عید کی چھٹیاں ختم ہوتے ہی ملک کے 13بڑے شہروں میں ‘ مختلف چوراہوں اور بڑی سڑکوں پر چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کی تصویروں کے ساتھ بڑے بڑے پوسٹر اچانک نمودار ہوئے اور سیاسی قیاس آرائیوں کا موضوع بن گئے۔ پاکستان میں یہ کوئی نیا واقعہ نہیں۔ فوج کا اقتدار یہاں اکثر موضوع بحث رہتا ہے۔ خصوصاً اس وقت جب کوئی سول یا فوجی حکومت کمزور ہو رہی ہو۔ گزشتہ چند ہفتوں سے وزیراعظم نوازشریف کی حکومت ڈگمگاتی دکھائی دینے لگی ہے۔ وہ گزشتہ 50 دنوں سے امور مملکت میں براہ راست کردار ادا کرتے نظر نہیں آ رہے۔ جتنی خبریں بھی ان کے بارے میں سامنے آتی ہیں‘ ان سب کا تعلق موصوف کی صحت سے ہوتا ہے۔ کبھی خبر آتی ہے کہ وہ طبی معائنے کے لئے برطانیہ چلے گئے اور پھر وطن واپسی کی خبر آتی ہے۔ اس کے بعد ہمیں بتایا جاتا ہے کہ وہ طبی معائنے کے لئے پھر برطانیہ جا رہے ہیں۔ اگلی بار پتہ چلتا ہے کہ ان کے دل کی حالت اچھی نہیں اور خبر آتی ہے کہ ان کے دل کا آپریشن کیا جائے گا۔ کئی روز تک دل کی حالت کے بارے میں مختلف خبریں سامنے آتی ہیں اور پھر اچانک پتہ چلتا ہے کہ وزیراعظم کا اوپن ہارٹ آپریشن کیا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے کئی خبریں دیکھنے کو ملیں اور پھر خبر آتی ہے کہ وزیراعظم کے دل کا کامیاب آپریشن ہو گیا اور وہ صحت مند ہو رہے ہیں۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ شہبازشریف ہنگامی طور پر لندن جاتے ہیں اور وہاں اپنے برادر بزرگ کی حالت دیکھنے کے بعد میڈیا کو بتاتے ہیں کہ وزیراعظم کا صرف ایک نہیں چار آپریشن ہوئے اور سارے کے سارے کامیاب ہوئے۔ وہ تیزی کے ساتھ صحت یاب ہو رہے ہیں۔ بہت جلد اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیں گے۔ شہبازشریف کا بیان درست نکلا۔ وزیراعظم واپس پاکستان آ چکے ہیں۔
جیسے ہی وزیراعظم کی صحت مکمل بحالی کی طرف بڑھتی نظر آنا شروع ہوئی‘ اچانک وہ بینرز منظرعام پر آ گئے‘ جن پر چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف سے درخواست کی گئی ہے کہ''خدا کے لئے اب آ جائو!‘‘ یا ''جانے کی باتیں پرانی ہو گئی ہیں‘ خدا کے لئے اب آ جائو!‘‘ یہ بینرز بڑے ہی بھدے ڈیزائن کے ساتھ لگائے گئے اور ان پر درج عبارتیں بھی کسی اناڑی اور سیاسی نابالغ کی کارکردگی دکھائی دیتی ہیں۔ بی بی سی کو تلاش کرنے پر پتہ چلا کہ بینرز لگوانے والے فیصل آباد کے کاروباری شخص میاں محمد کامران ہیں۔ وہ ایس نامی پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی کے مالک ہیں‘ جو تعمیراتی کام کرنے کے علاوہ سکول‘ کالج اور اخبار چلاتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ مارشل لا کے حق میں نہیں۔ اس کے برعکس وہ جنرل راحیل شریف کی نگرانی میں ایک ٹیکنوکریٹ حکومت بنوانے کے خواہش مند ہیں اور چاہتے ہیں کہ انہی کی نگرانی میں جمہوری عمل آگے بڑھے اور پھر دیکھنے میں آیا کہ ملک کے نامورکالم نگاروں نے اناڑی پن کے اس شاہکار بینر کو موضوع تحریر بنایا۔ فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر نے اس کی باضابطہ تردید جاری کرتے ہوئے واضح طور سے اعلان کر دیا کہ افواج پاکستان یا ان کے کسی ادارے کی طرف سے یہ بینر جاری نہیں ہوا۔ لیکن ایک خبر جو ٹی وی پر آ گئی تھی اور میڈیا میں زبردست موضوع بحث بنی‘ وہ سب سے پہلے ایک چینل کے پروگرام ''دی رپورٹرز‘‘ میں دکھائی گئی اور بعد میں اس کا کہیں تذکرہ نظر نہیں آیا۔ یہ چیز مذکورہ بینروںسے لدی ہوئی ایک پک اپ تھی‘ جو کسی گیراج میں کھڑی تھی۔ اینکر نے صرف یہ کہہ کر اسے دکھایا کہ ''مجھے ابھی ابھی ایک تصویر موصول ہوئی ہے۔ آپ ملاحظہ فرمایئے!‘‘ اس کے بعد نہ یہ تصویر دوبارہ دکھائی گئی اور نہ ہی اس کا ذکر ہوا۔ کوئی بھی واقف حال آسانی سے کہہ سکتا ہے کہ ان بینرز کی ہینڈلنگ کس ادارے کے زیرنگرانی ہو رہی ہے؟ ایک بات واضح ہے کہ اس کام کی ذمہ داری کسی اناڑی کے حوالے کی گئی۔ اس نے فیصل آباد جا کر کسی اناڑی کی ذمہ داری لگائی۔ لیکن ایک پک اپ میں لدے ہوئے بینرز کی تصویر نے راز کھول کے رکھ دیا۔ جس چینل نے یہ تصویر دکھائی‘ وہ راز کو ہضم کر گیا۔ مگر تاڑنے والے بھی قیامت کی نظر رکھتے ہیں۔
تیزطرار سیاستدان چوہدری اعتزاز احسن نے پورے اعتماد سے کہہ دیا کہ یہ بینرز حکومت کے لگوائے ہوئے ہیں تاکہ اس کا الزام اپوزیشن پر لگایا جائے۔ چوہدری صاحب کے بیان میں ایک منطق تھی۔ بظاہر بینرز میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ انہیں پاک فوج کے کسی ادارے نے چھپوایا ہے۔ یوں بھی کافی دنوں سے سرکاری کارندے مختلف حیلے بہانوں سے یہ ثابت کرنے میں لگے تھے کہ چیف آف آرمی سٹاف اور وزیراعظم کے درمیان ایک درپردہ کشمکش ہو رہی ہے۔ اس کے دونوں ذمہ دار کھل کر سامنے نہیں آ رہے۔ وزیراعظم کی خوش نصیبی ہے کہ وہ اس طرح کے معرکوں میں عموماً کامیاب ہوئے ہیں۔ صرف ایک مرتبہ جنرل مشرف سے پالا پڑا تھا اور وہ واردات کرنے میں کامیاب رہے۔ ان کے سوا شاید ہی کوئی پاور گیم میں نوازشریف کو شکست دے سکا ہو۔ ان دنوں میڈیا پر میاں محمد نوازشریف پوری طرح چھائے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان بے تکے بینرز کے پیچھے چھپا ہوا ہاتھ طلعت حسین نے دیکھ کر بتایا ''اس کے پیچھے صاف صاف اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ نظر آ رہا ہے۔‘‘ جبکہ ایاز امیر لکھتے ہیں ''اس مہم کے پیچھے فوج یا اسٹیبلشمنٹ کو ذمہ دار ٹھہرانا محض قیاس آرائی ہے۔ ہم سب قیاس کر رہے ہیں۔ لیکن حتمی بات ہمیں نہیں معلوم کہ فوج کے ذہن میں کیا ہے؟ فوج کی پالیسیاں چل رہی ہیں۔ وہ اپنی باتیں منوا رہے ہیں‘ تو ان کو دبائو ڈالنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ بیشتر تجزیہ نگاروں کی رائے میں یہ پٹاخہ ٹھس ہو گیا۔ ایازامیر کہتے ہیں کہ ''دھرنا وزیراعظم کو اقتدار سے نہیں ہٹا سکتا ۔ کیونکہ اس کا فیصلہ سیاسی جماعتوں کے ہاتھ میں نہیں ہے۔‘‘ شاید ایاز امیر کی نظر میں فیصلہ کن اقدام کرنے والے سیاستدان عمران خان ہیں یا طاہر القادری۔ اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا!
ایک پٹاخہ امریکی کانگریس کی ایک کمیٹی اور کانگریس کے کچھ اراکین کافی دنوں سے پاکستان کے خلاف چلانے کی کوشش کر رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ امریکہ ہماری امداد بند کر دے۔ لیکن اس سلسلے کی آخری کوشش بھی بظاہر ناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ اس سلسلے کا آخری پٹاخہ چلانے کے لئے جان مکین آئے تھے۔ مگر جو پٹاخہ وہ چلا رہے ہیں‘ آخر کار وہی کارآمد ہو سکتا ہے۔ ماضی میں بھی اسی لابی کے پٹاخے کامیاب ہوتے رہے ہیں۔