن نے اعتراض نہیں کیا؟ کیا پاکستان کی وفاقی کابینہ کے اجلاس بچوں کا کھیل ہیں؟ یا ڈرامے کے سین ہیں؟وزیراعظم کی ایک بار سے زیادہ کی عدم موجودگی کے دوران‘ وفاقی کابینہ کے جتنے اجلاس ہوئے‘ ان کی آئینی حیثیت کیا ہے؟ ان اجلاسوں کی صدارت کرنے والا کون تھا؟ آئین کے کس آرٹیکل کے تحت‘ اس نے وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھ کر وفاقی کابینہ کے اجلاس کی صدارت کی؟ کیا خود وزیراعظم کو یہ اختیار حاصل ہے؟ کہ وہ اپنی مرضی سے جب اور جن حالات میں چاہیں‘ کسی شخص کو اپنا قائم مقام مقرر کر سکتے ہیں؟ غرض یہ کہ ایسی صورت حال میںبے شمار سوالات پیدا ہوں گے۔مثلاً منشی اسحق ڈار نے صوبائی حکومتوں سے جو رابطے کئے۔ کیا وہ صرف وزیرخزانہ کی حیثیت میں تھے؟ اور اگر انہوں نے کوئی ایسا اختیار استعمال کیا‘ جس کے مجاز وزیراعظم ہیں ‘تو صور ت حال کیا ہو گی؟ کسی بھی جمہوری ملک میں ایسی مثال موجود ہے کہ منتخب وزیراعظم ایک ماہ سے زیادہ عرصہ بیرون ملک گزارنے کے لئے جائیں اور ایک غیر مجاز شخص کوقائم مقام وزیراعظم مقرر کر دیں؟ اس کے بارے میںوزیراعظم کے ترجمان جناب مصدق ملک کا کہناہے کہ ''آئین کی دفعہ12ون کے تحت وزیراعظم تین ماہ کی چھٹی لے سکتے ہیں۔ کسی کو بطوروزیراعظم نامزد کرنے کی ضرورت نہیں۔آرٹیکل90کے تحت ‘وزیراعظم براہ راست وفاقی وزرا کے ذریعے کام چلا سکتے ہیں‘‘۔اس کے برعکس سابق چیف جسٹس آف پاکستان‘ جسٹس افتخار چوہدری کا موقف ہے کہ'' وزیراعظم کی غیر موجودگی میں امور حکومت کو کوئی وزیر نہیں چلا سکتا۔اس کے لئے ضروری ہے کہ کسی اور کو وزیراعظم بنایا جائے‘‘۔ظاہر ہے کہ آئینی معاملات میں‘ سابق چیف جسٹس آف پاکستان کی رائے زیادہ وقیع ہے۔اس کے تحت واضح ہے کہ کابینہ کے کسی بھی وزیر کو قائم مقام وزیراعظم نہیں بنایا جا سکتا۔سابق چیف جسٹس آف پاکستان کے مطابق آئینی تقاضوں کے مطابق لازم ہے کہ کسی دوسرے کو وزیراعظم بنایا جائے۔اس رائے کی روشنی میں منشی اسحق ڈار کہاں کھڑے ہیں؟ وہ کابینہ کے اجلاسو ں کی صدارت کس حیثیت میں کر رہے ہیں؟ کیا ہم آئین کی خلاف ورزی کے مرتکب نہیں ہو رہے؟ یا آئینی خلا میں نہیں کھڑے؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں