وزیراعظم نوازشریف بیماری ٔدل میں مبتلا ہو کر48 دن بیرون ملک کیا گئے؟ پاکستان کا ماحول اور مزاج ہی بدل گیا۔ اسی دوران درویش صفت عبدالستار ایدھی‘ اپنی عبادت جیسی زندگی پوری کر کے‘ اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ رخصت کیا ہوئے؟ دنیا ہی بدل گئے۔ پاکستان کا ہر صاحب فکر انسان یہ سوچنے پر مجبور ہو گیاکہ کیا زندگی وہی ہے جو ہم گزار رہے ہیں؟ زندگی تو ایدھی نے گزاری۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ شہبازشریف کی بیوی تہمینہ درانی نے ‘درد میں ڈوب کر کہا کہ ''میں تو ایدھی صاحب کی تقلید میں بھیک کی زندگی گزاروں گی۔ یہ میرا پختہ فیصلہ ہے۔ اس پر عملدرآمد میں البتہ چند روز لگ جائیں گے۔ مگر جو روشنی مجھے ایدھی صاحب کی زندگی میں نظر آئی‘ اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔‘‘ ایک تبدیلی تو شہبازشریف میں بھی نظر آنے لگی کہ وہ کافی دنوں سے کھدر کی بوشرٹ پہن رہے ہیں۔ مگر اس میں نزاکت اور نفاست وہی رہتی‘ جو کسی امیرترین شخص کے مزاج سے مطابقت رکھتی ہو۔
ملیشیا کی شلوار قمیض اور ایک سادہ سے چپل میں‘ پوری زندگی گزار جانے والے ایدھی صاحب‘ اتنے غریب بھی نہیں تھے۔ انہوں نے ضرورت مندوں‘ غریبوں‘ بے سہاروں‘ بیوائوں اور گھر سے نکالی گئی عورتوں کے لئے ‘ایک ملک گیر انتظام کر رکھا تھا‘ جس کی توفیق بڑے بڑے ملکوں کی بڑی بڑی حکومتوں کو نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر جن ملکوں میں فلاحی معاشرے پائے جاتے ہیں‘ ان میں بھی ایسے انتظامات نہیں ‘ جو ایدھی صاحب نے کر رکھے تھے۔ مثلاً پاکستان میں نومولود بچوں کو عموماًکوڑے کے ڈھیر یا ڈرم میں پھینک دیا جاتا ہے اور بسا اوقات ان معصوم بچوں کو کتے اور بلیاں دانت مار دیا کرتے تھے۔ ان معصوموں کو‘ جانوروں کے وحشیانہ سلوک سے بچانے کے لئے‘ ایدھی صاحب نے ایسے مقامات پر جہاں عموماً لوگ اپنے بچوں کو پھینکتے‘ اس لئے جھولے لگوا دیئے کہ پیدائش کا راز‘ دنیا سے چھپانے والی کنواری یا شادی شدہ ماں اپنے ناجائز یا میاں بیوی کو نامطلوب بچے کو جھولے میں رکھ جائیں تاکہ ان کے نرم و نازک جسموں کو کتے اور بلیاں نوچ نہ سکیں۔ تھر سے جب موروں کے مرنے کی خبریں آئیں‘ تو ایدھی صاحب اپنا سازوسامان
لے کر تھرپارکر جا پہنچے۔ اس پر ان کی مثالی جیون ساتھی بلقیس ایدھی نے کہا ''کمزوری کی وجہ سے اپنی ٹانگوں پر تو کھڑے نہیں ہو سکتے۔ لیکن موروں کو بچانے چل دیئے۔‘‘ وہ اللہ کی بنائی ہوئی ہر مخلوق کو اسی کی امانت سمجھا کرتے تھے۔ ہمیشہ کوشش کرتے کہ کوئی کیڑا مکوڑا‘ ان کے پیر کے نیچے نہ آئے۔ وہ ضرورت مندوں کی مدد کے لئے مندروں میں بھی جا پہنچتے۔ گوردواروں میں بھی۔ جب اسرائیل نے لبنان پر وحشیانہ بمباری کی‘ تو ایدھی صاحب وہاں بھی جا پہنچے اور زخمیوں کی جو امداد ممکن تھی وہ کرتے رہے۔ عجیب بات تھی کہ وہ خالی ہاتھ بھی جاتے‘ تو لوگ انہیں ضرورت مندوں کی مدد کا وافر سامان مہیا کر دیتے۔ زخمیوں‘ بیماروں‘ اپاہجوں اور غرض
مندوں کی مدد کرتے وقت وہ کبھی یہ نہیں دیکھتے تھے کہ جسے وہ اپنی پناہ میں لے رہے ہیں‘ وہ ہندو ہے‘ سکھ ہے‘ مسلمان ہے‘ عیسائی ہے یا بدھ مت سے تعلق رکھتا ہے۔ خدا کی جو مخلوق بھی ایدھی صاحب کو ضرورت مند نظر آئی‘ انہوں نے آگے بڑھ کر اسے سینے سے لگا لیا۔ ایک بار ایدھی صاحب کو ایک بے بس کی مدد کا دلچسپ تجربہ ہوا۔ انہی کی عمر کی ایک خاتون‘ ان کے ساتھ کام کرتی تھی۔ ایدھی صاحب نے سہارا دینے کے لئے‘ اس کے ساتھ شادی کا ارادہ ظاہر کیا۔ وہ بھی تیار ہو گئی۔ مگر جب اسے قریب سے دیکھنے کا موقع ملاکہ یہ بڑے بڑے امداد گھر چلانے والا خود بھیک مانگتا ہے‘ تو اس عورت نے یہ کہہ کر شادی سے انکار کر دیا''یہ تو فقیر ہے۔ میں اس سے شادی نہیں کروں گی۔‘‘ ایدھی صاحب کا کام اتنا مشکل اور صبر آزما تھا کہ ہر کوئی ان کا ساتھ نہیں دے سکتا تھا۔ وہ سڑکوں اور گندگی کے ڈھیروں سے مردہ بچے اٹھا لیا کرتے اور ان کی آخری رسومات ادا کر کے‘ انہیں دفنا دیتے۔یہ پروا انہوں نے کبھی نہیں کی کہ اس بچے کا مذہب کیا ہے اور ذات پات کیا؟ اس بات پر مولویوں نے خوب شور مچایا اور کہا کہ ایدھی صاحب ناجائز تعلقات کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ انہوں نے کئی فتوے بھی جاری کئے۔ لیکن ایدھی صاحب نے کبھی اس کی پروا نہیں کی۔ شادی سے انکار ہونے کے باوجود ایک غریب عورت کا رشتہ مانگا گیا‘ تو گھر والے رضامند ہو گئے۔ اس پر بلقیس نے تبصرہ کیا ''دو فقیر مل گئے‘ تو خدا نے بادشاہ بنا دیا۔‘‘ ایدھی صاحب کی بیگم نے بتایا کہ'' جب وہ ناراض ہوتے تھے‘ تو کھانا نہیں کھاتے تھے۔ بڑے ضدی تھے۔ مشکل سے انہیں منایا کرتی۔ والدہ نے نصیحت کی یا تو کسی کی بن جائو یا کسی کو اپنا لو۔ یہ بندہ بننے والا شخص تو تھا نہیں۔ میں نے اسی طرح اپنا لیا ۔ایدھی صاحب اپنے فلاحی کاموں کی وجہ سے ''ایدھی گھر‘‘ کو بہت کم وقت دیتے تھے۔ ایک مرتبہ وہ اندرون سندھ لاش چھوڑنے گئے۔ ہم بھی ایمبولینس میں سوار ہو گئے۔ لاش چھوڑنے کے بعد ایک جگہ رکے‘ جہاں نہر تھی۔ وہاں لوگوں نے کھانا کھایا اور ہم نے پکنک منائی۔پاکستان میں زلزلوں‘ سیلابوں اور بم دھماکوں میں ایدھی فائونڈیشن ‘متاثرین کی مدد میں ہمیشہ آگے آگے رہی۔جب بھی ایمرجنسی ہوتی‘ تو یوں لگتا کہ یہ 20سال کے ہو گئے ہیں۔ اتنی توانائی آ جاتی تھی ان میں۔ ‘‘ بلقیس ایدھی نے بتایا کہ ''اگر کوئی ملازم غلطی کرتا ہوا پکڑا جاتا‘ تو ایدھی اسے معاف کر دیتے۔ لیکن پولیس کے حوالے نہیں کرتے تھے۔‘‘ ایدھی کے میٹھادروالے دفتر میں بڑی میز پر شیشے کے نیچے ‘ایک ہزار ‘ پانچ سو اور سو کے کئی نوٹ موجود تھے۔ ایدھی صاحب سے جب اس کی وجہ جاننا چاہی تو انہوں نے بتایا کہ یہ جعلی نوٹ ہیں۔ اس سوال پر کہ کیا لوگ آپ کو جعلی نوٹ دیتے ہیں؟ ان کا کہنا تھا کہ نہیں؟ ملازم ان نوٹوں کو تبدیل کر لیتے ہیں۔ایم اے جناح روڈ سے روزانہ ایدھی کی ایمبولینس گزرتی ہے۔ جس میں کسی نہ کسی شخص کا قریبی رشتہ دار‘ زخمی ‘ بیمار یا مردہ حالت میں ہوتا ہے۔ گزشتہ شب ایمبولینسوں کے قافلے میں ایک بزرگ کی لاش سرد خانے منتقل کی جا رہی تھی‘ جو صرف چند لوگوں کا نہیں‘ پورے شہر کا رشتہ دار تھا۔ یقینا یہ احساس یتیمی صرف فیصل کے لئے نہیں بلکہ کراچی شہر کی دو کروڑ آبادی بھی یتیم ہو گئی تھی۔
شاید آپ لوگ سوچ رہے ہوں کہ میں عبدالستار ایدھی فوبیا میں مبتلا ہو گیا ہوں۔ لیکن ایک میں ہی نہیںسارا پاکستان ایدھی فوبیا میں مبتلا ہے۔ صرف فوبیاکی شکلیں الگ الگ ہیں۔ کیایہ فوبیانہیں تھا کہ ہر شہر اور ہر گائوں میں ایدھی کی نماز جنازہ پڑھی جا رہی تھی؟پاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف‘ ان کی نمازجنازہ میں شرکت کے لئے بطور خاص کراچی گئے۔ سندھ کے گورنر نمازجنازہ میں شریک ہوئے۔ حاضرین کی تعداد اتنی بڑی تھی کہ قائد اعظمؒ کے بعد اس کی مثال نہیں ملتی تھی۔ جبکہ ایدھی کی خدمت کا شعبہ بالکل مختلف تھا۔ وہ نہ کوئی قوم بنا رہا تھا اور نہ کوئی ملک۔ انسانی خدمت کے لئے اس نے سرحدیں نہیں بنائی تھیں۔ ہوائوں‘ خوشبوئوں اور خوابوں کی طرح ایدھی کی بھی کوئی سرحد نہیں تھی۔شاید آپ کو یقین نہ آئے لیکن مجھے یوں لگ رہا ہے ‘ جیسے پاکستان کی ساری سیاسی قیادت کسی نہ کسی طرح ایدھی کے زیراثر آ گئی ہو۔ کیا آپ یہ محسوس نہیں کرتے کہ مذاکرات کا سلسلہ توڑ کر بیٹھے ہوئے سیاستدان‘ اب بلاحیل و حجت ازسرنو مذاکرات پر تیار ہو گئے ہیں۔ مجھے تو یہ بھی امید ہے کہ اس بار مذاکرات میں دونوں فریق کسی طرح کی لچک اور نرم روی دکھائیں گے۔ اگر ایسا ہے‘ تو یہ ایدھی کا اثر ہے۔اگر آپ شام کو میڈیا کے مباحثے ملاحظہ فرمائیں‘ تو آپ محسوس کریں گے کہ ہر شخص کی گفتگو میں ایدھی کا اثر موجود ہے۔مجھے ایک چیز کا دکھ ہوا کہ میڈیا والوں نے گھیر کے‘ فیصل ایدھی کو ٹاک شو میں لا بٹھایا۔اگر یہ لوگ فیصل کو سیاست میں دھکادینے کا گناہ کر بیٹھے‘ توقدرت انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔پاکستانی معاشرے پر یہ قرض ہے کہ جس ایدھی کو پاکستانی قوم نے رخصت کیا ‘ بیٹے کی شکل میں وہی ہمارے درمیان موجود رہے۔اگر تماشہ دیکھنے والوں نے فیصل کے اندر سے ایدھی کو نکال دیا‘ تو فیصل کو بہت کچھ مل جائے گا۔ پاکستان کے 20 کروڑ عوام‘ اپنے ایدھی سے محروم ہو جائیں گے۔