''کارلائل گریٹ مین (ہیروز) تھیوری کا خالق تھا۔ اس نے ہیروز کی جو خصوصیات بتائی ہیں ان پر ماؤ‘ سٹالن ‘ہٹلر اور مسولینی خوب پورے اترتے ہیں۔ اس نے آزادی، مساوات، اور انصاف کے تصورات کا مذاق اڑایا اور سب سے بڑی قدر طاقت و اقتدار کو قرار دیا۔ اس نے آزادی کا حق صرف ہیروز کے لئے مخصوص کیا اور باقی افراد کے لئے اس کا کہنا تھا کہ وہ ہیروز کے حضور سرنگوں ہو جائیں۔ وہ کہتا تھا کہ ہیروز اور عام لوگ برابر نہیں ہو سکتے۔ جس طرح ہیرو ‘دوسرے افراد پر حکومت کرتے ہیں اسی طرح ہیرو نسلیں بھی ‘دوسری کمتر نسلوں پر حکومت کرتی ہیں۔ انصاف قانون کی نظر میں برابری نہیں بلکہ انصاف ہیروز (عظیم افراد ) کا ارادہ و حکم ہے۔ اس نے سینکڑوں صفحات پر محیط تحریریں لکھیں ‘جن میں اس نے اس حکومت کی تعریف کی، جس سے لوگ ڈریں۔ اس نے لکھا کہ جنگیں‘ انقلاب ‘حملے ‘ تغیرات اور اکثریت پر جبر‘ زندگی کا حصہ ہے۔ فاشزم کو سمجھنے کے لئے آئیے ذرا تفصیل سے کارلائل کے خیالات کو سمجھتے ہیں تاکہ ہم اپنے عہد میں بھی فاشسٹ نظریات کی شناخت کر سکیں اور خود کو بھی کھنگال لیں کہ کہیں ہم اپنے رویوں اور نظریات و عقائد میں فاشسٹ تو نہیں؟
اس نے سب سے زیادہ لبرلز پر تنقید کی‘ خاص طور پر جان سٹارٹ مل اور ایڈم سمتھ‘ اس کی بدزبانی کا نشانہ بنے۔ اس نے ایڈم سمتھ کی Pin فیکٹری (مارکیٹ کے عمل کو سمجھانے کے لئے ایک کلاسیکل مثال) کا مذاق اڑایا اور کہا کہ ''سب سے گھٹیا کام پیداواری محنت ہے اور سب سے اعلیٰ کام جنگیں لڑنا اور انقلاب برپا کرنا ہے۔ آخر معاشرہ کی تخلیقی صلاحیت کو‘ جنگ میں کیوں نہ استعمال کیا جائے؟ بجائے اس کے کہ اس سے سوئیاں بنائی جائیں۔ آخر بجائے جنگ کے سوئیاں بنائے میں کیا جمالیات ہے؟‘‘ اس نے خود کو مطلق العنانی کا پیغمبر کہا اور کہا کہ میں‘ ہر اس چیز کی مخالفت کرتا ہوں جسے لبرل مانتے ہیں۔ یاد رہے کہ وہ سوشلسٹ بھی نہیں تھا اور مارکس نے اپنے عہد میں اسے ذرہ برابر بھی اہمیت نہیں دی تھی۔
اسے سب سے زیادہ غصہ‘ فری مارکیٹ معیشت پر تھا۔ اسی نے سب سے پہلے لکھا کہ اکنامکس ایک dismal (ہولناک، مایوس کن ) سائنس ہے۔ اسی سبب ‘وہ مارکیٹ کی پیداواری سرگرمیوں کو نفرت سے دیکھتا تھا اور کہتا تھا کہ یہ ذہانت اور محنت ‘جنگوں میں اور حکومت کرنے پر کیوں نہیں صرف کی جاتی؟
فری مارکیٹ کیپیٹل ازم سے اس کی نفرت کی دوسری وجہ ‘غلامی کا خاتمہ ہے۔ چونکہ وہ بادشاہت اور جاگیرداری کا حامی تھا ‘اس لئے وہ فرد کی معاشی آزادی کو نفرت سے دیکھتا تھا۔ اس کے عہد میں بادشاہت کا خاتمہ ہو رہا تھا۔ سیاسی سماجی اور معاشی آزادی حاصل ہو رہی تھی۔ اس کے نزدیک اس سب خرابی کی وجہLaises Faireمعیشت ہے جو تمام آزادیوں کو جنم دے رہی ہے۔ اس نے کہا کہ مساوات نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ اصل بات یہ ہے کہ حکمران طبقہ کو دوبارہ اختیارات اور طاقت دی جائے اور جو مضبوط اور طاقت ور ہے ‘وہ سیاسی سماجی اور معاشی زندگی کو کنٹرول کرے۔اسے پورا کیپیٹل ازم مضحکہ خیز لگتا تھا‘ جس کا اظہار اس (کارلائل)نے بار بار کیا۔ اس نے کیپیٹل ازم کے اصولوں ‘جیسے آزادی، عالمگیر بنیادی حقوق اور ترقی کا مذاق اڑایا۔ وہ کہتا تھا: ''یہ کیسا معاشرہ چاہتے ہیں‘جو مساوی آزادی دیتا ہو؟ جس میں کوئی آقا اور غلام نہیں۔ سب کے برابر حقوق ہیں۔ سوسائٹی کی معیشت پر کسی کا کنٹرول نہیں بس‘ ڈیمانڈ اور سپلائی معیشت کو منظم کرتی ہے۔ لوگ کسی حکم کی پیروی نہیں بلکہ اپنے اپنے سیلف انٹرسٹ (شخصی آرزوؤں) کی جستجو کرتے ہوں۔ جس طرح سیاسی آزادی کے قائل ہیں‘ ویسے ہی معیشت اور سماج کو آزاد دیکھنا چاہتے ہیں‘‘۔ وہ لکھتا ہے: ''میں پوچھتا ہوں کیا یہ احمقانہ بات نہیں، سوائے ہیروز کے کوئی اور بھی درست ہو سکتا ہے ؟ ‘‘
جو گورے نہیں ‘وہ انسان ہی نہیں۔ اگر وہ غلام نہیں تو انہیں مار دیا جائے۔ اس نے کالوں کو دو پاؤں والا جانور قرار دیا۔ اس نے لکھا کہ انکی بس اتنی وقعت ہے کہ انہیں غلام بنا دیا جائے۔
بہترین سوسائٹی وہ ہے جس میں اشرافیہ کی بالادستی ہو۔ عام لوگ تو رعایا بننے کے لئے پیدا ہوتے ہیں ان میں self determination اور self responsibility کہاں؟
اپنے عہد میں اس کا ہیرو نپولین تھا۔ اس نے کہا کہ ہیرو جیسا کہ نپولین ‘پیدا ہی اس لئے ہوتے ہیں کہ حکومت کریں۔
لبرل ازم ‘فرد پر سوسائٹی اور ریاست کے جبر کا قائل نہیں۔ وہ سوسائٹی کو آزاد دیکھنا چاہتا ہے جس میں خود تنظیمی کی صلاحیت ہو اور حکومت و ریاست ‘بطور ایک سماجی ادارہ کے ‘اپنی حدود میں رہ کر کام کریں۔ یوں لبرل ازم میں ‘سوسائٹی کو ڈیزائن یا کنٹرول کرنے کی گنجائش ہی نہیں۔ وہ لبرل ازم کے اس موقف پر چڑتا اور کہتا تھا ''فرد کیا ہے؟ فرد کچھ بھی نہیں۔ فرد کے حقوق نہیں ہوتے‘ اس کے فقط فرائض ہوتے ہیں (یہی بات بار بار ہٹلر اور مسولینی دہراتے تھے) اس کا آزاد ارادہ نہیں ہوتا۔ بس اس نے محض اتباع کرنا ہوتا ہے۔ سوسائٹی پر ریاست کو برتری حاصل ہے کیونکہ ریاست کی کمان ہیرو کے پاس ہوتی ہے۔ سوسائٹی پر اشرافیہ کا غلبہ ہوتا ہے ‘جو ہیرو کی کمانڈ پر رعایا سے کام لیتے ہیں‘‘۔
فاشزم اور لبرل ازم میں‘ زمین و آسمان کا فرق ہے۔ ایک ریاستی آمریت اور ہیروازم پر قائم ہے‘ تو دوسرا شخصی آزادیوں، آزادی میں مساوات اور بنیادی انسانی حقوق کی اساس پر قائم قانون کی حکمرانی کا قائل ہے۔ دونوں کو ملانا ناممکن ہے۔ ایک لبرل ‘فاشسٹ نہیں ہو سکتا اور ایک فاشسٹ‘ لبرل نہیں ہو سکتا۔
ریاستوں کا عمومی رجحان فاشسٹ ہوتا ہے جیسے پاکستان کا ریاستی جبر بلوچستان اور فاٹا پر، بھارت کا کشمیر اور تامل ناڈو پر، چین کا سنکیانک پر، امریکہ کی خارجہ پالیسیاں، ایران کا سنی آبادی، دیگر اقلیتوں اور شہریوں پر نظریاتی جبر، سعودیہ کا شیعہ آبادی اور شہریوں پر نظریاتی جبر، اسرائیل کا فلسطین پر اور ترکی، شام، عراق اور ایران کا کردوں پر‘ ایسی بہت ساری مثالیں ہیں۔ جبکہ فرد اور سوسائٹی پر امن ہوتے ہیں، لوگ تعاون و تبادلہ کی اساس پر پرامن زندگی پسند کرتے ہیں۔ نیشن اسٹیٹ کے تصور نے جہاں ایک طرف جمہوریت اور داخلی آزادیوں کی راہ ہموار کی ہے ‘وہیں ان ریاستوں کی خارجہ پالیسیاں، کمزور شناختوں کے لئے داخلہ پالیسیاں اور ریاست کی فرد اور سوسائٹی پر کنٹرول کی کوشش نے جدید فاشزم کو جنم دیا ہے۔
حیران کن بات یہ ہے کہ کارلائل‘ باوجود اپنے متعصب اور ظالمانہ نظریات کے برطانیہ میں بہت مقبول رہا۔ اسی طرح ہٹلر اور مسولینی جمہوری عمل سے‘ باقاعدہ الیکشن جیت کر اقتدار میں آئے۔ جس مقبولیت پسند سیاست سے‘ وہ اقتدار میں آئے اسی طرز کی سیاست امریکہ میں ٹرمپ، ترکی میں اردوان، برطانیہ میں بورس جانسن اور Jeremy Corbyn، بھارت میں بی جے پی اور مودی، روس میں پوتن، اسرائیل میں نیتن یاہو، فلپائن میں Duterte، نیدر لینڈ میں Geert Wilders، ہنگری میںViktor Orbán، پولینڈ میں Jaroslaw Kaczynski ، اور یورپ میں پھلتی پھولتی انٹی امیگرنٹ تحریکیں کر رہی ہیں۔ یہ غیر لبرل (Illiberal) ہیں اور مقبولیت پسند جمہوریت سے ‘اپنے فاشسٹ نظریات کو نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا بیانیہ بھی ہٹلر ‘مسولینی اور کارلائل سے ملتا ہے کہ سیاسی سماجی اور معاشی آمریت نافذ کر کے‘ قوم کو عظیم سے عظیم تر بنایا جائے۔ لبرل ازم سیاست ‘معیشت اور سماج کو ایک دوسرے سے جدا رکھتا ہے۔ لبرل ‘جمہوریت ایک سیاسی بندوبست ہے معاشی یا سماجی نہیں اور اس پر انسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کی کڑی شرط عائد ہے۔ دور جدید میں، لبرل ازم کو پھر فاشسٹ نظریات سے خطرہ ہے۔ ایک بار پھر میدان سجنے کو ہے مگر ہمارا دانشور لبرل فاشسٹ کی اصطلاح متعارف کروا کر نہ صرف اپنے خول میں قید ہے بلکہ اپنی لاعلمی اور بے خبری کی باقاعدہ تصویر بنا کر اپنے قارئین کو گمراہ کر رہا ہے۔‘‘