بھارت نے نیوکلیئر سپلائر گروپ (این ایس جی) کی رکنیت حاصل کرنے کے لئے جو درخواست کی تھی‘ اسے مسترد کر دیا گیا ہے۔ بھارت نے اس رکنیت کے لئے جو شور مچایا تھا اور وزیراعظم نریندر مودی نے ذاتی طور پر جو بھاگ دوڑ کی تھی‘ اس کا نتیجہ جب صفر نکلا‘ تو بھارتی حکومت کی بوکھلاہٹ اور شرمندگی دیدنی تھی۔ بھارت نے رکنیت کی درخواست دے کر ساری دنیا میں اودھم مچایا تھا کہ وہ یہ درخواست بہرحال منظور کرائے گا۔ ساتھ ہی اس نے مختلف ملکوںکے ساتھ دوطرفہ رابطے کر کے‘ اپنا موقف تفصیل سے بیان کیا اور سمجھ لیا کہ بھارت کے سفارتی پیغام کو دوسرے ملک کے سفارت حلقوںنے اچھی طرح سمجھ لیا ہے۔مودی کی ٹیم کے سفارتی اہلکاروں نے اپنے تصورات کے تحت ‘ کامیابی کی جو امیدیں قائم کیں اور وزارت خارجہ کو امیدیں دلائیں ‘ ان کی روشنی میں بھارت کی حکومت کی توقعات بڑھتی گئیں اور اس نے داخلی اور خارجی طور پر کامیابی کے امکانات کوبڑھا چڑھا کر بیان کرنا شروع کر دیا۔ اپنی اس مہم میں اس نے پاکستان کو بلاوجہ ہدف تنقید بنایا اور اس کے ترجمانوں نے ضرورت سے زیادہ اعتماد کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہنا شروع کر دیا کہ پاکستان ‘ ہماری رکنیت کے خلاف اپنی حیثیت سے زیادہ مخالفانہ پروپیگنڈا کر رہا ہے‘ لیکن عالمی برادری میں اس کی آواز میں کوئی اثر نہیں رہ گیا۔ وہ سفارتی طور پر تنہا ہے اور بھارت کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کر کے‘ پاکستان کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔ لیکن جب درخواست مسترد کر دی گئی‘ تو بھارت حواس باختہ ہو گیا۔ درخواست مسترد کرنے والے ملکوں میں دو تین نے بھی بھارت کے حق میں آواز نہیں اٹھائی۔ بھارت کی جو درگت بنائی گئی اس کی تفصیل چین کے سرکاری اخبار ''گلوبل ٹائمز‘‘ نے اپنے اداریے میں شائع کی ہے۔ اس اداریے کا ترجمہ پیش کر رہا ہوں۔
''نیوکلیئر سپلائرز گروپ (این ایس جی) کا اجلاس گزشتہ ہفتے سیئول میں منعقد ہوا۔ این ایس جی میں جمعرات کی شام جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے، این پی ٹی پر دستخط نہ کرنے والے ممالک کو این ایس جی کی رکنیت دیے جانے پر بحث کے لیے ایک خصوصی کانفرنس منعقد کی گئی۔ اس میں چین سمیت 10 ممالک نے اس کوشش کی مخالفت کی۔بھارت این پی ٹی پر دستخط نہ کرنے والے ممالک میں شامل ہے لیکن وہ این ایس جی میں شامل ہونے کے لیے سب سے زیادہ دلچسپی رکھنے والا مدعی ہے۔ سیئول کانفرنس میں بھارتی میڈیا نے اپنی دعویداری کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ کچھ نے یہاں تک لکھا کہ این ایس جی کے 48 ارکان میں چین کے علاوہ تمام 47 ممالک نے بھارت کی حمایت کے لیے ہری جھنڈی دکھا دی ہے۔1975ء میں قیام کے بعد سے ہی این ایس جی کے تمام ارکان نے این پی ٹی پر دستخط کیے ہیں۔ یہ اس تنظیم کا بنیادی اصول بن گیا ہے۔ اب بھارت این پی ٹی پر دستخط کیے بغیر این ایس جی میں شامل ہوکر پہلا استثنیٰ لینا چاہتا ہے۔ لیکن یہ چین اور دیگر رکن ممالک کی منطقی ذمہ داری ہے کہ وہ اصولوں کی حفاظت کے لیے بھارت کی تجویز کو مسترد کر دیں۔
بہرحال انڈیا میں رائے عامہ نے اس کے متعلق سخت رد عمل کا اظہار کیا۔ بعض انڈین میڈیا ہاؤسز نے چینی موقف کو بدنام کرنا شروع کر دیا جبکہ بعض ہندوستانیوں نے چین میں بنی ہوئی اشیا کے بائیکاٹ اور برکس سے ہٹنے تک کا مطالبہ کر ڈالا۔بھارت کے عزائم کی امریکی حمایت نے سب سے زیادہ حوصلہ افزائی کی ہے۔ بھارت کو حمایت دینے کی امریکہ کی بھارت نواز پالیسی کا مقصد دراصل چین کے گرد دائرہ تنگ کرنا ہے۔امریکہ پوری دنیا نہیں ہے۔ اس کی حمایت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انڈیا نے پوری دنیا کی حمایت حاصل کر لی ہے۔ اس بنیادی حقیقت کو ہندوستان نے نظر انداز کیا ہے۔بعض بھارتیوں کی شکایت کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ چین کی کارروائی بین الاقوامی قوانین کے مطابق تھی۔ لیکن بھارت کے رد عمل سے یہ ظاہر ہوا کہ اس کے قومی مفاد کے لیے دنیا بھر میں رائج اصولوں کی خلاف ورزی کر دی جائے۔
حالیہ برسوں میں یہ دیکھا گیا ہے کہ مغربی دنیا نے بھارت کی بہت تعریف کی ہے جبکہ چین نے برائی کی ہے۔ بھارت کو بگاڑ دیا گیا ہے۔ ہر چند کہ پورے جنوبی ایشیا کی مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) چین کے جی ڈی پی کا صرف 20 فیصد ہی ہے تاہم بھارت اب بھی مغرب کی نگاہ میں کرشماتی بچہ ہے جو اپنے حریفوں کے مقابلے میں برتری رکھتا ہے اور اس کے پاس صلاحیت بھی چین سے زیادہ ہے۔ بین الاقوامی سطح پر ملنے والی تعریف و توصیف نے بین الاقوامی معاملات میں انڈیا کو قدرے مغرور بنا دیا ہے۔
پیر کو میزائل ٹیکنالوجی کنٹرول رجیم (ایم ٹی سی آر) نے انڈیا کو شامل کیا لیکن چین کو شامل کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ یہ خبر چینی لوگوں میں چھوٹی سی لہر بھی پیدا نہیں کر پائی۔ چین کے لوگ بین الاقوامی سطح پر ملنے والے جھٹکوں کو برداشت کرنے کے لیے زیادہ بالغ ہو گئے ہیں۔کچھ بھارتی بہت خود غرض اور خود کو درست کہنے والے ہیں۔اس کے برعکس انڈین حکومت اخلاق سے پیش آتی ہے اور رابطہ برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ برہمی کا اظہار نئی دہلی کے لیے کوئی متبادل نہیں۔بھارتی قوم پرستوں کو یہ سیکھنا ہوگا کہ انہیں کیسا سلوک کرنا ہے؟ اگر وہ چاہتے ہیں کہ ان کا ملک اہم طاقت بنے تو انہیں یہ جاننا ہوگا کہ اہم طاقتیں اپنا کھیل کس طرح کھیلتی ہیں۔‘‘
چین کے سرکاری ترجمان نے جس طرح بھارت کی درگت بنائی ہے‘ اس کے لب و لہجے سے ظاہر ہوتا ہے کہ عالمی سیاست میں چین کی طرف سے غیرمعمولی طرز عمل کا مظاہرہ کیا گیا۔ عموماً چین دوسرے ملکوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے سفارتی آداب کا پورا خیال رکھتا ہے اور چین کا میڈیا جو کہ حکومت کا ہم زبان ہوتا ہے‘ وہ بھی اسی لب و لہجے میں بات کرتا ہے‘ جو حکومت کی پالیسی
کے مطابق ہو۔ دوسری طرف بھارت نے خو دکو اپنی طاقت اور حیثیت سے زیادہ سمجھنا شروع کر دیا ہے۔ خصوصاً مودی کی ناتجربہ کار حکومت‘ جس کے وزیراور مشیر سب کے سب کاروبار حکومت میں پہلی بار شامل ہوئے ہیں‘ ان میں سے کسی کو بھی وہ تجربہ نہیں‘ جو کہنہ مشق سفارتکاروں کو ہوتا ہے۔ بھارت کی خارجہ پالیسی کو چلانے والے مودی سمیت ‘سب کے سب وزرا ء اور مشیر اس گمراہ کن تصور کے اسیر ہیں کہ ان کا ملک بھی اپنی آبادی اور سائز میں عالمی طاقتوں کی صف میں کھڑا ہو چکا ہے اور خود کو چین کا حریف سمجھ کر‘ بڑی طاقتوں کی صف میںشمار کرنا شروع کر دیا ہے۔ اسی زعم میں وہ نیوکلیئر سپلائرز گروپ کی رکنیت کا دعویدار بن کر ‘ اپنے آپ کو دوسرے اراکین کے مساوی سمجھنے لگا اور چین اور پاکستان دونوں کے بارے میں‘ اس نے باور کر لیا کہ وہ اپنے مضبوط دوستوں کے ساتھ رکنیت کا طلب گار ہے اور ان کے ہوتے ہوئے چین اور پاکستان کی رائے حاوی نہیں ہو سکے گی۔ نوآموز بھارتی سفارتکاروں کی یہ امید بے جا بھی نہیں تھی۔ امریکہ نے جس طرح مودی کی پذیرائی کی‘ اسے دیکھ کر بھارت کی امیدیں آسمانوں کو چھونے لگیں۔ ساتھ ہی اسے برطانیہ‘ فرانس‘ روس اور دیگر بڑی طاقتوں کی حمایت کی توقع تھی۔لیکن بھارت نے یہ فراموش کر دیا کہ بڑی طاقت کا درجہ حاصل کرنے کے لئے محض چار پیسے اور چند کروڑ کی زیادہ آبادی‘ سارے تقاضے پورے نہیں کر سکتی۔ بڑی طاقت کا ایک کردار ہوتا ہے۔ بڑی طاقتوں کی برادری میں شامل ہونے کے لئے طاقت کا رکھ رکھائو ہوتا ہے اور عالمی برادری میں ایک ذمہ دارانہ برتائو کا ثبوت دینا پڑتا ہے۔ بھارت اس معیار پر پورا نہیں اترتا۔ اس نے تمام عالمی قوانین کی بے شرمی سے خلاف ورزی کر رکھی ہے۔ کشمیر میں 70سال سے ‘جو غیرانسانی برتائو کرتا آ رہا ہے‘ صرف وہی اسے ذمہ دار طاقتوں کی صف میں شامل ہونے کے نااہل ثابت کرتا ہے۔ مزید تفصیل بتانے کی ضرورت نہیں۔ وہ اپنے تمام پڑوسیوں کے ساتھ غیرذمہ دارانہ سلوک کا مرتکب ہوتا رہتا ہے۔ این ایس جی کی رکنیت حاصل کرنے کی خاطربھارت کے لئے یہ ثابت کرنا لازم تھا کہ وہ اس کا اہل بھی ہے۔ چین نے طاقت کا استعمال کر کے اس کی رکنیت میں رکاوٹ نہیں ڈالی‘ بلکہ بھارت کا اپنا ریکارڈ اس قابل نہیں تھا کہ وہ یہ رکنیت حاصل کر سکے۔ چین نے تن تنہا بھارت کی نااہلی ثابت نہیں کی‘ بھارت خود اس کا ذمہ دار ہے۔ چین نے محض بھارت کی اس نااہلی کو ثابت کیا ۔بھارت کو پہلی مرتبہ امریکہ کی دوستی کا تجربہ ہوا ہے۔مودی جی نے امریکہ کے ساتھ اپنے لو افیئر پر زیادہ ہی اعتماد کر لیا۔ ہم ایسے تجربے سے بے شمار نقصانات اٹھا چکے ہیں۔ماضی میں بھارت کی سفارتکاری محض ایک بلاک کی حاشیہ برداری پر انحصار کرتی تھی۔ انہیں مغربی گروپ کے ساتھ تعلقات کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔مودی جی نے پہلی مرتبہ ماضی کا حصار توڑ کے‘ آزاد قوموں کی برادری میں قدم رکھا۔ان کے ملک میں کھلی سفارتکاری کا تجربہ رکھنے والے ماہرین دستیاب ہی نہیں۔بھارت نے مغرب کی ''دوستی‘‘ پر انحصار کرتے ہوئے‘ چین سے ٹکر لینے کا جو پہلا تجربہ کیا‘ وہ سبق سکھانے کے لئے کافی ہے۔