مجھے وزیراعظم نوازشریف کی کرشمہ سازیوں نے حواس باختہ کر رکھا ہے۔سچی بات ہے‘ نوازشریف کی اپوزیشن تو ان کا کچھ نہیں بگاڑ پائی۔ خودنوازشریف مریض دل بن کر لندن کی سیر کو چلے گئے اور خواہشوں میں لت پر لیڈروں نے امیدیں لگا لیں کہ اس مردآہن کا ‘انگریز ڈاکٹر چاہیں تو شاید کچھ بگاڑ پائیں‘ ورنہ اصل میں ‘ان کا دل صحیح سلامت ہے اور وہ محض ہمدردیاں سمیٹنے کے لئے‘ مریض دل بن کر لندن کی طرف اڑان بھر رہے ہیں۔ آیئے ! اپوزیشن کی سیر کو نکلتے ہیں۔ شمالی علاقوں کے دلفریب قدرتی مناظر کی طرح‘ ہماری اپوزیشن میں بھی شاندار فطری مناظر پائے جاتے ہیں۔ برف کی چادر میں لپٹے پہاڑوں کی طرح محمود اچکزئی ہیں‘ جن سے نکلتے ہوئے ندی نالے اور پرجوش چشمے ‘عجیب مناظر کی سیر کراتے ہیں۔ کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ کس طرف سے چشمے ابل رہے ہیں؟ کہاں سے آبشار گر رہے ہیں؟ کدھر سے زلزلے کی لہریں ‘ پہاڑوں کا سینہ چیرتی ہوئی‘ برآمد ہو کر بستیاںاجاڑ رہی ہیں۔ جس طرح ہمارے ہر زلزلے کا مرکز‘ افغانستان میں کسی نہ کسی جگہ ہوتا ہے‘ اسی طرح محموداچکزئی کی آتش فشانیوں کے بیشتر مراکز ‘افغانستان میں ہوتے ہیں۔ افغانستان کی گہرائیوں میں ابلنے والا لاوا‘ وہاں کا کچھ بگاڑے بغیر‘ ہمارے میدانوں اور پہاڑوں کا رخ کرتا ہے‘ اسی طرح اچکزئی صاحب بھی اپنی ساری غضبناکیاں لئے‘ نیشنل اسمبلی کا رخ کرتے ہیں۔ وزیراعظم نوازشریف کی مہربانی ہے کہ پہاڑی عفریت‘ میاں صاحب کو دیکھتے ہی ادب سے کان ہلانے لگتا ہے۔ ورنہ میاں صاحب کی حکومت نہ ہو‘ تو اچکزئی صاحب کی گڑگڑاہٹ ‘ پاکستانی آئین کے بسے بسائے شہر کو‘ تاخت و تاراج کرنے پر تلی رہتی ہے۔ ان کی برفانی تہوں کے اندر ابھرنے والی گڑگڑاہٹ پر ‘اچھے خاصے پاکستانی ‘ اپنے دفاعی نظام کو متحرک کر کے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یہ میاں صاحب کا جادو ہے‘ جو اچکزئی صاحب کی گڑگڑاہٹ پر قابو پا کے‘ اسے خوابیدہ بلی کی طرح آرام سے بٹھا دیتا ہے۔
میاں صاحب نے ایسی بے شمار بلیاں پال رکھی ہیں‘ جو عام حالات میں سوئی رہتی ہیں۔ جب میاں صاحب ''ہُش‘‘ کہتے ہیں‘ تو ان کے پھینکے ہوئے گوشت اور چھیچھڑوں کو چشم زدن میں کھا پی کے ہضم کر جاتی ہیں اور باقی جو رہ جاتا ہے‘ وہ میاں صاحب کی حمایت میں دم ہلاتے ہونٹ ہوتے ہیں۔ میں نے پاکستان میں بڑی بڑی اپوزیشنیں دیکھی ہیں۔ لیکن میاں صاحب نے اپنی اپوزیشن کو جس طرح رام کیا ہے‘ اس کی مثال دیکھنے میں نہیں آتی۔ حد یہ ہے کہ بھارت کا جو وزیراعظم ‘ پاکستان کی طرف رخ کر کے چنگھاڑنے کا عادی ہوتا ہے ہمارے دارالخلافے ''جاتی عمرہ‘‘ میں داخل ہوتے ہی بھجن گانے لگتا ہے۔ مندروں میں بھجن گانے والے وہاں خود چڑھاوے چڑھاتے ہیں۔ جبکہ جاتی عمرہ آنے والے بھارتی وزیراعظم ‘قیمتی سے قیمتی چڑھاوے جمع کر کے لے جاتے ہیں اور ان کی تعداد اتنی ہوتی ہے کہ جہازوں میں جگہ نہ رہے تو واہگہ کے راستے ٹرک بھر کے بھیجنا پڑتے ہیں۔ سوچ کر دیکھئے کہ جو شہ زور ‘ بھارتی وزیراعظم کو رام کر لیتا ہے‘ اس کے سامنے پاکستانی اپوزیشن کتنا دم خم دکھا سکتی ہے؟ بی بی شہید‘ جو فوجی حکمرانوںکی نیندیں اڑا دیا کرتی تھیں‘ ان کی کرسی پر قبضہ جمانے والے زرداری صاحب‘ نوازشریف کے سرہانے کھڑے‘ مورچھل ہلاتے دکھائی دیتے ہیں۔ زرداری صاحب کی طاقت کا یہ عالم ہے کہ ایک پھونک سے سندھ کی صوبائی وزارت کو اڑا کے‘ کراچی کے ذخارگندے نالوںکی گہرائیوں میں ڈبو دیتے ہیں اور دوسری طرف میاں صاحب کا نام سنتے ہیں‘ تو امریکہ میں ہوں یا لندن میں؟ سیدھے دبئی پہنچ کر جناب اسحق ڈار کے شانہ بشانہ
استقبالیہ صف میں قائدانہ جگہ سنبھال کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ وہاں ان کے بلاول ہائوس میں بیٹھ کر اقتدار کی جتنی بازیاں کھیلی جاتی ہیں‘ سب کا نتیجہ میاں صاحب کے حق میں نکلتا ہے۔ ہمارے دوست سردار لطیف کھوسہ‘ اسحق ڈار کے خوابوں پر ‘چوہدری نثار کی چھاپہ مار کارروائیوں کی خبر دیتے ہیں۔ لیکن کہاں اسحق ڈار اور کہاں چوہدری نثارعلی خاں؟ چوہدری نثارعلی خاں نے‘ جس شاہی مسند پر نگاہیں گاڑ رکھی ہیں‘ وہاں پہلے سے اسحق ڈار کے ڈیلے نصب ہیں۔ لطیف کھوسہ جو چاہیں کر لیں لیکن ڈار صاحب کی شست میں جکڑا ہواشکار‘کوئی دوسرا نہیں چھین سکتا۔ جن لوگوں نے لندن سے میاں صاحب کی واپسی پر‘ انہیں اسحق ڈار کے جپھے میں‘ بے بسی کے ساتھ کھڑے دیکھا ہے‘ اس کی چشم تصور نے ‘کیا کیا گنج ہائے گراں مایہ نہیں دیکھے ہوں گے؟ اگر اس منظر کے دیکھنے والوں کو یاد ہو کہ ڈار صاحب کا سو کلو کاسر‘ میاں صاحب کے سینے پر کیسے جارحانہ انداز میں رکھا ہوا تھا ؟ وہی اندازہ کر سکتا ہے کہ اس منظر میں کیا کیا معانی پنہاں تھے؟ پاکستان کے سارے ''گنج ہائے گراں مایہ‘‘ تو پہلے سے ڈار صاحب کے مقبوضہ ہیں۔ انہیں مزید کس چیز کی ضرورت ہے؟ کھڑے ہوئے آدمی کو اور کیا چاہیے؟ ایک کرسی! یقینا وہ میاں صاحب کو ‘اپنی بانہوں میں لپیٹ کر‘ سر کا تالا لگائے ہوئے ایک ہی دعا کر رہے ہوں گے کہ ''اے خدا! تو نے مجھے سب کچھ دے رکھا ہے۔ ایک ہی چیز کی کمی ہے... صرف ساتھ والی کرسی ۔‘‘ہماری قومی اسمبلی میں جتنے بھی افراد ‘ کرسی کے خواب دیکھ رہے ہیں‘ ان میں کوئی بھی اس کرسی کے اتنا قریب نہیں‘ جتنا ڈار صاحب ہیں۔ چوہدری نثار علی خاں بھی۔
میاں صاحب کے دل میں اپنے عزیزوں ‘ رشتے داروں‘ دوستوں اور ساتھیوں کے لئے کتنا ہی پیار کیوں نہ ہو؟ لیکن جس کرسی پر اس پورے ہجوم کی نظریں ٹکی ہیں‘وہ کسی اور کے سپرد کرتے ہوئے‘ میاں صاحب کے ذہن میں ہزاروں خدشے گھات لگائے بیٹھے ہوں گے۔یہ کرسی آسانی سے نہیں ملتی۔ آسانی سے بچائی بھی نہیں جا سکتی۔ کوئی ان کے سینے پر سر رکھے یا پیروں پر؟ میاں صاحب کے ذہن میں ایک ہی سوچ ہوتی ہو گی۔
ہم لائے ہیں طوفان سے ''کرسی‘‘ نکال کے
اس تحفے کو رکھنا میرے بچو سنبھال کے
یہ میاں صاحب کا ہی دم خم ہے کہ ایک دل کے چار چار آپریشن کرانے کے بعد بھی‘ انہوں نے و طن واپس آتے ہی‘ ڈولتی ہوئی کرسی کو چاروں پیروں پر کھڑے کر دیا۔ ورنہ ان کی واپسی سے ‘محض چند روز پہلے کا منظر یاد کر کے دیکھ لیجئے‘ ہر کوئی اپنی اپنی سوچ کے مطابق دیکھ رہا تھا کہ یہ کرسی تو اب گئی کہ گئی۔ میاں صاحب کی خدمت میں جو بھی حاضر ہوتا تھا‘ اس کی نگاہیں ادب سے کم جھکی ہوتی تھیں اور کرسی پر زیادہ جمی۔ گھر سے لے کر‘ پارٹی کے اندر جو بھی کرسی کی طرف دیکھتا‘ ایک لمبی سانس کھینچ کر یہی سوچتا ''پارٹی اور خاندان کے اندر‘ مجھ سے بڑھ کر اس کرسی کا حق دار اور کون ہو سکتا ہے؟ کوئی مجھ سے زیادہ لائق نہیں۔ کوئی مجھ سے بڑھ کر زیادہ سمجھدار نہیں۔ کوئی میری طرح ہینڈسم نہیں۔ کوئی مجھ سے زیادہ سیاسی سوجھ بوجھ نہیں رکھتا۔سچی بات ہے‘ خود میاں صاحب بھی واجبی سی سوجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ اگر انہیں جنرل ضیاالحق کی سرپرستی نہ ملتی‘ تو کس میں دم خم تھا‘ جو انہیں وزارت عظمیٰ کی کرسی تک پہنچاتا؟یہ میری بدنصیبی ہے کہ میں‘ ضیاالحق کا سیاسی ساتھی نہ بن سکا۔ ساتھی بھی بن گیا تھا‘ ان کے قریب نہ آ سکا۔ قریب بھی آگیا تھا‘ ان کا اعتماد حاصل نہ کر سکا۔ اعتماد بھی حاصل کر لیا تھا‘ مگر قسمت نے یاوری نہ ی۔ اس میں تو کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے کہ میاں صاحب دیکھنے میں‘ عام سے آدمی لگتے ہیں۔ میں بھی دیکھنے میں عام سا آدمی لگتا ہوں۔اسحق ڈار بھی دیکھنے میں عام سے آدمی لگتے ہیں۔ کرسی سے میں تھوڑا سا دور ہوں۔ اسحق ڈار بھی تھوڑے سے دور ہیں۔ چھوڑیں جی! میں نے کب کرسی کا لالچ کیا ہے؟ میں چاہتا تو وزیراعظم بننے کی‘ میاں صاحب سے زیادہ باریاں لگا لیتا۔ لیکن میں بے نیاز آدمی ہوں۔ جو کچھ خدا کا دیا ہے‘ اسی پر خوش ہوں۔ کرسی میں کیا رکھا ہے؟ جورکھ دو‘ وہی جم کر بیٹھ جاتا ہے۔ مہمان سے ہاتھ ملانے کے لئے اٹھو‘ تو فکر رہتی ہے کہ خالی کرسی پر کوئی بیٹھ نہ جائے۔قومی اسمبلی کے ہال میں داخل ہوکے جس چہرے پر نظر جاتی ہے‘ اس کی نظریں ایک ہی کرسی پر گڑی ہوتی ہیں۔ اس ایک کرسی کو آدمی کس کس سے بچائے؟ اور اس کا مقابلہ کون کرے؟ جو دل کے چار چار آپریشنوں کے بعد بھی‘ سارے حریفوں کو للکارتی نظروں سے دیکھے۔‘‘
یہ کالم لکھتے وقت میں نے ساتھ آواز کے بغیر ٹی وی لگا رکھا ہے۔اپنی کرکٹ ٹیم کے خاموش نظارے دیکھ کر یوں لگ رہا ہے‘ جیسے ہمارے کھلاڑیوں نے ٹھان رکھی ہے کہ ''ہم تمہیں بتاتے ہیں‘ ہار کیسی ہوتی ہے؟‘‘