''دوسرے ٹیسٹ میچ میں اپنی ٹیم کی شکست کے بعد ‘پاکستانی کرکٹ کے شائقین یقیناً خود کو ایک تباہ شدہ عمارت کے ملبے سے بچ نکلنے والے فردجیسا محسوس کر رہے ہوں گے۔ وہ ملبہ جس میں ہماری بولنگ دفن ہوئی جس کی تعریف میں لوگ رطب اللسان تھے۔ یہی ہمارا وہ ٹاپ آرڈر فن ہے‘ جسے خود پر عدم اعتماد لے ڈوبا اور ساتھ ہی وہ کیچ ‘جو ہم نے چھوڑے اور جن میں سے ہر ایک ہمارے دل پر ایک براہِ راست وار تھا۔‘‘ یہ ''بی بی سی‘‘ کے سپورٹس تجزیہ کار احمر نقوی کے تبصرے کا اقتباس ہے۔ ہمیں کوئی بھی چیز زیادہ عرصے کے لئے نہیں ملتی۔ مثلاً کرکٹ میں ایک دن کی بادشاہت‘ جو ہمارے ہاتھ لگی تھی‘ وہ اپنے ہی کرکٹ بورڈ کے پروردہ ایک کھلاڑی کی مہربانی سے بھارت اڑا لے گیا۔ یہ کارنامہ انجام دینے والی شخصیت ''شکل مومناں‘‘ جناب ثقلین مشتاق ہیں۔ انہیں پاکستان نے ہی کھلاڑی بنایا۔ پاکستان ہی نے دنیا میں اعلیٰ درجے کی کرکٹ کھیلنے کے مواقع مہیا کئے۔ ساری دنیا میں متعارف کروایا۔ یہ بھی ایک سپنر تھے۔ ہمارے بہترین کھلاڑیوں نے ان کی تربیت کی۔ انہوں نے اپنی محنت اور جدت کے ساتھ بعض مخصوص گیندیں پھینکنے کا حربہ سیکھا۔ آج کل یہ عموماً میچوں کا نظارہ کرتے اور ماہرانہ تبصرے کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ برطانیہ کے لئے پاکستان کا خفیہ ہتھیار‘ یاسر شاہ تھا۔ اس کی گھومتی ہوئی گیندیں کھیلنا‘ ہر ایسے بلے باز کے لئے مشکل تھیں‘ جویاسر شاہ کو پہلے پہل کھیل رہا ہو۔ لارڈز کے میدان میں پاکستان کو جو تاریخی فتح حاصل ہوئی‘ وہ ہمارا خفیہ ہتھیار یاسر شاہ تھا‘ جس نے 10وکٹیں لے کر نہ صرف گوروں کو حیران کر دیا، بلکہ برطانیہ میں پہلا میچ کھیل کر ہی‘ وہ دنیا کا اول نمبر بولر بن گیا۔ مگر یہ اول نمبری دیرتک ہمارے پاس نہ رہ سکی اور ہمارے ہی ایک کُھنڈے ہتھیار‘ یعنی ثقلین مشتاق نے اپنے ہی ملک کے پاس یہ اعزاز مزید چند روز نہ رہنے دیا۔ یہ واردات کیسے ہوئی؟
واردات یوں ہوئی کہ ثقلین مشتاق صاحب ‘ جو ہماری ٹیم کے دورہ برطانیہ کے دوران ‘ وہیں پائے گئے‘ جہاں پاکستان کے میچ ہو رہے ہیں۔ وہاں انہوں نے فیس لے کر یا بغیر فیس ‘نوجوان بولر یاسر شاہ کو اپنی ایک ٹیکنیک سکھا دی۔ نہیں معلوم کہ ثقلین مشتاق کے سکھائے ہوئے کرتب یا اپنی محنت کے بل پر‘ یاسر شاہ نے پہلے ٹیسٹ میچ میں برطانیہ کے خلاف 10وکٹیں حاصل کر لیں۔ جس پر دنیائے کرکٹ میں دھوم مچ گئی۔ گوروں کے اوسان خطا ہو گئے۔ ان کا پریشان ہونا واجب تھا۔ پاکستان کی ٹیم مدت سے عالمی کرکٹ سے دور تھی۔ نہ اسے پاکستان میں کھیلنے کا موقع ملا اور نہ ہی کرکٹ کے جغادریوں نے اپنے ملکوں میں ہمیں دورے کے لئے بلایا۔ خلیج میں کرائے کی گرائونڈیں لے کر‘ ہم نے اپنی کرکٹ کو ‘چمچوں سے دودھ پلا کر زندہ رکھا۔ بے شمار دعائوں کے بعد برطانیہ کے دورے کا موقع ملا۔ وہاں ثقلین مشتاق صاحب برآمد ہو گئے۔ نوجوان یاسرشاہ کو دوچار جادوئی گُر سکھائے۔ خدا جانتا ہے کہ ان گروں کی وجہ سے یا خداداد صلاحیتوں کی بنا پر ‘یاسر شاہ اچھی کارکردگی دکھا گیا۔ مانچسٹر میں دوسرے ٹیسٹ میچ کا نقشہ ہی بدلا ہوا تھا۔ ہمارا خفیہ اور گوروں کے لئے نیا ہتھیار‘ یاسر شاہ جس نے لارڈز میں 10 و کٹیں لی تھیں‘ مانچسٹر کی گرائونڈ پر ٹھس ہو گیا۔ سب حیران تھے کہ ہمارے سٹار بولر کو کیا ہو گیا؟ کسی کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ کارنامہ کسی ''اپنے‘‘ کا ہے۔ بعد میں بھید یہ کھلا کہ ثقلین مشتاق نے یاسر شاہ کو‘ نئے پینترے سکھانے کی آڑ میں ‘ اس کی اپنی نکالی ہوئی طرز اچھی طرح دیکھ کر‘ غیروں سے معاوضہ لیا اور انہیں بتا دیا کہ یاسر شاہ کے گُر کیا ہیں؟ گورے پوری طرح تیار ہو کر آئے اور مانچسٹر کے ٹیسٹ میں‘ یاسر شاہ دو اننگز میں صرف ایک وکٹ لے پایا۔ ساری ٹیم اور پاکستانی ماہرین سب حیران تھے کہ وکٹ بھی اچھی ہے ۔ برطانوی بولروں کی گیندیں بھی جلوے دکھا رہی ہیں۔ پاکستان نے جس ''خفیہ ہتھیار‘‘ سے لارڈز کا میچ جیتا تھا‘ وہ مانچسٹر میں کُند کیوں ہو گیا؟ جس بولر نے برطانیہ میں اپنا پہلا ہی میچ جیت کر‘ دنیا کا نمبر ون بولر ہونے کا اعزاز حاصل کر لیا‘ وہ دوسرے میچ میں برطانوی بلے بازوں کے لیے پہلی کا پہاڑہ کیوں بن گیا؟اصل بات یہ تھی کہ گھر کے بھیدی نے ہماری لنکا ڈھا دی اور وہ بھی ایسے وقت میں‘ جب پاکستان بڑی محنت اور تگ و دو کے بعد دوبارہ عالمی کرکٹ میں داخل ہو رہا تھا۔ خدا خدا کر کے ہماری کرکٹ ٹیم کو اچھا کھیل پیش کر کے میدان میں ‘اٹکھیلیاں دکھانے کا موقع ملا‘ تو دوسرے ہی میچ میں‘ سب کئے دھرے پر پانی پھر گیا اور یہ پانی بھی ہمارے اپنے ہم وطن نے پھینکا تھا۔ لیکن ہمارے نوجوان نہ صرف یہ راز جان گئے ہیں بلکہ جعلی خیرخواہوں کی کارستانیوں سے بھی واقف ہو گئے ہوں گے۔ امید کرنا چاہیے کہ آنے والے دنوں میں وہ اچھی کارکردگی دکھائیں گے۔کرکٹ کے مستقبل سے میں مایوس نہیں۔ پاناما پارٹی کا سیاسی پیراشوٹر ‘ انہی کے ساتھ پرواز کر جائے گا اور جہاں وہ باقی ماندہ زندگی گزارنے کے منصوبے بنا رہا ہے‘ وہاں کرکٹ کا کھیل ہی نہیں ہوتا۔
بی بی سی کے سپورٹس تجزیہ کار نے تسلی دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ''انگلستان کی سرزمین پر اتنے بڑے فرق سے شکست کھانا کوئی عجیب بات نہیں۔ اس صدی کے دوران ‘انگلش ٹیم اپنے گھر میں مخالفین کو عبرتناک شکست دیتی رہی ہے۔ ان میں سے کچھ ایسی شکستوں کے بعد مزید خراب کھیلے اور کچھ نے ہمت نہ ہاری اور منہ توڑ جواب دیا۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کا ارادہ کیا ہے؟اس شکست کے بعد ٹیم میں تبدیلی کی بات ہو سکتی ہے، چاہے وہ ایک اور بولر کو کھلانے کی بات ہو یا اوپنرز بدلنے کی۔ مگر میرے خیال میں یہ تبدیلیاں بیوقوفی ہوں گی۔یہ میدان میں اتاری جانے والی بہترین پاکستانی ٹیم ہے ،جسے اب اعتماد درکار ہے کیونکہ ٹیم میںیہی ایک کمی ہے۔ اس کے بولر اولڈ ٹریفرڈ کی پچ کے باؤنس کو سمجھنے میں ناکام رہے اور نتیجہ ان کی لینتھ میں دکھائی دیا۔ بلے بازوں کے لیے بھی باؤنس مشکلات لایا اور وہ گھومتی گیند سے، زیادہ اٹھتی ہوئی گیندوں کا شکار بنے۔لیکن سب سے اہم بات یہ تھی کہ مصباح الیون نے ،اپنی سب سے بڑی طاقت ،یعنی صبر کا استعمال نہیں کیا۔ اگر اس ٹیم کے خلاف کوئی بھی ٹیم ،چار رنز فی اوور کی اوسط سے سکور کرے، تو وہ ایک لحاظ سے میچ جیت ہی چکے ہوتے ہیں۔ اس کے لیے کریڈٹ الیسٹر کک اور جو روٹ کو جاتا ہے، جنہوں نے نہ صرف شاندار بلے بازی کی بلکہ مخالف ٹیم کو غلطیوں پر مجبور بھی کیا۔ان کی کارکردگی کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستانی بلے باز سکور کارڈ سے خوفزدہ ہو کر ہی کھیلتے رہے اور یہ ان کے آؤٹ ہونے کے انداز سے بھی صاف نظر آتا تھا۔ انگلش ٹیم اپنے مخالفین کا دم گھونٹنے میں کامیاب رہی اور اس نے پاکستان کو شکست کا وہی ذائقہ چکھا دیا جو خود اس نے لارڈز میں چکھا تھا۔
دیکھا جائے تو زیادہ تر پاکستانی مداحوں کے لیے دو ٹیسٹ میچوں کے بعد سیریز کی ایک ایک سے برابری ہی متوقع سکور لائن تھی۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ آخری ٹیسٹ میچ اوول میں ہے، جہاں کی پچ ان کی ٹیم کی صلاحیتوں سے زیادہ مطابقت رکھتی ہے۔لیکن یہ لازم ہے کہ پاکستانی ٹیم برمنگھم میں اگلے میچ سے قبل، اپنی بنیادی غلطیوں کو سدھارے۔ یہ ایسی ٹیم نہیں جو تباہ ہو چکی ہے اگرچہ وہ ایسا محسوس ضرور کر رہی ہوگی۔حقیقت یہ ہے کہ لارڈز میں ایک ڈرامائی فتح کے بعد اولڈ ٹریفرڈ کی شکست وہ سچائی ہے ،جس کا سامنا پاکستانی ٹیم کو پہلے کر لینا چاہیے تھا۔انگلینڈ اپنی سرزمین پر ایک مضبوط ٹیم ہے اور پاکستان کے خلاف گذشتہ سات میں سے ،چھ ٹیسٹ میچوں میں شکست کے بعد وہ اب رکنے والی نہیں۔لیکن پاکستانی ٹیم کو یہ جان لینا چاہیے کہ اس میں وہ صلاحیت اور مہارت ہے جس کی مدد سے وہ انگلینڈ کو منہ توڑ جواب دے سکتی ہے۔‘‘