پاکستانی عوام نے ایوب خان کے دور میں اپنے لیڈروں سے توقعات رکھنا چھوڑ دیا تھا۔ ہر دور میں ایک سے بڑھ کے ایک مداری آیا۔اس نے نئے سے نیا روپ دکھایا۔ اس دور میں انتظامیہ کے اندر لوٹ مار کی جتنی گنجائش تھی‘ اس سے بڑھ کر لوٹ مار کی اورا پنے انجام کو پہنچ کر تاریخ کے اندھیروں میں گم ہو گئے۔مشرقی پاکستان گنوانے کے بعد‘ ہمارے لیڈروں کی ہوس زر ختم نہ ہوئی۔ وہ باقی ماندہ ملک کی رگوں سے بھی لہو نچوڑنے کے وحشیانہ کام میں مصروف رہے۔ لوٹ مار کی انتہا‘ جنرل ضیا الحق کے دور میں ہوئی۔ اس نام نہاد'' مردِ مومن مردِ حق‘‘ نے پاکستان کی سلامتی کو دائو پر لگا کر لوٹ مار کی نئی راہیں نکالیں اور پاکستان کے وجود کو یوں کھوکھلا کیا کہ ہم آج بھی استحکام حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔ہمارا ملک اسلام کے نا م پر ڈاکہ زنی کرنے والوں کی آماجگاہ بن گیا۔ پہلے مرحلے میں امریکی ڈالروں کا استعمال کر کے‘ افغانستان کو عدم استحکام سے دوچار کیا۔اس ملک کی نہایت ہی مختصر سی انتظامیہ کے بخیے ادھیڑ کر رکھ دئیے گئے۔ روس کو مداخلت پر آمادہ کیا گیا اور پھر امریکہ سے مداخلت کی التجائیں کر کے‘ اس سے ڈالر بٹورے اور اس کے بدلے میں ذمہ داری قبول کی کہ ہم روس کو افغانستان سے نکالیں گے ۔ ورنہ وہ گرم پانیوں کے راستوں پر کنٹرول حاصل کر کے‘ تیل کے ذخیروں پر قبضہ کرلے گا۔ مجھے نہیں معلوم کہ ضیا الحق کی یہ کہانی‘ امریکہ نے کیوں خریدی؟ موجودہ دور کی امریکی قیادتیں ‘افغانستان کے المیے کو آج انسانی خون اور امریکی ڈالروں کا ضیاع تصور کرتی ہیں۔
وہ دور مدتوں پہلے ختم ہو گیا۔لیکن شروع میں امریکہ سے اسلحہ کے باکسز اور ڈالروں کے بھرے ہوئے صندوق پاکستان آیا کرتے‘ جو کسی گنتی کے بغیر آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل اخترعبدالرحمن کے سپرد کر دئیے جاتے۔یہ ان کی مرضی ہوتی کہ ڈالروں کے کتنے صندوق جنرل ضیا کے سپرد کرنا ہیں ؟ کہ وہ خود انہیں براہ راست اپنے پسندیدہ ''مجاہدوں‘‘ میں تقسیم کریں اور باقی صندوق جنرل اختر عبدالرحمن اپنے پاس رکھ لیتے۔ آج یہ کہانی افسانہ معلوم ہوتی ہے‘ لیکن یہ ہماری تاریخ کے تلخ حقائق ہیں۔ یہی جنرل ضیا الحق تھا‘ جس نے نئی سیاسی قیادت تیار کی۔ پہلے ''مجلس شوریٰ‘‘ کے نام سے نامزد لوگوں پر مشتمل ایک پارلیمنٹ کی طرز کا ڈرامہ تیا رکیا اور اس میں بیوروکریسی کے پیش کردہ پٹھوئوں کو'' مجلس شوریٰ ‘‘کا رکن بنا دیا اور آگے چل کر انہی کو پارلیمنٹ میں بدل دیا۔ یہ تھی وہ پارلیمنٹ‘ جس کے بطن سے ہماری نئی سیاسی قیادت پیدا ہوئی۔آج کے سیاستدانوں کی اکثریت‘ ضیا الحق کی لگائی ہوئی اسی فصل کا تسلسل ہے۔ضیا الحق کے فوجی ٹولے نے لوٹ مار کی ابتدا ڈالروں سے کی۔اس کی بنائی ہوئی جعلی پارلیمنٹ میں اتنا دم ہی نہیں تھا کہ وہ فوجی حکمرانوں سے حساب طلب کرتی لیکن ساتھ ہی اس نے اپنے لئے ہی وہی سہولیات حاصل کر لیں‘ جن سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اندھا دھند دولت سمیٹنے لگے۔
یہ جو پاناما لیکس کی کہانیاں منظر عام پر آئی ہیں‘ مختلف ملکوں کے تاجروں‘ اقتدار کے کھلاڑیوں اور حکمرانوں کی وہ دولت ہے‘ جسے اندرون ملک رکھنا مشکل ہو گیا اور یہ ناجائز دولت چھلک کر‘ ملکی سرحدوں سے باہر جا نکلی اور اب دنیا بھر کے بنکوں میں بکھری پڑی ہے۔ آج کے بیشتر سیاست دان ‘ایک دوسرے پر الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے لوٹ مار کر کے‘ اپنی دولت بیرون ملک محفوظ کی۔ حقیقت میں سب کے سب سچے ہیں۔بیشتر کو اقتدار میں آنے کا موقع ملا۔ اگر ان میں سے کوئی بھی چاہتا تو ملکی وسائل کی لوٹ مار کر کے‘ ناجائز دولت جمع کرنے والوں سے حساب لے سکتا تھا اوران کی ناجائز دولت برآمد کر کے‘ قومی خزانے میں لا کر‘ انہیں سزائیں دے سکتا تھا لیکن کسی کو ایسا کرنے کی جرأت نہیں ہوئی؟ کیونکہ کوئی چور دوسرے چور کو‘ نہیں پکڑتا۔انتقال اقتدار کا خوف‘ ان کے سروں پر منڈلا رہا ہے۔ ماضی میں فوجی جرنیل اقتدار پر قبضہ کر کے‘ انہیں انتقال اقتدار کے خطرے سے بچالیتے تھے۔ سار اسیاسی میٹریل‘ فوج کے زیر سایہ چلا جاتا تھا اور ان کی خوشامد کر کے‘ لوٹ مار کی سہولتیں حاصل کر لیتا ۔
آج جتنے لوگ بھی سیاست دانوں کے روپ میں‘ ایک دوسرے سے برسرپیکار نظر آرہے ہیں‘ ان میں کوئی بھی عوامی خدمت کا ریکارڈ نہیں رکھتا۔ کہیں کہیں کوئی چودھری اعتزاز احسن جیسا سیاست دان نظر آتا ہے تو یہ‘ حکمران کلب کا قابل اعتماد رکن نہیں ہوتا ۔اعتزازاحسن‘ اسحق خاکوانی اور انہی جیسے چند دوسرے لوگ اقتدار کے کھیل میں شریک ضرور ہوئے لیکن کرپشن کے دریا میں اپنا دامن بھیگنے نہیں ہونے دیا۔ اوراگر کچھ ان کے حصے میں آیا تو وہ دُردِ تہِ جام تھی۔کرپشن کا سلسلہ اتنا دراز ہو چکا ہے کہ اب کوئی واقعی ایماندار ہو‘ تب بھی اس پر یقین نہیںآ تا۔ عام آدمی یہ سمجھنے پر مجبور ہے کہ جو حکمرانوں کے اس ٹولے میں شامل ہے‘ وہ ایماندار کیسے ہو سکتا ہے؟ پاکستانی عوام ہمارے حکمران ٹولے کے یرغمالی ہیں۔انہیں جو حکم دیا جاتا ہے‘ وہ اس کی تعمیل پر مجبور ہیں۔ اس کی مثال وزیرخزانہ‘ منشی اسحق ڈار کی طرف سے ٹیکسوں کے نام پر‘ تھوڑے تھوڑے دنوں کے بعد وصول کئے جانے والے تاوان کی قسمیں ہیں‘ جو وہ مجبوراً ادا کرتے ہیں۔حکمرانوں کے اس ٹولے کو ہم کس طرح جائز حکومت تسلیم کریں؟ جب یہ کسی بھی اصول اور ضابطے کے تحت‘ عوام کی جیبیں خالی کرتے ہوں اور جب حد سے زیادہ سمیٹی ہوئی دولت‘ پاکستان کے اندر رکھنا مشکل ہو جائے تو بیرونی بنکوں میں جمع کراتے ہوں اوراب تو آپ نے دیکھ لیا ہو گا کہ بیرون ملک رکھی ہوئی دولت‘ کیسے چھلک چھلک کر سامنے آرہی ہے؟ اور سامنے آئی ہوئی اس دولت پر پردے ڈالنے کے لئے‘ کیسے کیسے بہانے تلاش کئے جا رہے ہیں؟
اور اب تو حد یہ ہے کہ پاکستانی عوام کی رہی سہی پونجی لوٹنے والے نام نہاد سیاست دان‘ بے خوفی سے ایک دوسرے کی چھپی ہوئی دولت کی برملا نشاندہی کر کے‘مطالبے کرتے نظر آتے ہیں کہ'' تم اپنی لوٹی ہوئی دولت کا اعتراف کرو‘‘ اور دوسری طرف سے جواب آتا ہے کہ ''تم اپنی لوٹی ہوئی دولت کے بارے میں بتائو‘‘ لیکن یہ ساری طعن و تشنیع‘ محض کھیل کو جاری رکھنے کے لئے کی جاتی ہے۔ کوئی یہ نہیں چاہتا کہ حریف کی لوٹی ہوئی دولت کا راز سب کے سامنے کھلے؟۔ یہ محض طعنہ زنی کا کھیل ہے۔ جس سے عوام اب بور ہونے لگے ہیں۔عوام کو اچھی طرح معلوم ہے کہ کوئی بلاول‘ کسی زرداری کے جمع کردہ خزانوں کا راز نہیں کھولے گا، کوئی چودھری نثار‘ اپنے کسی رہنما کی بے بہا دولت کا پتہ نہیں بتائے گا؟ دونوں طرف کے لٹیرے ‘اپنی اپنی جگہ محفوظ رہیں گے۔ہمارے سادہ لوح عوام کو نہ پہلے کبھی پتہ چلا ہے کہ انہیں کس طرح لوٹا جاتا ہے؟ اور نہ آئندہ چلے گا۔ سب سے معصوم اور بھولا ہمارا محنت کش طبقہ ہے جو کسانوں اور مزدوروں پر مشتمل ہے۔ اگر کسی کو بیس سال پہلے کے مزدور اور کسان کا معیار زندگی یاد ہو تو وہ بتا سکتا ہے کہ اس وقت کا مزدور اور کسان‘ دو وقت کی روٹی کھا سکتا تھا۔ اور تو اور بچو ں کے لئے کپڑے خرید سکتا تھا۔ اسے رہنے کا ٹھکانہ بھی مل جاتا تھا۔آج یہ چیزیں ان طبقوں کے لئے خواب و خیال ہو کر رہ گئی ہیں۔ آج کسی کسان کے اہل خاندان کو دو وقت کی روٹی نصیب نہیں ہوتی۔ یہی حال مزدور کا ہے۔ جو متوسط طبقہ پہلے کار کی سواری کر لیتا تھا‘ اب وہ موٹرسائیکل پر آگیا ہے اور جس کے پاس موٹر سائیکل تھی‘ اب وہ سائیکل چلانے پر مجبور ہے۔ حکمران محدود پیمانے پرآرام دہ بسیں چلا رہے ہیں تاکہ موٹرسائیکل اور سائیکل سواری کی تکلیف تھوڑی دیر کے لئے بھلائی جا سکے۔ یہ آرام دہ بسیں ایک سسٹم کے ذریعے چھینی گئی کاروں کی جگہ نہیں لے سکتیں۔ بجلی‘ گیس اور روٹی کو ترسنے والے یہ عوام‘ جوچند سال پہلے اپنی کار کے مالک تھے‘ آج وہ بسوں میں کھائے ہوئے دھکے تھوڑی دیر کے لئے فراموش کرنے کو‘ آرام دہ بسوں میں بیٹھنے کا ذائقہ چکھ لیتے ہیں۔ بیس کروڑ یرغمالیوں کو‘چند لٹیروں کی قید سے کب اور کیسے رہائی ملے گی؟ اس کی امید دور دور تک نظر نہیں آتی۔لٹیرے حکمران‘ بے فکری سے اپنے کام میں مصروف ہیں۔یہی وقت ہے کہ ان پاپیوں سے نجات کے لئے‘ ان کا جال کاٹ دیا جائے اور فی الحال اس کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ہر حلقے کے مظلوم عوام جمع ہو کر ‘ایسے آزمودہ عوام دوستوں کو امیدوار بنائیں ‘جو اس سے پہلے کبھی الیکشن نہ لڑے ہوں۔ بے شک یہ لوگ حکمرانی کے طور طریقوں سے نا واقف ہوں گے لیکن اپنی غلطیوں سے خود ہی سیکھ لیں گے۔اگر پرانے پاپی ہی مسلط رہے تو عوام کی رگوںسے مزید خون نکالا جاتا رہے گا اور ایک وقت آئے گا ‘جب بیس کروڑ عوام کی قوم کو غلامی کا طوق پہنا کر‘ بیرونی خریداروں کی قید میں دھکیل دیا جائے گا۔ لٹیرے بیرونی دنیا میں اپنے جمع کئے ہوئے خزانوں پر بیٹھ کر‘ عیش کریں گے۔یہ محض اندیشہ ہائے دور دراز نہیں۔ دنیا میں بے شمار قومیں ایسی ہیں ‘جن کے حکمران انہیںبے رحمی سے لوٹ کر فرار ہو گئے۔