"NNC" (space) message & send to 7575

منشی نہیں‘ وزیراعظم

''پاکستان کے مہمان وزیر اعظم‘‘ کے زیر عنوان عنبر خیری نے بی بی سی اردو ڈاٹ کام میں ایک ''غیر دلچسپ‘‘ مضمون لکھا ہے (معذرت کے ساتھ)۔ مشکل یہ ہے کہ جس کے بارے میں لکھا گیا‘ وہ شخصیت بھی اتنی ہی غیر دلچسپ ہے۔ اس شخصیت کا تعلق حساب کتاب سے ہے۔ ظاہر ہے‘ اسے غیر دلچسپ ہی ہونا تھا‘ ان کا شعبہ چونکہ حساب کتاب کا ہے۔ مضمون نگار دلچسپی کہاں سے پیدا کرتے؟ کوئی ہمارے وزیر خزانہ جناب اسحق ڈار سے ان کے ہنسنے کی وجہ پوچھے‘ تو وہ کیا بتائیں؟ کیسے بتائیں؟ اور کیوں بتائیں؟ ان سے آج تک کسی نے وزیر خزانہ بننے کی وجہ پوچھی؟ اتنے عرصے تک وزیر خزانہ رہنے کا سبب پوچھا؟ اتنے ٹیکس لگانے کا جواز معلوم کیا؟ وہ کسی کو کچھ نہیں بتاتے۔ ان کے پاس بتانے کو ہے بھی کچھ نہیں۔ تعلیمی پس منظر کے اعتبار سے‘ ان کا کام دو سے دو‘ چار کرنا ہے۔ مگر یہی کام وہ نہیں کرتے۔ دو سے دو‘ بیس ملین کرتے ہیں۔ پچاس ملین کرتے ہیں اور دبئی جائیں‘ تو ملین کی جگہ بلین پڑھیے۔ وہاں ان کے بچوں کا کاروبار ہے۔ اسحق ڈار کے بچے‘ ملین کی جگہ بلین نہ بنائیں‘ تو سمدھیانا کس کام کا؟ ان کے دونوں برادران نسبتی نے پنگھوڑے میں ہی تجارت شروع کر دی تھی۔ دونوں برادران نسبتی کو پیدا ہونے پر‘ دادا جان نے بڑی بڑی ملیں ''منہ دکھائی‘‘ میں دی تھیں۔ سمدھیانے کے رشتہ دار بچوں نے تو الحمدللہ‘ گنتی ہی پونڈز میں سیکھی۔ یہ بچے اور بچوں کے بچے۔ سچی بات ہے‘ دولت اور اولاد کی فراوانی حیران کن ہوتی ہے۔ مثلاً سمدھیانے کے بچوں کے عظیم دادا نے لوہے کے کاروبار میں سے گنے کی ملیں کھڑی کیں۔ عظیم والد محترم نے لندن میں جائیدادیں بنائیں اور بچوں نے پاناما کی آف شور کمپنیاں خریدیں۔ ایک پوتے نے تو دادا کے گھر میں بیٹھے‘ مہمان کی طرف انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے کہا ''دادا جان! مجھے تو یہ چاہئیں‘‘۔ بچے کے دادا جان‘ جو کہ ہمارے وزیر اعظم ہیں‘ بہت ہی بامروت اور انسان دوست شخصیت ہیں‘ انہوں نے پوتے کو گھور کر دیکھتے ہوئے کہا ''آپ کے ان انکل کو خریدا نہیں جا سکتا‘‘۔ 
''کیوں؟‘‘
''بیٹے! نظریاتی لوگ خریدنے کی چیز نہیں ہوتے‘‘۔
''تو پھر آپ نے کیسے خریدا؟‘‘
''تمہیں کس نے بتایا کہ میں نے خریدا ہے؟‘‘
''تو پھر یہ آپ کو کیسے ملے؟‘‘
''میل ملاپ والے تحفے میں دے دیتے ہیں‘‘۔
''میرے تو ابھی میل ملاپ والے ہیں ہی نہیں‘ میں کیا کروں؟‘‘
''انتظار کرو‘‘
''میں کیوں انتظار کروں؟‘‘
''اس لئے گرینڈ سن! کہ تم ابھی چھوٹے ہو‘‘۔
''ابو نے جو بڑی بڑی چیزیں خریدی ہیں‘ کیا وہ چھوٹے چھوٹے بچے خرید سکتے ہیں؟ ابو نے جب بڑے بڑے گھر خریدے تھے تو کیا وہ اس وقت بڑے تھے؟‘‘
''نہیں‘ وہ اس وقت چھوٹے تھے‘‘۔
''میں بھی تو چھوٹا ہوں‘‘۔
''تم اور طرح کے چھوٹے ہو‘‘۔
''میں کیسے اور طرح کا چھوٹا ہوں؟‘‘
''تم اس لئے اور طرح کے چھوٹے ہو کہ تمہارے ابو وزیر اعظم کے بیٹے ہیں۔ جب تمہارے ابو‘ انڈیا کے وزیر اعظم بنیں گے تو تم اور طرح کے چھوٹے بن جائو گے۔ پھر تم جو چاہو خرید لینا‘‘۔
''آپ کو بھی؟‘‘
''شٹ اپ!‘‘
واپس شوکت عزیز کی طرف چلتے ہیں۔ ''وہ اس قابل نہیں کہ ان کا موازنہ ہمارے خاندان سے کیا جائے۔ وہ اس لائق نہیں‘‘۔
''تو پھر وہ کس لائق ہیں؟‘‘
''تمہیں پوچھنے کی کیا ضرورت ہے؟ اس طرح کی چیزیں میرے پوتے پڑپوتوں کے لائق نہیں۔ تم ذرا بڑے ہو جائو‘ تمہیں اچھے سے اچھا اسحق ڈار لے کر دوں گا‘‘۔ 
''کسی اور نے لے لیا تو؟‘‘
''بیٹے! عالمی بینک اور آئی ایم ایف سے کم تر‘ کوئی بندہ یا کمپنی‘ اسے افورڈ نہیں کر سکتے۔ تمہاری حیثیت انشاء اللہ ان دونوں سے بڑی ہو گی۔‘‘
عنبر خیری نے شوکت عزیز کی کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے ''یہ کہنا تو شاید ٹھیک ہو کہ اس وقت اصل اقتدار تو فوجی صدر جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں میں تھا لیکن پھر بھی‘ اس سوال کا جواب کتاب میں نہیں ہے۔ آخر اگر ایسا ہی تھا تو پھر شوکت عزیز ایک کٹھ پتلی وزیر اعظم بننے پر کیوں راضی ہوئے؟ وہ اپنے عہدے پر تعیناتی کے انتظامات کے بارے میں‘ بلاجھجھک اور بلاشرمندگی لکھتے ہیں کہ دو حلقوں سے انتخاب کا بندوبست کیا گیا۔ ایک حلقے کا بندوبست چوہدری شجاعت حسین نے کیا اور دوسرے حلقے یعنی تھرپار کا‘ ارباب غلام رحیم نے۔ یعنی دونوں حلقے ان کے لئے خالی کروا کر‘ وہاں سے انہیں منتخب کروایا گیا۔‘‘ یہ ہوتے ہیں ٹھاٹ منشیوں کے۔ دوسروں کو وزیر بننے کے لئے بھی وسیع و عریض حلقوں سے‘ لاکھوں ووٹروں کے ووٹ اکثریت میں لے کر منتخب ہونا پڑتا ہے جبکہ منشیوں کے وارے نیارے ہوتے ہیں۔ شوکت عزیز پہلے آئے تو سینیٹر بن کر پارلیمنٹ میں گھس گئے۔ وزیر اعظم بننے کو دل چاہا‘ تو منتخب ہو کر پہلے سے بیٹھے ہوئے دو اراکین قومی اسمبلی کو‘ ان کی نشستوں سے اٹھا کر‘ شوکت عزیز کے لئے جگہ بنائی گئی۔ گویا ایک ایک نہیں دو دو حلقے۔ مشرف کے منشی کے ٹھاٹ یہ تھے کہ اسے قومی اسمبلی میں لانے کے لئے‘ پہلے سے ایوان کے اندر بیٹھے دو نمائندوں کی چھٹی کرانا پڑی تاکہ ایک نشست سے شکست ہو جائے‘ تو دوسری سہی۔ مگر یہ دونوں نشستیں ایسی تھیں‘ جن پر بیٹھنے والے شاید ہی کبھی ہارے ہوں۔ تھرپارکر سے ارباب غلام رحیم ‘ اٹک سے چوہدری شجاعت کا کوئی سیاسی ساتھی۔ ذرا منشی کے ٹھاٹ دیکھئے کہ اس نے کبھی بلدیاتی الیکشن نہیں لڑا تھا اور اب اس کے لئے پہلے سے قومی اسمبلی کی نشستوں پر بیٹھے دو منتخب اراکین کی چھٹی کرائی گئی تاکہ منشی کو بٹھایا جائے۔ ان میں سے ایک نشست پر تو فائرنگ بھی ہو گئی۔ امریکی بینک میں افسری سنبھال کر بیٹھے ہوئے‘ منشی پر جب گولیاں چلیں‘ تب اس کے چہرے کا رنگ فق تھا اور سینے کے اندر دھک دھک۔ چوہدریوں نے دلاسہ اور گارنٹی دی کہ منشی دوبارہ حلقے کا رخ نہ کرے‘ اسے بیٹھے بٹھائے نشست مل جائے گی؛ چنانچہ وہی ہوا۔ مشرف نے چوہدری شجاعت حسین کو نئے وزیر اعظم کی حیثیت سے متعارف کراتے ہوئے کہا کہ ''چوہدری صاحب کچھ عرصے کے لئے عارضی طور پر وزیر اعظم ہوں گے اور ان کے بعد وزارت عظمیٰ کی کرسی شوکت عزیز سنبھالیں گے۔‘‘ چوہدری صاحب نے شرط رکھی کہ ''مجھے عبوری نہیں‘ وزیر اعظم لکھا جائے گا۔‘‘ ان کی بات مان لی گئی۔ ہماری قومی تاریخ میں چوہدری شجاعت حسین کا نام بھی‘ پاکستان کے وزیر اعظم کی حیثیت سے درج ہے۔ 
اب دیکھئے! منشی کیسے واردات کرتے ہیں؟ چوہدری شجاعت حسین‘ مشرف کی اسمبلی میں پارٹی لیڈر تھے اور منشی شوکت عزیز بطور وزیر خزانہ‘ پرویز مشرف کے بستہ بردار۔ مگر جیسے ہی بستہ ان کے ہاتھ میں آیا‘ شوکت عزیز کے تیور ہی بدل گئے۔ لطیفہ یہ ہوا کہ مستقل وزیر اعظم چوہدری شجاعت حسین عارضی بن گئے اور چند روز کے بعد وزارت عظمیٰ کی کرسی سنبھالنے والے شوکت عزیز مستقل وزیر اعظم بن گئے۔ میرا خیال ہے اب نئی کہانی کی ایک جھلک دیکھی جائے۔ پرانی کہانی میں پرویز مشرف کے منشی‘ ملک کے وزیر اعظم بنے تھے۔ اب کیا آثار ہیں؟ کیا میاں نواز شریف کا منشی‘ وزیر اعظم نہیں بن سکتا؟ اسحق ڈار نے سفر کی ابتدا تو وہیں سے کی ہے‘ جہاں سے شوکت عزیز نے کی تھی۔ اسحق ڈار میں کیا خامی ہے کہ وہ شوکت عزیز کے نقش قدم پر آگے بڑھتے ہوئے ترقی نہ کریں؟ اگر آپ کو دوران علالت‘ وزیر اعظم کی پاکستان میں غیرحاضری کے دن یاد ہوں‘ تو آپ نے وزیر اعظم نواز شریف کی کرسی پر بیٹھے اسحق ڈار کو کابینہ کے اجلاس کی صدارت کرتے دیکھا ہو گا۔ اس وقت ان کے چہرے کے تاثرات دیکھنے کے لائق تھے۔ اگر آپ دوبارہ ویڈیو چلا کر دیکھیں‘ تو وہ نواز شریف سے بھی کچھ زیادہ ہی وزیر اعظم لگ رہے تھے۔ ان دنوں میاں صاحب کی طبیعت پھر کچھ خراب ہے۔ ذرا سوچئے! اسحق ڈار کیا دعا مانگ رہے ہوں گے؟ میاں صاحب کی صحت یابی کی دعا؟ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں