"NNC" (space) message & send to 7575

کشمیر نہ بیچ آنا‘ پاناما کے بازار میں

ریاست جموں و کشمیر کے پاکستانی زیر کنٹرول حصے میں آج انتخابات کا دن تھا۔یہ ریاست کا وہ حصہ ہے‘ جسے کشمیری عوام نے ڈوگرہ فوج سے لڑ کے‘ بزورِ قوت خود آزاد کرایا تھا۔ آزاد کرائی ہوئی اس ریاست کے آزاد حصوں کے باشندوں نے اسے‘ پاکستان میں شامل کرنے کا فیصلہ دیا تھا لیکن حکومت پاکستان نے انہیں حق دیا کہ وہ آزادانہ رائے دہی کے ذریعے خود فیصلہ کریں کہ وہ پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں؟ یا آزاد علاقے کا نظم و نسق خود چلانے کے حق میں ہیں۔وہ انتہائی جذباتیت کا دور تھا اور اس وقت آزاد کشمیر کے لیڈر‘ سردار غلام عباس‘ سردار عبدالقیوم خان‘ سردار ابراہیم‘ اور دیگر کشمیری رہنما تھے۔ ان سب نے فیصلہ کیا کہ وہ آزاد کشمیر‘ جو انہوں نے اپنا خون دے کر حاصل کیا تھا‘ وہ اسے پاکستان کے اتحادی کی حیثیت میں قائم رکھنا چاہیں گے۔بھارت نے کشمیر پر فوج کشی کر کے‘ اپنی محکوم آبادی کو‘ ایک عرصے تک توسنگینوں کے زور پر کنٹرول میں رکھالیکن اقوام متحدہ کی چال بازیوں کی وجہ سے‘ اس جنت نظیر وادی کو بھارت کی ہٹ دھرمی نے جہنم میں بدل کے رکھ دیا۔ ہم نہیں جانتے تھے کہ بھارت کا سلامتی کونسل میں جانا ‘ایک عالمگیر سازش کا حصہ ہے۔ہم یہی سمجھتے رہے کہ سلامتی کونسل میں ہونے والا بحث و مباحثہ‘ نتیجہ خیز ہو گا۔ وہاں انصاف کرنے کا مسئلہ ہی درپیش نہیں تھا۔ میں اپنے طورپر یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوں کہ بھارت کا سلامتی کونسل میں جانا‘ پہلے سے طے شدہ ایک ڈرامے کا حصہ تھا۔ ورنہ بھارت کو ہرگز یہ ضرورت نہیں تھی کہ ریاست کے ایک بڑے حصے پر قابض ہو جانے کے بعد‘ وہ کسی بیرونی ادارے کو انصاف کی خاطر مدد کے لئے پکارتا۔
پاکستان کے اصول پسند اور دیانت دار لیڈر‘ چونکہ خود ایک صاف دل اور نیک نیت انسان تھے۔اس لئے وہ ہندو قیادت اور انگریز حکمرانوں کی باتوں کو سچ سمجھ کر تسلیم کرتے گئے۔ میں آج بھی اس رائے پر قائم ہوں کہ تقسیم کا جو فارمولا پاکستان کو پیش کیا گیا‘ وہ ہندو اور انگریز کے باہمی گٹھ جوڑ کا نتیجہ تھا۔تقسیم کا فارمولا تسلیم کئے جانے کے بعد بھی‘ پاکستان کے ساتھ بدنیتی جاری رہی۔ حیدر آباد دکن کا سوال ہو۔جونا گڑھ‘ مانا ودر اور کشمیر کے مسائل۔ اگر یہ سب تقسیم کے فارمولے کے تحت حل کئے جاتے تو کوئی جھگڑا ہی پیدا نہیں ہو سکتا تھا۔تقسیم کے فارمولے میں واضح طور سے درج تھا کہ ایسی تمام ریاستیں‘ جن کی حدود دونوں ملکوں میں آگئی تھیں‘ وہاں کی ہندو اور مسلم آبادی کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ آزادانہ حق رائے دہی کے ذریعے‘ اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کر لیں کہ وہ پاکستان میں شامل ہونا چاہتی ہیں یا بھارت میں؟۔ ریاست بہاولپور کا معاملہ خوش اسلوبی سے طے ہو گیا۔ وجہ یہ تھی کہ ریاست کے حکمران اور عوام کی اکثریت مسلمان تھی۔ اس لئے دونوں فریقوں کا یہ حق آسانی سے تسلیم کر لیا گیا۔ ریاست حیدر آباد میں تنازع پیدا ہوا کیونکہ وہاں کے مسلمان حکمران نے پاکستان میں شمولیت کا عندیہ دے دیا۔جبکہ ان کی ریاست میں ہندوئوں کی بھاری اکثریت تھی۔ بھارتی حکمرانوں نے اس ریاست کے حوالے سے چھیڑ چھاڑ کی لیکن پاکستان کی طرف سے‘ طے شدہ فارمولے کی خلاف ورزی نہیں کی گئی۔ یہاں تک کہ بھارت نے فوج کشی کر کے‘ اس پر قبضہ کر لیا۔در حقیقت اس قبضے کے ذریعے‘ بھارت اپنے ناجائز قبضے کا جواز پیدا کر رہا تھا۔
اگر بعد کے واقعات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کشمیر کے بڑے حصے پر‘ قابض ہو جانے کے باوجود‘ بھارت نے اقوام متحدہ میں جا کر‘جنگ بندی کی استدعا کیوں کی؟ اگر حکومت پاکستان باضابطہ فیصلہ کر لیتی کہ اسے کشمیر پر قبضہ کرنا ہے تو وہاں کی آبادی کی اکثریت پاکستان کے حق میں تھی اور ہندو راجہ کے فیصلے کی کوئی اہمیت نہ ہوتی۔ پاکستان نے پہلے سے کوئی فوجی منصوبہ تیار کر رکھا ہوتا تو پاک فوج کے چند افسر اور قبائلی جنگجو‘ سری نگر کے ہوائی اڈے کے قریب پہنچ گئے تھے۔تھوڑی ہی دیر میں وہ اس پر قبضہ کر کے‘ جہازوں کی آمدو رفت کو نا ممکن بنا دیتے‘ تو باقی ماندہ کشمیر پر قبضہ کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا۔ مقامی آبادی خود باہر نکل کرتمام راستوں پر قبضہ کر لیتی اور ریاست کے باشندے خود ہی کنٹرول سنبھال کر‘ پاکستان میں شمولیت کا اعلان کر دیتے اور اس کے بعد‘ بھارت کے پاس یہ جواز ہی نہ رہتا کہ وہ‘ اقوام متحدہ سے مداخلت کی درخواست کرتا۔تقسیم کے فارمولے کے تحت‘ ریاست جموں و کشمیر پاکستان کا حصہ تھا اور پاکستان کا یہ حق تھا کہ وہ اس پر قبضہ کر کے‘ اپنے علاقے میں نظم و نسق قائم کر دیتا۔ایسا کیوں نہ ہو سکا؟ جن لوگوں سے یہ جواب طلب کیا جا سکتا ہے‘ وہ اب اس دنیا میں موجود نہیں۔اور جو ہیں اگر وہ پاکستا ن کے حق میں گواہی دے بھی دیں تو زمینی حقائق بہت بدل چکے ہیں۔ اب کسی میں یہ طاقت نہیں رہ گئی کہ اپنی بات کو منوا سکے۔اس پوری کہانی سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہم کشمیر کے اصل حق دار ہوتے ہوئے بھی‘ اس پر بھارت کے جبری قبضے کو عملاً تسلیم کئے بیٹھے ہیں۔آج ہم زمینی حقائق کو نہیں بدل سکتے۔ لیکن ہماری سادگی دیکھئے کہ بھارت کے ستر سالہ قبضے کے بعد بھی‘ یہ آس لگائے بیٹھے ہیں کہ کبھی نہ کبھی انصاف ہو گا۔ساری دنیا فلسطینیوں کے حقوق کو تسلیم کرتی ہے لیکن فلسطینی اپنی ہی سرزمین پر‘ غلامی کی زندگی بسر کرنے پر مجبورہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے باشندوں کی صورت حال بھی یہی ہے۔ دنیا ان کا حق مانتی ہے لیکن بھارت کی غلامی سے انہیں آزاد کرانا‘ کسی کے بس میں نہیں۔
بھارت چونکہ ایک جمہوری ملک ہے۔ وہاں پر مقبوضہ ریاست کے کشمیری ‘اپنے حقوق کی جدوجہد اور بھارت کی مسلح فورسز کے ظلم و ستم کا نشانہ بن کر ‘جذبہ آزادی کا اظہار کرتے رہتے ہیں لیکن جانبازی اور جاں فروشیوں کی‘ نا قابل تردید مثالیں پیش کر کے بھی‘ صبح ِآزادی کی جھلک نہیں دیکھ پا رہے ۔ زمینی حقائق بھی ایسے نہیں کہ مظلوم کشمیری‘ غلامی کی زنجیریں توڑ کر اپنی آزادی چھین سکیں۔پاکستان ایک ایٹمی قوت ہونے کے سبب ‘بھارت سے اپنا حق مانگنے کی پوزیشن میں ہے لیکن اپنی طاقت کے بل بوتے پر آج ہم میدان جنگ میں مظلوم کشمیریوں کی امداد کرنا بھی چاہیں تو یہ ممکن نہیں۔ دونوں ممالک کے پاس ایٹمی اثاثے اتنی تعداد اور مقدار میں اکٹھے کئے جا چکے ہیں کہ ہم ان کااستعمال کر کے بھی دو طرفہ تباہی کے سوا ‘کچھ حاصل نہیں کر پائیں گے۔
کشمیر حاصل کرنے کا لمحہ ہمارے ہاتھ سے نکل چکا۔کشمیر کی علاقائی حدود میں گھری ہوئی تھوڑی سی مسلم آبادی ‘بھارت جیسی بڑی طاقت کے ساتھ صدیوں لڑ کے بھی آزاد نہیں ہو سکتی۔ ہم بھارت کے داخلی تضادات پر طویل انتظار کر کے بھی‘ وہ مقاصدحاصل نہیں کر پائے‘ جو مظلوم کشمیری عوام اورہم‘ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں کشمیر کے مستقبل کے بارے میں جو کچھ بھی سوچنا ہو گا‘ وہ زمینی حقائق کے سامنے رکھتے ہوئے سوچنا ہو گا ۔ یہ بھی خسارے کا سودا نہیں۔ابھی موقع ہے کہ ہم مظلوم کشمیریوں کے لئے بھی بہت کچھ حاصل کر لیں اور خود پاکستان کے لئے بھی۔ مگر ہم ایسا نہیں کریں گے۔مجھے توڈر ہے کہ پاکستان کو جو قیادت آج دستیاب ہے‘ وہ کشمیریوںکے حقوق فروخت کر کے‘ آف شور کمپنیوں میں جمع کرا دے گی اور کچھ عرصے بعد‘ بھارت اس پر بھی اپنا حق ملکیت ثابت کر کے‘لے اڑے گا۔کشمیری اور ہم پاکستانی یہ نعرہ لگاتے رہ جائیں گے۔ کشمیر نہ بیچ آنا‘ پاناما کے بازار میں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں