عہد حاضر میں دو قوموں کی اجتماعی بہادری کی مثال دینا مشکل ہے۔ ایک فلسطینی ہیں‘ جو امریکہ‘ برطانیہ‘ فرانس‘ روس اور دیگر تمام ترقی یافتہ قوموں کے اجتماعی حملے کے سامنے سینہ تانے کھڑے ہیں۔ دنیا کا کونسا اسلحہ ہے‘ جو ان کے خلاف استعمال نہیں ہوا؟ کونسا ممنوعہ کیمیاوی یا زہریلا ہتھیار ان پر نہیں آزمایاگیا؟ مختصر یہ کہ نصف صدی سے فلسطینیوں نے بے شمار اذیتیں‘ تکالیف‘ نرغے اورپابندیاں برداشت کیں۔ وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ان کے بہت بڑے ملک کی توڑپھوڑ کرکے‘ چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا گیا اور ہر ٹکڑے میں رہنے والے علیحدہ علیحدہ جنگی جرائم کا شکار ہیں۔ بیت اللحم جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جائے پیدائش ہے‘ بدبخت یہودیوں نے وہاں کے باشندوں کو بھی ناقابل تصور گھیرے میں لے رکھا ہے اور جب چاہتے ہیں‘ حصار میں آئے ہوئے اس چھوٹے سے قصبے پر حملہ کر دیتے ہیں۔ غزہ کے پانچ شہروں پر
مشتمل ریاست اور اس کا وہ بدنصیب شہر‘ جس کے رہائشی علاقوں پر دنیا کے جدیدترین جنگی طیاروں ایف16 کے ذریعے بمباریاں کی جاتی ہیں‘ اس ٹوٹی پھوٹی ریاست کی بدقسمتی یہ ہے کہ دنیا میں کوئی قوم یا قوموںکا گروپ‘ فلسطینیوں کو جنگی جرائم سے بچانے کے لئے موثر آواز نہیں اٹھاتا اور ان کے سامنے مستقبل کا کوئی تصور ہے نہ امید۔
مجھے یہ سب کچھ یاد اس لئے آیا کہ ہمارے کشمیری بھائیوں کی ایک امید باقی ہے اور وہ ہے ان کی ریاست کا مستقبل‘ جس کو یو این نے تسلیم کر رکھا ہے اور سلامتی کونسل کی ان قراردادوں کو بھی مان رکھا ہے‘ جن میں آزادی سے پہلے کی ریاست جموں و کشمیر کے باشندوں کو ‘حق خود ارادیت دیا گیا ہے۔کشمیر کی موجودہ عارضی سرحد کو کسی نے بھی مستقل نہیں مانا۔ بھارت کی متعدد حکومتوں نے بارہا کوشش کی ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کو بھارت کا حصہ بنایا جائے۔ لیکن ہر بار اسے منہ کی کھانا پڑی۔ بھارت کے اس مذموم ارادے کی سب سے زیادہ مزاحمت خود کشمیریوں نے کی‘ جو بھارت کے مقبوضہ علاقے میں قید ہیں۔ میں بڑے دکھ کے ساتھ لکھنے پر مجبور ہوں کہ کشمیریوں کو ‘ ان کے نام نہاد ہمدردوں نے موجودہ حالت میں پہنچایا۔ پاکستان جو تنازعہ کشمیر میں برابر کا فریق تھا‘ اس کے احمق اور نادان شہریوں نے‘ حکومت پاکستان کی اجازت کے بغیر کشمیر پر اس وقت حملہ کر دیا‘ جب وہاں بھارتی فوجیں نہیں اتری تھیں۔ اس وقت تک بھارت ‘ یو این کی قراردادوں کے ذریعے پابند تھا کہ وہ کشمیر کے کسی بھی حصے میں اپنی فوجیں نہ اتارے اور استصواب رائے کے بندوبست کے لئے امن و امان قائم رکھنے کی خاطر‘ ریاست میں محدود سی شہری فورس رکھے‘ جو مقامی باشندوں کے مابین تنازعات پر قابو پا سکے۔ اس شرط کے تحت‘ بھارت پر یہ عالمی پابندی عائد تھی کہ وہ مقبوضہ کشمیر کے کسی بھی حصے میں اپنی مسلح افواج نہیں اتار سکتا۔ اس پابندی نے بھارت کو مجبور کر رکھا تھا اور وہ بہانوں کی تلاش میں تھا کہ کسی نہ کسی طرح ‘اسے کشمیر میں فوجیں اتارنے کا عذر مل سکے۔ پاکستان کی طرف سے کچھ احمق فوجی افسروں نے‘ بلااجازت کشمیر کے اس حصے پر حملہ کر دیا‘ جو مہاراجہ کے کنٹرول میں تھا۔ اس حملے کی آڑ میں‘ مہاراجہ نے بھارت سے مدد مانگ لی۔ جبکہ وہ نام نہاد مجاہدین جو کشمیر کو آزاد کرانے نکلے تھے‘ اپنی فتوحات کے ساتھ‘ لوٹ مار پر زیادہ توجہ دے رہے تھے۔ افراتفری کی حالت میں وہ سری نگر کے ہوائی اڈے تک پہنچ گئے۔ ان کے پاس نہ کوئی فوجی حکمت عملی تھی اور نہ کوئی منصوبہ ساز ۔ وہ سری نگر کے ہوائی اڈے سے ہوتے ہوئے شہر میں داخل ہو گئے اور بھارت نے خالی ایئرپورٹ پر اپنی فوجیں اتار دیں اوریہیں کشمیریوں کی بدنصیبی پر مہر لگ گئی۔ بھارت نے مہاراجہ کو ساتھ ملا کر ریاست جموں و کشمیر کے بڑے حصے پر قبضہ جما
لیا۔ لداخ اور جموں پہلے ہی غیرمسلموں کے کنٹرول میں تھے۔ وادی پر بھارت نے فوجی قبضہ کر لیا۔ پاکستانی حکومت سلامتی کونسل کی قراردادوں کو بنیاد بنا کر‘ اقوام متحدہ میں فریاد لے کر پہنچ گئی اور دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والے ملک کے قبضے میں آ کر ‘ وادی کے کشمیریوں کی تھوڑی سی آبادی نے جدوجہد آزادی کا آغاز کر دیا۔ وہ دن اور آج کا دن‘ مظلوم کشمیری‘ بھارت کے فوجی قبضے سے آزاد ہونے کے لئے ہر طرح کی جدوجہد کر چکے اور کرتے آ رہے ہیں۔ مگر عالمی ضمیر ہے کہ بیدار ہونے میں نہیں آتا اور دورحاضر کے بدترین فوجی قبضے میں رہتے ہوئے بھی‘ نہتے اور مظلوم کشمیری ‘بچوں‘ عورتوں ‘ بوڑھوں اور بیماروں پر ناقابل بیان ظلم و تشدد برداشت کرتے آ رہے ہیں۔ ہر سال دو سال کے بعد بھارت کی جدیدترین اسلحہ سے لیس فوجیں مقبوضہ کشمیر پر حملہ آور ہوتی ہیں اور ان کی معمول کی زندگی کو درہم برہم کر کے‘ مزیدجنگی تیاریاں کرنے لوٹ جاتی ہیں۔ بھارت نے نہتے شہریوں کو کنٹرول میں رکھنے کے لئے‘ وہاں اپنے فوجی اڈے قائم کر لئے ہیں‘ جس کا اسے کوئی حق حاصل نہیں۔ بھارت اس متنازعہ ریاست کے کسی بھی جائز حل پر آمادہ نہیں ہوتا‘ جس کاوہ عالمی برادری کے سامنے پابند ہو چکا ہے۔ کشمیریوں نے نہتے اور اکیلے ہوتے ہوئے‘ تھوڑی سی تعداد کے ساتھ سوا ارب کے قریب آبادی والی قوم کو نکیل ڈال رکھی ہے اور جس عزم و ہمت کا وہ ثبوت دے رہے ہیں‘ مجھے لگتا ہے کہ جنگ ہی ان کے مسائل کا حل بنے گی۔ بھارتیوں کے حوصلے‘ کشمیریوں کی مسلسل مزاحمت کے سامنے ٹوٹ رہے ہیں اور اندیشہ ہے کہ ایک نہ ایک دن وہ غزہ کی طرح ‘کشمیریوں کی محصور آبادی پر ہوائی حملے شروع کر دیں گے۔ یہ وہ لمحہ ہو گا‘ جب پاکستان جوابی کارروائی پر مجبور ہو جائے گا اور یہی وہ جنگ ہو گی‘ جس سے دنیا پہلے ایٹمی تصادم کے خطرے میں آ جائے گی۔ پہلا اس لئے کہ امریکہ نے ایٹمی طاقت ‘نہتے جاپان پر آزمائی تھی اور یہ پہلا موقع ہو گا کہ دو ایٹمی ملک آمنے سامنے آئیں گے۔ جنگ تو خیر کیا ہو گی؟ فیصلہ ہو جائے گا۔ آج میں کشمیری بھائیوں کی خدمت میں ایک تحریر پیش کر رہا ہوں‘ جو بی بی سی ڈاٹ کام پر ‘خط کی صورت میں شائع ہوئی۔ اس میں غیرملکی فوجوں کے زیرقبضہ رہنے والے نہتے خاندانوں کی‘ زندگی کی منظرکشی کی گئی ہے۔ ملاحظہ فرمایئے۔
''سورج آج بھی میری کھڑکی سے جھانک رہا ہے لیکن مجھے اس میں کوئی دلچسپی ہے اور نہ ہی اس سے کوئی دوستی ہے۔گذشتہ کچھ عرصے سے مجھے ایسے لگ رہا ہے جیسے یہ مجھے تنگ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔سورج دن بھر میری وادی کشمیر کا چکر لگا کر آتا ہے اور میں، جی ہاں، میں اپنے اس کمرے میں گذشتہ تقریباً ایک ماہ سے قید ہوں۔اکثر سوچتا ہوں کہ مجھے کس جرم میں اس کرفیو کی قید کی سزا دی گئی ہے۔میں تو ایک عام کشمیری ہوں۔ میں نہ فوجی ہوں اور نہ ہی جہادی۔ میں نے نہ کبھی کسی مظاہرے میں حصہ لیا ہے اور نہ ہی سنگ باری کی۔پھر بھی میرا فون ایک ماہ سے کیوں بند کر دیاگیا؟ میرا انٹرنیٹ کیوں بند کیا گیا ہے؟ میرا کیبل نیٹ ورک کیوں نہیں چل رہا ہے؟اور یہ سورج، اس پر تو کوئی کرفیو یا پابندی نہیں ہے۔ اس پر کوئی پتھر بھی نہیں پھینک سکتا اور نہ ہی کوئی گولی یا پیلٹ گن سے حملہ کر سکتا ہے۔میں تو کرفیو کی وجہ سے اپنے ہی صحن میں آ کر اس کو اپنی بھرپور نگاہوں سے بھی نہیں دیکھ سکتا۔
ہر کشمیری کی ہی طرح دن کا آغاز دودھ سے تیار کردہ نمکین چائے سے کرنے کی عادت ہے۔ لیکن گذشتہ تقریباً ایک ماہ سے بازار بند ہیں، دودھ کہاں سے ملے گا؟ نمکین چائے کا سیاہ مرکب پی پی کر اب دماغ خراب ہو گیا ہے۔گذشتہ ماہ کی 12 تاریخ سے چھوٹے بیٹے کی یونیورسٹی کے امتحانات شروع ہونے والے تھے۔ کتنے شوق سے وہ انتظار کر رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ ڈیڈی اس سال میں نے پوری تیاری کی
ہے۔ حالات بھی ٹھیک ہیں۔ اب کی بار اچھے نمبرز آئیں گے اور پھر اچانک کشمیر کے بازاروں، سکول جانے والے ننھے بچوں اور مسکراتے چہروں کی رونق کو جیسے کسی کی نظر لگ گئی ہو۔ایک بار پھر مظاہرے، سنگ باری، کرفیو اور قتل و غارت گری کا بدترین دور شروع ہوا۔ اب کچھ نہیں معلوم کہ بیٹے کے امتحانات ہوں گے بھی یا نہیں؟ اس کو بری نظر لگ گئی ہے۔میرا بیٹا اپنے کمرے میں اکیلا بیٹھا رہتا ہے، گم سم۔ کسی سے بات تک نہیں کرتا۔ میں کچھ کہتا ہے تو غصہ کرتا ہے۔ حکومت کو برا بھلا کہتا ہے۔ مظاہرین کو برا بھلا کہتا ہوں اور غصے سے کہتا ہے ڈیڈی میرے امتحانات کا کیا ہوگا؟کہیں اب کی بار بھی ایک سال کا سمیسٹر ڈیڑھ سال کا نہ ہو جائے؟ پھر رونا شروع کرتا ہے۔میرا بیٹا جو موٹر سائیکل پر پورا شہر گھوم آتا تھا۔ دوستوں کے ساتھ ہنستا، کھیلتا تھا۔ کرفیو کی وجہ سے اب اس کی حالت دیکھی نہیں جاتی۔گھر میں تنگ آکر کبھی کبھی سڑک تک نکلنے کی ضد بھی کرتا ہے۔ مگر ہم میاں بیوی دن بھر اپنے بچوں کی پہرے داری کرتے ہیں۔کیا بھروسہ سڑک پر نکل کر سنگ بازوں کے پتھر کا نشانہ بن جائے یا پھر فوجیوں کی پیلٹ گن یا گولیوں کا نشانہ بن جائے؟بیوی بھی پریشان ہے سبزی کے نام پر بھیڑ بکریوں کی طرح ایک ماہ سے خالی ساگ کھاتے آ رہے ہیں جو کچن گارڈن میں لگایا تھا۔گھر پر رکھا آٹا اور چاول اب تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ سوچتا ہوں کرفیو اسی طرح چلتا رہا تو کیا کروں گا؟ بچوں کو کیا کھلاؤں گا؟پورا خاندان ڈپریشن کا شکار ہو چکا ہے۔ یااللہ میری اس وادی کشمیر میں امن کے دن کب دوبارہ لوٹ کر آئیں گے۔‘‘