اگر آج کے سیاسی بحران کا تجزیہ کر کے دیکھا جائے‘ تو یہ مشرقی پاکستان سے بڑے المیے کو جنم دینے کے امکانات رکھتا ہے۔ شیخ مجیب الرحمن نے‘ اپنے عوام کی محرومیوں‘ غریبی اور قومی وسائل میں مشرقی پاکستان کو حصہ دینے سے انکار کے پتے‘ استعمال کر کے علیحدگی کا نعرہ لگایا اور علاقائی اور عالمی تضادات کے کھیل میں ‘پاکستان کے تنگ نظر حکمران طبقوں کو گھیر کے‘ جنگ کی صورتحال مسلط کر دی۔ تاریخی شعور اور سیاسی مہارت سے محروم‘ حکمران طبقے جب مخالف قوتوں کو بے بسی سے اپنی طرف بڑھتے ہوئے دیکھ رہے تھے‘ تو ہماری قسمت کی لکیریں آنسوئوں میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ وہ حکمران جو اپنے عوام کو حقارت سے دیکھ کر غرایا کرتے تھے‘ دنیا بھر سے ہاتھ جوڑ کر مدد مانگ رہے تھے کہ ''ہمیں بھارتی جارحیت سے بچائو۔‘‘ کیا وہ پاکستانی عوام کے لئے ‘مدد کے طلب گار تھے؟ ہرگز نہیں۔ انہیں اپنے اقتدار کی فکر تھی۔ مشرقی پاکستان کی اکثریت کو اقتدار کی طرف بڑھتے دیکھ کران پر لرزہ طاری ہو گیا تھا۔ انہیں ڈر تھا کہ مشرقی پاکستان کی قیادت ‘ عالمی رائے عامہ کی ہمدردیوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے غلبہ حاصل نہ کر لے۔ جمہوری پاکستان میں عوامی لیگ کی بالادستی ‘ پاکستان کے روایتی حکمرانوں کو ‘گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دے گی۔ ہتھیار پھینکنے کا فیصلہ ‘مشرقی پاکستانیوں کی اکثریت کی حکومت کے خوف سے کیا گیا۔ بنگالیوں نے بھی سوچ لیا تھا کہ اگر انہیں پاکستان کے روایتی حکمران طبقوں سے اقتدار لینا پڑا‘ تو وہ کبھی جمہوری اصولوں کو تسلیم نہیں کریں گے۔ پاکستان جس بحران میں داخل ہو گیا‘ مشرقی پاکستان کی سیاسی قیادت کو اندیشہ تھا کہ وہ اس بحران سے نکلنے کی کوشش میں ‘ کہیں خود نہ ڈوب جائے۔
اسلام آباد کے حکمران‘ اقتدار کے مزے لینے کے شوق میں وہی کچھ کریں گے‘ جو عاقبت نااندیش حکمران کیا کرتے ہیں۔ اس وقت وہ پنجاب کی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے چھوٹے صوبوں کے عوام پر بھی‘ اپنا تسلط قائم کرنے کے لئے دائوپیچ لڑا رہے ہیں۔ وہ اپنے محلات میں خوشامدیوں اور کاسہ لیسوں کے مشوروں کے نشے میں بدمست ہو کرسندھیوں ‘ بلوچوں اور پختونوں کو اسی نظر سے دیکھ رہے ہیں‘ جس نظر سے ان کے پیش رو‘ مشرقی پاکستانیوں کو دیکھا کرتے تھے۔ انہیں اپنی فوجی طاقت پر ناز تھا اور غریب بنگالی ‘انہیں حقیر مخلوق نظر آتے تھے۔ ان کے لباس سے انہیں بدبو آتی تھی۔ وہ شاہی دربار کے طور طریقوں سے ناآشنا تھے۔مجھے آج بھی اسی طرح کے سین دوبارہ دکھائی دے رہے ہیں۔ اگر آپ گزشتہ چند ہفتوں کے مناظر کو یاد کریں تو آپ کو مظلوم رعایا کے ساتھ ‘ مغرور حکمرانوں کا سلوک ضرور یاد آ جائے گا‘ جو آج بھی پسماندہ معاشروں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ سندھ کے منتخب قائدین ‘ بادشاہ سلامت کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی عرضداشت پیش کرنا چاہتے ہیں۔ انہیں ملاقات کا وقت ہی نہیں دیا جاتا۔ پاکستان کے وزیرداخلہ بھی‘ اپنے باس سے کم نہیں۔ وہ بھی سندھ کے عوامی نمائندوں کو‘ خاطر میں نہیں لاتے۔ کوئی بھی کمیونٹی اپنے لیڈروں کی کھلی بے عزتی برداشت نہیں کرتی۔ کمزور کے ساتھ متکبرانہ سلوک فراموش نہیں کیا جاتا۔ بے شک سندھ کے عوام بہت غریب اور وڈیروں کے سامنے بے بس ہیں اور خود ان کے دلوں میں‘ اپنے وڈیروں کے لئے خیرسگالی کے خاص جذبات بھی نہیں پائے جاتے۔ لیکن جب ایک قومیت کا دوسری قومیت کے حکمرانوں سے واسطہ ہو‘ تو پھر کمزور قومیت بھی‘ طاقت پکڑنے لگتی ہے۔ وہاں برسرپیکار لوگ بھی اپنے اختلافات بھول کر اکٹھے ہونے لگتے ہیں۔ جلد ہی آپ کو ایسا ہوتے ہوئے دکھائی دینے لگے گا۔ سندھی اور مہاجر‘ ایک ہی پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو کربالادست قوتوں کے سامنے کھڑے ہوتے دکھائی دیںگے اور یاد رکھیے‘ سندھ کسی بھی اعتبار سے اپنے ملک کے دوسرے صوبوں سے کم تر نہیں۔ آج ان کے لیڈر‘ جاگیردارانہ اور دقیانوسی خیالات رکھتے ہیں۔ لیکن نہیں بھولنا چاہیے کہ سندھیوں اور مہاجروں کی نئی نسل‘ مختلف علوم و فنون میں مہارتیں حاصل کر رہی ہے۔ وہ وقت بھی دور نہیں‘ جب سندھ کے اپنے ماہرین وہاں کے قدرتی خزانوں سے فیضیاب ہونا شروع کر دیں گے۔ کراچی کی بندرگاہ ‘ ان کے لئے سونے کی چڑیا کا درجہ رکھتی ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ کلکتہ اور ممبئی کی بندرگاہیں ‘ کراچی کی نسبت وہاں کے صنعتی مراکز سے بہت دور ہیں۔ سیاسی اور جغرافیائی صورتحال‘ ڈرامائی تبدیلیاں پیدا کر دیا کرتی ہے۔ سندھیوں کے داخلی تضادات سے ‘ پاکستان کے حکمرانوں کو فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کرنا چاہیے۔ ورنہ یہ کوشش بھارت کے حکمران بھی کر سکتے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ مہاجروں کو ''را‘‘ کے ایجنٹ کہتے کہتے‘ انہیں واقعی ''را‘‘ کا ایجنٹ نہ بنا دیا جائے۔ ہمارے مغرور حکمرانوں کو‘ تاریخ کے تھپیڑوںکی لپیٹ میں آنے سے پہلے پہلے‘ حقائق کا ادراک کر کے‘ چھوٹی قومیتوں کو حقیقی انصاف اور ان کے حقوق دینے کا عمل شروع کر دینا چاہیے۔
ایک اور آتش فشاں ہمارے شمال مغربی صوبوں میں جنم لے رہا ہے۔ اسلام آباد کے حکمرانوں نے پاک چین اقتصادی راہداری پر‘ اپنی اجارہ داری قائم کرنے کے جو ارادے کر رکھے ہیں‘ یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ متاثرین‘ ان سے بے خبر رہیں گے۔ سندھ اور خیبرپختونخوا کے عوام‘ صدیوں سے
اچھے وقت کے انتظار میں تھے۔ قیام پاکستان کے بعد انہیں یہ موقع ملا۔ مگر وہ حکمرانوں کی بالادستی سے نجات حاصل نہیں کر سکے۔ بلوچستان میں تو ابھی تک انصاف اور انسانی آزادیوں کے لئے گولیاں چل رہی ہیں۔ پاکستان کے حکمران انہیں وہ حکم دینے کو تیار نہیں‘ جن کے وہ طلب گار ہیں۔ یہی صورتحال خیبرپختونخوا کی ہے۔ دونوں صوبوں کے عوام کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اقتصادی راہداری کیا اہمیت رکھتی ہے؟ اور اس کی تکمیل کے بعد وہاں کے عوام‘ سرداروں اور خوانین کو کیا کچھ ملنے والا ہے؟ فی الحال وہ ان ناانصافیوں کا ذکر نہیں کرتے‘ جو ان کے خیال میں شروع ہو چکی ہیں۔ میں نے ان دونوں صوبوں کے لوگوں کے خدشات سن رکھے ہیں۔ مجھے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ راہداری کے اصل منصوبے کا مسودہ‘ مقامی نمائندوںسے خفیہ رکھا گیا ہے۔ گزشتہ دنوں مسلسل مطالبوں کے بعد‘ جب حکومت نے یہ مسودہ سینیٹرز کے مطالعے کے لئے‘ ایوان بالا کے چیئرمین کے سپرد کیا‘ تو طریقہ کار انتہائی حیرت انگیز تھا۔ جب وزیرصاحب نے چیئرمین کو اس منصوبے کا مسودہ دیا‘ تو وہ سیل بند تھا اور کہا گیا کہ جو سینیٹر اسے پڑھنا چاہے‘ اسے کہیے کہ چیئرمین کے چیمبر کے کسی حصے میں بیٹھ کر‘ اسے پڑھ لے۔ لیکن لے جانے کی اجازت نہ دی جائے۔ اقتصادی راہداری کے سارے منصوبے کی بنیاد‘ گوادر کی جغرافیائی پوزیشن ہے۔ اقتصادی راہداری کی 70فیصد اہمیت‘ بلوچستان کے محل وقوع سے ہے اور اس کے مالک وہاں کے بلوچ اور پختون عوام ہیں۔ان دونوں کے ذہنوں میں شکوک جڑ پکڑ رہے ہیں کہ اقتصادی راہداری کے اصل روٹ کو بدل کر پنجاب کی طرف کیا جا رہا ہے۔ چند انتخابی حلقوں میں ڈنڈا چلا کر جیت لینا آسان ہے۔ لیکن ایک بین الاقوامی منصوبے پر ڈنڈی مارنا معمولی بات نہیں۔ چین کو گوادر اور وہاں سے سنکیانگ تک سڑک کا راستہ چاہیے۔ یہ چین کی بنیادی ضرورت ہے۔ بلوچستان کے عوام اس اہمیت سے اچھی طرح واقف ہیں۔ چینی یہ بھی جانتے ہیں کہ بلوچستان کے عوام کی رضامندی کے بغیر‘ راہداری کا منصوبہ مکمل نہیں ہو سکتا۔ یہی صورتحال خیبرپختونخوا میں ہے۔ شاید حکمرانوں کویہ خبر نہیں دی گئی کہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے عوام نے اس راہداری سے کیا کیا توقعات وابستہ کر رکھی ہیں؟ اگر کوئی ان کے خوابوں کے اندر جھانک کر دیکھے‘ توان کی امیدوں کے پھول‘ تاحدنظر لہراتے نظر آئیں گے۔ پنجاب اور پاکستان نے ان دونوں صوبوں کو ردی کی ٹوکری میں پھینک رکھا تھا۔ اسلام آباد کے حکمران‘ سپرپاورز کی کشمکش میں‘ بلوچستان کو ایک پتے سے زیادہ حیثیت نہیں دیتے تھے۔ چین کے عظیم منصوبے کو دیکھ کر ان کی رال ٹپکنا شروع ہوئی ہے۔ مگر یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ راہداری پر جتنا حق ‘ان دونوں صوبوں کے عوام کا ہے‘ کسی اور کا نہیں۔سمجھنے والے کو بس اک اشارہ کافی ہے۔