"NNC" (space) message & send to 7575

جیسے کو تیسا

میر حاصل بزنجو نے اپنی ویران آنکھوں سے خون میں بھیگی مٹی کی طرف دیکھتے ہوئے طویل آہ بھرکر کے کہا''میرے صوبے میں جو چند پڑھے لکھے لوگ رہ گئے تھے‘ سارے کے سارے شہید ہو گئے۔‘‘ بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر‘ بلال انور کاسی نے سب سے پہلے گولی کھائی اور پھر ایک کے بعد ایک وکیل بم کے ٹکڑوںکا ہدف بنتا چلا گیا۔ یہ دہشت گرد شیطان کی اولاد ہیں۔ وہ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کے لئے نت نئے طریقے سوچتے ہیں۔ لگتا ہے کہ وہ شیطان سے بھی بدتر کوئی چیز ہیں‘ جو انسانی خون پر پلتی ہے۔ کہیں یہ مذہب کا سہارا لیتے ہیں۔ کہیں ذاتی یا اجتماعی تذلیل کا حساب چکانے کا بہانہ گھڑتے ہیں۔ کہیں فرقہ ورانہ نفرتوں کی آڑ لیتے ہیں۔ چھ سال پہلے کوئٹہ کے سول ہسپتال میں پیر کی صبح جیسا ہی ایک منظر تھا‘ جب ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے ایک تاجر کی ہلاکت کے بعد ‘ ان کی کمیونٹی کو نشانہ بنایا گیا۔ کہیں کوئی جنازگاہ ہو‘ کھیل کا گرائونڈ‘ مصروف بازار‘ دہشت گردی بھی ایک دائمی مرض کی طرح ہے‘ جو چند روز کے لئے اوجھل ہو جاتا ہے اور اچانک کسی مرض کے دورے کی طرح پھر سے نمودار ہوتا ہے اور انسان کے اوسان خطا کرکے‘ ان پر چھا جاتا ہے۔ گزشتہ دو عشروں کے دوران یہ مرض بار بار نمودار ہوا۔ کبھی یہ پولیس کو نشانہ بناتا ہے‘ تو کبھی لا کالج کے پرنسپل کو۔ دہشت گرد کبھی نوجوانوں کو باپ جیسی شفقت دینے والے اساتذہ کو نشانہ بناتے ہیں‘ کبھی یہ غائب ہو جاتے ہیں اور کبھی پھر سے انہیں دورہ پڑتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ نارمل انسانوں کو دیکھتے دیکھتے یہ ہوش و حواس گنوا بیٹھتے ہیں اور خون اور لاشیں دیکھ کر ان کا مرض پھر سے بیدار ہو جاتا ہے۔ یہ مریضانہ ذہنیت ایک قوم یا ایک ملک تک محدود نہیں ۔ کبھی کسی ملک میں اچانک اس کی لہر اٹھتی ہے اور کبھی کسی شہر میں۔ دہشت گردی کا کوئی ایک جواز یا اس مرض کا ایک مخصوص سبب ڈھونڈا نہیں جا سکتا۔ کبھی پیرس میںگھومنے والے کسی شخص کو اچانک دورہ پڑتا ہے اور وہ بے شمار انسانی جانوں کو اندھادھند تلف کر کے خدا جانے کیا حاصل کرتا ہے؟ کبھی امریکہ کے کسی شہر میں اچانک معصوم بچوں کو گولیوں کا نشانہ بنا دیتا ہے۔ کبھی افریقہ میں نیم برہنہ انسانوں کے پرخچے اڑا کر‘ سکون حاصل کرتا ہے۔ لبیا‘ تیونس‘ شام‘ عراق‘ غرض یہ کہ ملک در ملک لڑیاں سی ہیں‘ جہاں یہ مرض کبھی کسی بہانے اور کبھی کسی عذر کے ساتھ‘ اچانک دل و دماغ پر غالب آتا ہے اور ہوش و حواس گنوا کر‘ غیرانسانی مشاغل میں مصروف ہو جاتا ہے۔ 
بیماری کے جراثیم ہوتے ہیں۔ دیوانگی کے اسباب ہوتے ہیں۔ کہیں خون کی خرابی ہوتی ہے‘ کہیں دماغ کا عارضہ‘ کہیں نسلی جڑیں ہوتی ہیں‘ کہیں تعصبات کی تاریکیاں‘ لیکن بغیر کسی دشمنی‘ وجہ یا عناد کے‘ لوگوںکو اپنے کام کاج میں مصروف دیکھ کر‘ اچانک کسی کو دورہ پڑتا ہے اور وہ اچھا بھلے انسانوں کو اپنے ہی خون میں تڑپتے دیکھ کر خدا جانے کوئی لذت اٹھاتا ہے یا نشے کی حالت سے لطف اندوز ہوتا ہے؟ ایسے انسان اس فعل بد سے کیا حاصل کرتے ہیں؟ ابھی تک دہشت گردی کے مرض کی وجہ تلاش نہیں کی جا سکی۔ اس مرض ‘ دیوانگی‘ دورے یا کسی دماغی بخار کے بارے میں کچھ معلوم نہیں کیا جا سکا۔ کوئٹہ میں جو کچھ ہوا‘ اس کے بارے میں تو کچھ سوچنا بھی محال ہے۔ 
بھارت میں اس نوعیت کے امراض صدیوں سے پائے جاتے ہیں۔ بھارت کے کچھ قبیلے انسانی خون کی بھینٹ چڑھا کر اپنی دانست میں ثواب کماتے ہیں۔ کہیں زندہ انسانوں کو اذیت دے کر لذت محسوس کرتے ہیں۔ کہیں خواتین کو طرح طرح کی اذیتیں دے کر‘ اپنی سمجھ کے مطابق دیوتائوں کو خوش کرتے ہیں۔ کہیں زندہ عورتوں کو ستی چڑھا کر‘ اپنی فہم کے مطابق ثواب کماتے ہیں۔ پوری کی پوری انسانی نسلوں کو زندگی کے حق سے محروم کر کے نیکیاں کماتے ہیں۔ انسانوں کو اذیتیں دینے کے جتنے نئے نئے طریقے ‘ہندو ذہنیت نے دریافت کئے ہیں‘ ان کی دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ مثلاً ہندوئوں کے بہت بڑے طبقے نے ایک پوری انسانی نسل کو اچھوت قرار دے رکھا ہے۔ اس نسل سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی شخص ‘اس نل یا کنوئیں سے پانی تک نہیں پی سکتا‘ جو اونچی ذات والوں کے لئے مخصوص ہو ۔ اگر کوئی اس گناہ کا ارتکاب کر بیٹھے‘ تو اسے اذیتیں دے کر مار دیا جاتا ہے۔ سفارتی آداب کے طور طریقے ایک عالمی کلچر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کسی مخصوص معاشرے کا برے سے برا آدمی بھی‘ جب سفارتی تقریبات میں شرکت کرتا ہے‘ تو وہ اعلیٰ ترین تہذیبی رکھ رکھائو کا پابند ہوتاہے اور سفارتی آداب کی احتیاط سے پابندی کرتا ہے۔ بھارت ‘اقوام عالم میںایک مہذب رکن کی حیثیت میں شمار ہوتا ہے۔ اس کے نمائندے عالمی کانفرنسوں میں جاتے ہیں‘ تو ہر دوسری قوم کی طرح دیکھے جاتے ہیں۔ لیکن گزشتہ روز وہاںکے وزیرداخلہ نے‘ اسلام آباد میں جو حرکت کی‘ وہ کسی بھی انداز میں سفارتی آداب سے مطابقت نہیں رکھتی ۔ عالمی تہذیب میں عام مجلسی آداب سے زیادہ تمیزداری کا مظاہرہ کرنا پڑتا 
ہے۔ مختلف ملکوں نے اس کے لئے باقاعدہ اپنی اپنی پروٹوکول بنائی ہوتی ہے‘ یہاں تک کہ میز پر بیٹھی خواتین کے ساتھ کیا برتائو کرنا ہوتا ہے؟ سگریٹ نوشی کرنا ہو‘ تو کیسے کی جاتی ہے؟ کسی ہال میں داخل ہونا یا نکلنا ہو‘ تو اس کے بھی طوراطوار ہیں۔ کسی خاتون سے آگے نکلنا بدتمیزی میں شمار ہوتا ہے۔ میزبان یا چیف گیسٹ کے ساتھ ایک میز پر کھانے کے طریقے بھی طے شدہ ہیں۔ چیف گیسٹ سے پہلے کوئی مہمان کھانا شروع نہیں کرتا۔ سب سے پہلے چیف گیسٹ کھانے کی ابتدا کرتا ہے‘ اس کے بعد دیگر مہمان اس کی تقلید کرتے ہیں۔ لیکن بھارتی کابینہ کے ایک مکمل رکن ‘راج ناتھ نے جس پروٹوکول کا مظاہرہ کیا‘ وہ بدتمیزی کی سب سے نچلی انتہائوں میں جانے کا مظاہرہ تھا۔ بھارتی وزیرخارجہ کو اگر اچانک بھی جانا تھا‘ تو سفارتی رکھ رکھائو کے مطابق اسے میزبانوں سے غیرمحسوس انداز میں اجازت طلب کرنا چاہیے تھی۔ ایسا وہ کوئی چٹ لکھ کے کر سکتا تھا یا اپنے کسی سٹافر کو بھیج کر اجازت مانگ سکتا تھا۔ غرض یہ کہ عالمی سطح کی ایک بھری محفل سے اچانک اٹھ کر نکل جانے کا کوئی مناسب طریقہ چنا جا سکتا تھا۔ لیکن وزیر کے درجے کا بھارتی مہمان‘ اتنی بدتمیزی سے پائوں پٹختا ہوا تقریب سے باہر جائے گا‘ یہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں آ سکتا۔ حد یہ ہے کہ کسی افریقی قبیلے کا سربراہ بھی ایسی بدتمیزی سے گریز کرتا۔ لیکن بھارت پہلا ملک ہے‘ جس کے وزیرداخلہ نے چند پڑوسی قوموں کی ایک نمائندہ تقریب سے‘ انتہائی بدتمیزی کے ساتھ نکل کر جانے کی جو حرکت کی‘ وہ اپنی مثال آپ ہے۔ لیکن جب آپ اس بدتمیزی پر کسی بھارتی سے سوال کریںگے‘ تو وہ مزیدبدتمیزی سے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی اس غیرمہذب حرکت کا باقاعدہ جواز پیش کرے گا۔ ہمارے سفارت کاروں کو عالمی معیار کے آداب مجلس کا علم ہے۔ وہ یقینا اس کی پابندی کریں گے۔ لیکن راج ناتھ کا قرض اتارنے کے لئے بہرحال ہمیں تیار رہنا چاہیے۔ جب اور جہاں بھی بھارت کسی تقریب کا میزبان ہو اور وہاں ہماری نمائندگی موجود ہو‘ تو یہ فرض ادا کرنے والے نمائندے کی ذمہ داری ہو گی کہ وہ راج ناتھ کا قرض اتارنے کے لئے اسی کی طرح اپنے ذاتی سٹاف کے ساتھ بغیر کسی عذر اور اجازت کے اچانک اٹھے‘ پائوں پٹختا ہوا چلے اور اپنی ٹولی کو کہنیاں اور کندھے مارتا ہوا‘ باہر نکل جائے۔ بے شک یہ ایک غیرمہذب حرکت ہوگی لیکن بھارت اسی کا حق دار ہے۔ اس طرح کے لوگوں سے یہ امید رکھنا کہ وہ باقاعدہ منصوبے کے تحت ایسی حرکات کریں گے‘ جس کا مظاہرہ کوئٹہ میں خو ن بہا کر کیا گیا۔ ذہنی اور تہذیبی پستی‘ ہمارے باہمی میل ملاپ کا طے شدہ انداز ہونا چاہیے۔ اب کیا کریں؟ جیسے لوگوں سے واسطہ ہو‘ ان کے ساتھ وہی برتائو کرنا چاہیے‘ جس کے وہ حق دار ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں