جب مشرقی پاکستان کا بحران جنم لے رہا تھا‘ تو مجھے اور بیشتر پاکستانیوں کو ہرگز یہ اندازہ نہیں تھا کہ ہمیں اس اندوہناک تجربے سے بار بار گزرنا ہو گا۔ میرے لئے مزید تکلیف کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے پہلے جغرافیائی بحران سے‘ نمٹنے والے سیاستدان‘ آج کے مقابلے میں کہیں زیادہ صاحبان علم اور تاریخی شعور سے بہرہ ور تھے۔ اگر کوئی آزادی اور غیرجانبداری سے‘ ان ادوار کے حقائق لکھے‘ تو جو کچھ اب ہو رہا ہے‘ اسے دیکھ کر‘ ماضی کے زخم پھر سے ہرے ہو جائیں گے۔مگر اب سوچنے بھی کون دے گا؟ سرکاری پالیسیوں اور تجارتی اجارہ داریوں نے‘ ہمیں تاریک راہوں کی طرف دھکیل دیا ہے۔ اس کی طرف میں 2008ء سے 2013ء تک مسلسل اس خدشے کا اظہار کرتا رہا ہوں کہ پاکستانی میڈیا‘ بڑی تیزی کے ساتھ اپنی آزادیوں سے دستبردار ہو رہا ہے۔ آج کی صورتحال دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ حکمرانوں کی کوتاہ فہمی ہمیں اسی طرف لے جا رہی ہے‘ جس کی طرف میں توجہ دلایا کرتا تھا۔ آزادیٔ اظہار اور آزادیٔ فکر ‘دو ایسی چیزیں ہیں‘ جو کسی قوم کو میسر آ جائیں‘ تو معاشرہ تمام دشواریوں اور رکاوٹوں کو عبور کرتا ہوا‘ ترقی اور مہارتوں کی طرف بڑھنے لگتا ہے اور آج کے حالات میں تو ہمیں یہ سہولت بھی حاصل ہے کہ وسائل کے بغیر‘ قوموں نے کس طرح اپنے عوام کے حالات بدلے اور آج وہ مثالی خوشحالی کی زندگی گزار رہی ہیں؟ خوش نصیب وہ قومیں ہیں‘ جنہیںآزادیٔ اظہار بھی میسر آئی۔ وہ ترقی کی طرف تیزی سے آگے بھی بڑھتی گئیں اور آج وہ اپنے علم اور دانشمندی سے ‘ایک مثالی آسودگی اور بہتر معیارِ زندگی سے لطف اندوز ہو رہی ہیں۔
یوں دیکھا جائے‘ تو میں جن قوموں کے نام لے کر مثالیں دے سکتا ہوں‘ وہ سوئٹزرلینڈ‘ ڈنمارک‘ سویڈن‘ ناروے ‘کسی حد تک فن لینڈ‘ آئس لینڈ اور فیروآئس لینڈز ہیں۔ یہ وہ ممالک ہیں‘ جن میں تہذیب‘ کلچر اور معیشت کو‘ انسانی زندگی کے لئے انتہائی آرام دہ اور ممکنہ حد تک پُرامن بنا دیا گیا ہے۔ باقی جن ملکوں میں معاشی اور انتظامی اصلاحات کی گئیں‘ انہوں نے اگر ایک شعبے میں ترقی کی‘ تو دیگر کئی شعبوں میں انسانی آزادیاں سلب بھی کر لی گئیں۔ جیسے ملائشیا اور سنگاپور کی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ وہاں کے لیڈروں نے تیزی سے ترقی پذیرمعیشت اور کرپشن سے پاک معاشرہ تو بنا لیا لیکن اس کے بدلے میں انسان کی ذہنی اور روحانی آزادیوں کا بڑا حصہ چھین لیا گیا۔ سوویت یونین کا تجربہ جزوی طور پر اچھا رہا۔ مگر اس کا نتیجہ نئی آمریت کی صورت میں برآمد ہوا۔ قابل توجہ پہلو یہ ہے کہ بہت سے ملکوں کی قیادتوں نے‘ ایسے نظام تشکیل دیئے‘ جن میں انسانی زندگی کو بہتر بنانے کا تصور پیش کیا گیا تھا۔ پاکستان کے بانیوں کے تصور کو دیکھا جائے‘ تو اگر ہم قائد اعظم ؒ کی سوچ اور فکر کو پیشِ نظر رکھ کر اپنا آئین تیار کرتے اور ایک حقیقی جمہوری نظام قائم کر لیتے‘ تو آج ہم نہ صرف حقیقی پاکستان کو مکمل جغرافیے کے ساتھ‘ ترقی و
خوشحالی کی جانب لے جا رہے ہوتے بلکہ یہاں بھارت سے کہیں بہتر جمہوری نظام معرض وجود میں آ چکا ہوتا۔ میں تاریخی حوالے دے کر قارئین پر زیادہ بوجھ نہیں ڈالنا چاہتا۔ مختصر یہ ہے کہ جن علاقوں میں پاکستان قائم ہوا‘ وہ تاریخی طور سے بہت پسماندہ تھے۔ کوئی بڑا صنعتی گروپ یہاں موجود نہیں تھا‘ جو ہمیں جدید زندگی کی طرف لے جا سکتا۔ یہاں کی بیشتر آبادی علم اور ہنرمندی سے محروم تھی۔ مشرقی پاکستان کی حالت بھی مختلف نہیں تھی۔ وہ کسانوں کا معاشرہ تھا‘ جس کی بڑی پیداوار پٹ سن تھی۔ پٹ سن کے کھیت‘ مشرقی بنگال میں تھے اور صنعتیں مغربی بنگال کے پاس تھیں اور فوج میں ان کا حصہ نہ ہونے
کے برابر تھا۔ پاکستانی پنجاب ابھی جدید دور میں داخل نہیں ہوا تھا۔ صرف لاہور ایک ایسا شہر تھا‘ جہاں تعلیمی ادارے موجود تھے۔ مگر ان میں زیادہ تر طالب علم‘ مشرقی پنجاب اور شمالی ہند سے آیا کرتے تھے۔ صرف ایک گورنمنٹ کالج لاہور ایسا تھا‘ جہاں معیاری تعلیم دی جاتی تھی۔ صنعتی شعبے کی طرف دیکھا جائے‘ تو پورے پاکستان میں صرف چند ملیں تھیں۔ ایک ستلج کاٹن ملز اوکاڑہ اور دوسری لائل پور کاٹن مل اور تیسری کا نام مجھے یاد نہیں۔ پاکستان کی بنیاد رکھنے والوں نے اسے ایک جمہوری ملک بنانے کی کوشش کی۔ مغربی پاکستان کے جاگیرداروں نے ‘ جمہوریت کی راہ میں قدم قدم پر رکاوٹیں کھڑی کیں۔ ان کا سب سے بڑا خوف مشرقی پاکستان کی اکثریت تھی۔ اگر جمہوری نظام قائم ہو جاتا‘ جس میں بدنصیبی سے بہت تاخیر ہو گئی‘ تو قومی اسمبلی میں‘ اکیلا مشرقی پاکستان اکثریت کا مالک ہوتا اور وہاں کی سیاسی قیادت میں وہ لیڈر موجود تھے‘ جو پورے بنگال کی اسمبلی کا تجربہ رکھتے تھے۔ حسین شہید سہروردی تو پورے بنگال کے وزیراعظم تھے۔ یاد رہے کہ اس وقت صوبائی چیف ایگزیکٹو کو‘ وزیراعظم ہی کہا جاتا تھا۔ بعد میں یہ سلسلہ متروک ہو گیا۔
پاکستان کے ساتھ المیہ یہ ہوا کہ مغربی پاکستان کے جاگیرداروں نے بیوروکریسی ‘ فوج اور ملائوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے‘ نہ صرف عوام کو بنیادی حقوق سے محروم کیا بلکہ آئین کی تیاری میں بھی رخنے ڈالے۔ خصوصاً ملائوں کو آگے لا کر‘ جاگیردار ٹولے نے‘ اپنا تسلط قائم کرنے کے لئے نامناسب حربے استعمال کئے۔ بدنصیبی کی انتہا یہ تھی کہ قیام پاکستان سے لے کر‘ سقوط مشرقی پاکستان تک ہم کوئی آئین ہی تیار نہ کر پائے۔ یہ ایک عجیب ریاست تھی‘ جو آئین کے بغیر ہی پاکستان کے ان ادوار کو ضائع کرتی رہی‘ جن میں ہم اپنے ملک اور قوم کی بنیادیں مضبوط کرسکتے تھے۔ مشرقی پاکستان روزاول ہی سے ناانصافیوں کا ہدف رہا۔ مغربی پاکستان کے باقی ماندہ صوبے بھی ناانصافی کے شکار رہے۔ مرکزی حکومت نے اس زمانے کے سرحد اور بلوچستان کی سیاسی قیادتوں پر‘ کبھی اعتبار نہیں کیا۔ ان دونوں صوبوں کے لیڈر‘ بیرونی آقائوں سے‘ آزادی کی جدوجہد میں حصہ لیتے رہے تھے۔ ظاہر ہے‘ جدوجہد آزادی میں حصہ لینے کے لئے‘ کانگرس کے سوا کوئی سیاسی طاقت موجود نہیں تھی اور یہ لیڈر جو انگریز کے خلاف جدوجہد کرتے رہے تھے‘ ان پر نام نہاد ''پاکستانی‘‘ حکمرانوں نے کبھی اعتماد نہیں کیا۔ یہی صورتحال سندھ میں بھی پیدا ہوئی اور جس سندھی لیڈر نے سندھ کی صوبائی اسمبلی کے اندر‘ پاکستان کے حق میں قرارداد منظور کرائی‘ اس پر بھی غداری کا ٹھپہ لگا دیا گیا۔ پاکستان کہاں بنتا؟ جو حقیقت آہستہ آہستہ کھل کر سامنے آئی‘ اسے پنجاب کے سوا سارے صوبوں کی سیاسی قیادتوں نے استحصالی قرار دیا۔ یہی وجہ تھی کہ ملک ٹوٹنے تک‘ پاکستان کے پاس اپنا بنایا ہوا‘ غیرمتنازعہ آئین بھی موجود نہیں تھا۔
سقوط مشرقی پاکستان کے بعد خیال تھا کہ اقتدار
کے بھوکے سیاستدان‘ پاکستان کے بنیادی مسائل کو سمجھ کر‘ انصاف اور مساوات پر مبنی آئین بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ایسا ہو بھی گیا۔ یہ 1973ء کا آئین تھا‘ جس پر ہر نظریئے اور خیال کے نمائندہ سیاستدانوں نے دستخط کر دیئے تھے۔ پاکستانی عوام نے اس وقت سکون کا سانس لیا۔ جن صوبوں کی سیاسی قیادتوں کو غدار قرار دیا جاتا رہا‘ وہ اپنے اپنے صوبائی حقوق ملنے پر‘ مطمئن ہو کر اپنے عوام کو‘ جمہوری حقوق دلوانے کی جدوجہد میں مصروف ہو گئے۔ چند ہی سال کے بعد 1973ء کے متفقہ آئین کے خالق کو پھانسی لگا دی گئی۔ اس وقت بعض لوگوں نے کہا کہ 73ء کا آئین ختم کرنے والوں نے‘ پاکستان کی جڑوں پر ضرب لگا دی ہے۔ بعد میں یہ خدشہ درست ثابت ہوا۔ فوج اقتدار کے مزے لوٹ چکی تھی۔ اس کے سرکردہ لوگوں نے سیاستدانوں کو‘ مہروں کی طرح استعمال کر کے اپنی بالادستی مسلط کر دی اور اس کے بعد ایسے افراد کو‘ جن کا سیاست سے دور کا تعلق نہیں تھا‘ اپنی طاقت کے بل بوتے پر سیاسی طاقت کامالک بنا دیا۔ آج کا اسلام آباد باقی تینوں چھوٹے صوبوں کو‘ اسی طرح دبائو میں لا کر اپنی شرائط کے تحت وفاق پر مسلط ہونا چاہتا ہے۔ سندھ کی جاگیردار قیادت ‘ عوامی طاقت کو منظم کرنے کے قابل نہیں۔ وہ صرف سازشوں اور گٹھ جوڑ پر یقین رکھتی ہے۔ سیاسی اعتبار سے آج کا سندھ ایک خوابیدہ آتش فشاں ہے۔ یہ کسی بھی وقت پھٹ پڑے گا۔