مجھے نہیں یاد‘ پاکستان میں دہشت گردی ختم کرنے کے لئے کتنے منصوبے بنائے گئے؟ کتنی کانفرنسیں کی گئیں؟ کتنے ادارے معرض وجود میں آئے؟ کتنی تنظیمیں بنائی گئیں؟ ان گنت اداروں کے قیام‘ لاتعداد کوششوں اور بے شمار نئے نئے عہدے تخلیق کر کے‘ افسروں کی بھرتی کے بعد بھی نتیجہ 8اگست 2016ء کے سانحے کی صورت میں سامنے آیا‘ جو دہشت گردی میں ہماری قومی تاریخ کا بدترین سانحہ ہے۔ ہم نے اپنے ماہرین کی کانفرنسوں اور اجلاسوں میں‘ کروڑوں اربوں روپے کا قیمتی وقت صرف کر کے جو حاصل کیا‘ وہ 8 اگست کو قوم کے سامنے آ گیا۔ بلوچستان میں قانون دانوں کی ایک پوری نسل کی شہادت دے کر ہم نے جو پایا‘ اسے علی احمد کرد نے ایک جملے میں یوں بیان کر دیا ''یہ ریاست‘ ایک گروپ فوٹو ہے۔‘‘ حاصل بزنجو نے اپنے اسی دکھ اور کرب کو ان الفاظ میں بیان کیا ''ہم تو اپنے قانون دانوں کی پوری نسل گنوا بیٹھے۔‘‘ ہم نے دہشت گردوں کے خاتمے کے لئے ‘کتنے منصوبے بنائے؟ کتنے ادارے قائم کئے؟ کتنے ماہرین کی خدمات حاصل کر کے‘ انہیں کتنی تنخواہیں اور فیسیں دیں؟ حاصل کیاکیا؟ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور قومی اثاثوں میں شمار ہونے والے 73 اعلیٰ ترین دماغوں کی شہادتیں اور زخموں سے بھرے 80کراہتے جسم؟ یوں تو پاکستان کی تمام کی تمام ریاست ہی ایک مسلسل فوٹو سیشن ہے۔ ادارے بنتے ہیں‘ تو ایک فوٹو سیشن۔ سینٹ اور اسمبلیاں بنتی ہیں‘ تو مزید فوٹو سیشن۔ درس گاہیں بنتی ہیں تو ہر نئی درس گاہ‘ معیار تعلیم کی مزید پستیوں کے ساتھ نئے نئے فوٹو سیشن۔ پی آئی اے‘ فوٹو سیشن۔ نیشنل ایکشن پلان‘ فوٹو سیشن۔ کل جماعتی کانفرنسیں‘ فوٹوسیشن۔ غرض ہماری پوری کی پوری کارکردگی ہی چند فوٹوسیشنوں کے سوا کچھ نہیں۔ لیکن ان فوٹوسیشنوں پر ہمیں کیا دینا پڑا؟ اربوں ڈالر؟ جو ہم نے قرض میں لئے اور ہماری آئندہ نسلوں کو ادا کرنا پڑے گا۔ دنیا بھر کے خفیہ بنکوں میںاربوں ڈالر کی ''خیانتیں ‘‘؟ یہ ہے وہ سرمایہ اور ہنرمندی‘ جو ہم نے 69سال میں حاصل کی۔
ہمارے ساتھ اور ہمارے بعد‘ دنیا میں درجنوں ریاستیں آزاد ہوئیں۔ ان میں کئی ایک نے کرپشن میں ہم سے زیادہ نام کمایا۔ کچھ نے ہمسری کی اور کچھ ہم سے آگے بڑھ گئیں۔ سنگاپور‘ ہانگ کانگ‘ چین‘ بھارت‘ ملائشیا‘ غرض اپنی ہم عمر کامیاب ریاستوں کی گنتی کریں‘ تو رشک آتا ہے۔ کھیلوں کی دنیا میں ہمارے المیے کی داستان اور بھی دردناک ہے۔ جب پاکستان بنا‘ تو ہم متعدد کھیلوں میں نمایاں تھے۔ کرکٹ میں ہماری ٹیم دنیا کی چند بہترین ٹیموں میںشمار ہوتی تھی۔ ہاکی میں ہم اولمپک چیمپئن رہے۔ سکواش میں ہم نے برسوں دنیا کی قیادت کی۔ اس کے بعد ہم نے ہر کھیل کی ترقی کے لئے بھاری رقوم صرف کیں۔ اربوں روپے اچھے کھلاڑیوں کی بہتر تربیت پر لگائے۔ مگر آج ہم کہاں ہیں؟ چند گروپ فوٹوز۔ یہ ہے ہماری غریب قوم کے خون پسینے کی کمائی کا انجام؟ سیاستدان سب سے مہنگی پیداوار ہے‘ جو ہم نے حاصل کی۔ جب پاکستان بنا‘ تو ہمارے پاس قائد اعظم محمد علی جناحؒ‘ حسین شہید سہروردی‘ نوابزادہ لیاقت علی خان‘ خان عبدالغفار خان‘ عبدالصمداچکزئی‘ ذوالفقار علی بھٹو‘ میاں محمود علی قصوری‘ مولانا بھاشانی اور میاں افتخار الدین تھے۔ انسانی خدمت کے شعبے میں جائیں تو عبدالستار ایدھی بھی اتنا قدآور ہے کہ دوسرے بہت کم اس کے ہم پلہ دکھائی دیں گے۔ ان گنت شعبے ہیں اور ہمارے ان گنت ہیرو۔ انہیں گننا شروع کریں‘ تو پاکستان ہر شعبے میں دنیا کے ممتاز ملکوں میں کھڑا نظر آتا ہے۔ آج اپنی جھولی میں جھانکیں‘ تو ہمارے پاس کیا ہے؟ جس شعبے پر نظر ڈالیں‘ ہم ماضی کی نسبت تہی دست ہیں۔ ہمارے پاس کچھ بھی نہیں۔ بے شمار دہشت گرد ہیں‘ جن کی پرورش پر ہماری لامحدود عوامی دولت خرچ ہو رہی ہے اور اس سے کئی گنا زیادہ دہشت گردی کے خاتمے پر قومی خزانے سے لٹایا جا رہا ہے اور حیرت کی بات یہ ہے کہ جتنا کچھ ہم دہشت گردی کے خاتمے پر خرچ کرتے ہیں‘ اس سے کہیں زیادہ دہشت گردی میں اضافے پر خرچ ہو رہا ہے۔ سکولوں کا جو معیار آزادی کے وقت تھا‘ آج اس سے کہیں زیادہ پست ہے۔ جیسے سکول‘ ویسی تعلیم۔ کسی بھی شعبے پر نظر ڈال کے دیکھیں‘ ہم ایک میں ہی سرفہرست ہیں اور وہ ہے کرپشن۔ دولت مندوں میں جو نمایاں دکھائی دیتے ہیں‘ ان میں سے جائز دولت والے صرف انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں اور اس سے بھی زیادہ اذیت ناک حقیقت یہ ہے کہ ناجائز ذرائع سے دولت مند بننے والے ان گنت ہیں اور جائز ذرائع سے دولت کمانے والے محض چند۔
آج کی دنیا میںچند ہی شخصیتیں ہیںجو ذہن‘ ہنرمندی‘ ایجادات ‘ مہارتوں‘ امتیازی خصوصیات اور غیرمعمولی خوبیوں کے ذریعے عزت اور دولت حاصل کرتی ہیں۔ ان میں بل گیٹس سرفہرست ہے۔ وہ دولت کی وجہ سے ہی ممتاز نہیں‘ غیرمعمولی خوبیوں میں بھی قد آور ہے۔ دنیا میں لاکھوں بچے پولیو کے مرض سے لقمہ اجل بن جاتے تھے۔ بل گیٹس نے اس جان لیوا مرض سے دنیا کو نجات دلانے کے لئے خود ایک دوا ایجاد کرائی اور اپنے خرچ پر ‘ آنے والی تمام نئی انسانی نسلوں کے لئے اس کی مفت فراہمی کا بندوبست کر دیا۔ وہ یہ دوا ‘ یو این کے ذریعے تقسیم کرتا ہے اور مستقل اس کھوج میں رہتا ہے کہ دنیا کے کسی ملک میں کوئی بچہ پولیو کا مریض تو نہیں؟ مسلمانوں کی کئی شخصیتیں دولت مندی میں بل گیٹس سے بڑھ کر ہیں‘ خصوصاً تیل کے ذخیروں کے مالک مسلمان۔ ہمارا دین پہلا سبق یہ دیتا ہے کہ کمزوروں ‘ غریبوں اور معذوروں کی مدد کرو۔ لیکن یہ امتیاز کسی مسلمان کو حاصل نہیں ہوا۔ یہ عزت ایک غیر مسلم نے حاصل کی۔ ہمارے وزیراعظم نے آج ہی دہشت گردی کے خلاف کام کرنے والوں میں جن قابل ذکر شخصیات کا ذکر کیا‘ ان میں جناب آصف زرداری بھی شامل ہیں۔ یہاں پر جناب وزیراعظم نے یقینا اپنی پوری قوم کو لاجواب کر دیا۔ یہ بھی دن دیکھنا تھے کہ دہشت گردی کے خلاف قومی خدمات انجام دینے والوں میں‘ جناب آصف زرداری کا نام بھی عزت سے لیا گیا۔ ان کی عزت افزائی کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے دبنگ وزیر ‘چوہدری نثار بھی ہنس پڑے۔ لیکن ساتھ ہی یہ عہد بھی کیا کہ انہوں نے زندگی میں پہلی اور آخری بار آصف زرداری کی تعریف کی۔ زور کس پر ہوا؟ آصف زرداری پر۔ تقریر کا موضوع یہ تھا کہ دہشت گردی کا خاتمہ ہونا چاہیے اور تعریف کے حق دار کون ٹھہرے؟ جناب آصف زرداری۔ دہشت گردی کے خلاف حکومتی کارروائیوں کی تفصیل سنتے ہوئے میں صرف ایک موازنہ کر رہا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف متعدد مہمات شروع کرنے سے پہلے‘ دہشت گردی کی کتنی وارتیں ہوتی تھیں؟ اور اربوں روپے خرچ کر کے متعدد مہمات کے نتیجے میں کتنی؟ شہادت پانے والوں کی گنتی اور اخراجات کا موازنہ کر کے دیکھ لیں کہ دہشت گردی کے نتیجے میں مرنے والے ایک شہری پر قوم نے کتنا خرچ کیا؟ اور بچ رہنے والے پر کتنا؟ کیوں نہ کوئٹہ کا حساب لگا کر دیکھ لیں؟ تین سال کے دوران کوئٹہ میں کتنے شہریوں کی جانیں بچائی گئیں؟ اور کتنے خرچ پر کتنے شہری شہید کرائے گئے؟ ایک شہری کی شہادت کتنے میں پڑی؟ اور ایک شہری کتنے خرچ میں بچایا گیا؟