"NNC" (space) message & send to 7575

سوشل میڈیا--سہم جائو!

بچہ ابھی ہنسنے رونے کی عمر میں ہے کہ اس پر سنسر لگا دیا گیا کہ تم کیا کہہ سکتے ہو؟ اور کیا نہیں؟ ایسی پابندی میں بچہ بولنا کیا خاک سیکھے گا؟ یہ بچے بڑے ہوکر اسی طرح کی بات چیت کیا کریں گے‘ جوکسی زمانے میں سوویت یونین کے لوگ کیا کرتے تھے یا کیوبا کے شہری کرتے ہیں۔ سائبر کرائمز کے قوانین نافذ ہونے کے بعد چند روز لوگوں کو تھوڑی بہت جھنجھلاہٹ ہو گی۔ اس کے بعد وہی بول چال اور پھر وہی ٹکسالی خیالات جو پہلے سے تحریری طور پر مہیا کر دیئے جائیںگے۔ اظہار مدعا کے لئے ہر موضوع پر سرکاری الفاظ میں مثالی تحریریں ‘ کتابی صورت میں شائع ہو کر دکانوں پر دستیاب ہو جائیں گی اور جو بھی آپ کا مدعا ہے وہ شائع شدہ مثالوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کر کے نقل کریںاور جس دوست‘ اخبار ‘جریدے ‘ یا چینل کو چاہیں بھیج دیں۔ ٹی وی ٹاک شومیں بیٹھنا ہو‘ توکسی سرکاری مہمان کی گفتگو اپنی کہہ کر دہرا دیں۔ چینل آپ کو باقاعدہ معاوضہ ادا کرے گا۔ یہ وقت کچھ دنوں کے بعد آئے گا۔ فی الحال ہم اپنے خیالات‘ اپنے الفاظ میں ظاہر کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ جب تک آزادی ہے مزے کر لیں۔ نئے قوانین کے نفاذ سے پہلے کی ایک تحریر آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ اپنے بچوں کے لئے محفوظ کر لیںتاکہ پندرہ بیس برس کے بعد ‘وہ آپ کی کاپی سے نکال کر دیکھ لیا کریں کہ سائبرکرائمزکے قوانین نافذ ہونے سے پہلے‘ لوگ کس طرح لکھا کرتے تھے؟ تابندہ کوکب نے سائبرکرائمز کا بل پاس ہونے کے فوراً بعد لکھا تھا۔ مجھے یقین ہے یہ فرضی نام ہو گا۔
''پاکستان میں متنازع سائبر کرائم بل تو منظور کر لیا گیا ہے اور چند ہی روز میں یہ قانون کی حیثیت بھی اختیار کر لے گا لیکن سائبر حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیموں کو‘ اب بھی اس پرتحفظات ہیں۔ 55 ترامیم کے بعد بھی‘ ایسے کون سے چیدہ چیدہ نکات ہیں ‘جن کے بارے میں سوشل میڈیا اور آن لائن اظہار رائے کی آزادی کی حمایت کرنے والے فکر مند ہیں؟
سائبر کرائم بل میں پی ٹی اے کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ کسی بھی متنازع یا مجرمانہ قرار دیے گئے مواد یا ویب سائٹ تک رسائی روک سکتا ہے یا اسے ہٹا سکتا ہے۔سائبر حقوق کے لئے کام کرنے والے غیر سرکاری ادارے سے منسلک نگہت داد کا کہنا ہے کہ اس بل میں ایک تو کسی بھی مواد کے مجرمانہ ہونے کے لئے دی گئی وجوہ کی تشریح موجود نہیں ہے اور دوسرا یہ بھی واضح نہیں ہے کہ کون لوگ ہوں گے جو اس بات کا تعین کریں گے کہ کوئی بھی مواد یا ویب سائٹ‘ اس زمرے میں آتی ہے؟ اسی لئے کسی ایک ادارے کو اس طرح کا مکمل اختیار دینا مناسب نہیں ہے۔ (نام نگہت داد کا بھی فرضی ہے) نگہت داد کہتی ہیں ''جو روایات اور مثالیں پی ٹی اے نے‘ ماضی میں قائم کی ہیں وہ ہمیں خوفزدہ کرنے کے لئے کافی ہیں۔ جن میں یوٹیوب کا تین سال کے لیے بند کر دیا جانا اور اچانک ایک حکم نامہ جاری کر دینا ‘جس میں بتایا جاتا ہے کہ لاکھوں ویب سائٹس اس لئے بند کر دی گئی ہیں کیونکہ یہ فحش تھیں۔ اس طرح کے فیصلوں کی وجہ سے لوگوں کا ادارے پر اعتماد ختم ہو گیا ہے۔‘‘نگہت داد کو خدشہ ہے ''اگر انٹرنیٹ کمپنیاں، فیس بک، ٹوئٹر اور گوگل ان کی بات نہیں مانتے تو ماضی میں یوٹیوب کی بندش کی طرح اس اختیار کے تحت انہیںپاکستان میں مکمل بند کر سکتے ہیں۔‘‘
وکیل یاسر لطیف ہمدانی (فرضی؟)کا کہنا ہے کہ پی ٹی اے کو صوابدیدی اختیار دینا ٹھیک نہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ اداروں میں بیٹھے افراد کے ذاتی خیالات اور مذہبی رجحانات ‘اس پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔''کئی الفاظ کی واضح تشریح نہ ہونے کی وجہ سے کسی بھی آزاد خیال انسان کی ویب سائٹ بند کی جا سکتی ہے۔ پی ٹی اے ایسے اقدامات پہلے بھی کر رہا تھا ‘ اب اسے ایک قانونی حیثیت دے دی گئی ہے۔‘‘
سائبر کرائم بل میں انٹرنیٹ مہیا کرنے والوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ صارفین کا ڈیٹا کم سے کم‘ ایک سال تک محفوظ رکھیں تاکہ حکام اسے کسی بھی قسم کی تفتیش کے لئے حاصل کر سکیں۔نگہت داد کہتی ہیں کہ یہ ذاتی مواد کے تحفظ کے بنیادی حقوق کے خلاف ہے۔ ''یہ واضح نہیں ہے کہ یہ ڈیٹا کچھ مخصوص لوگوں یا مشتبہ شدت پسندوں اور دہشت گردوں کا ہوگا یا ہر عام شہری کی معلومات محفوظ کی جائیں گی اور بحیثیت پاکستانی شہری کوئی بھی شخص‘ اپنی معلومات تک رسائی کے خلاف کیا قانونی کارروائی کر سکتا ہے؟ اس کی بھی وضاحت نہیں ہے۔‘‘
سائبر کرائم بل کے تحت کسی کو غیر مطلوبہ اور غلط مواد بھیجنے پر بھی کڑی سزائیں ہیں۔یاسر لطیف ہمدانی کا کہنا ہے ''اس غیر مبہم نکتے میں ‘میری کوئی ایسی ای میل بھی آ سکتی ہے جو میں پہلی بار کسی رابطے کے لئے کسی کو کرتا ہوں دوسرا فریق اس کا جواب نہ دے اور وہ اسے میرے خلاف استعمال کر سکتا ہے۔‘‘
سائبر سٹاکنگ کے حوالے سے بھی خدشہ پایا جاتا ہے کہ اس کی وضاحت نہ ہونے کی وجہ سے کوئی بھی شخص کسی پر یہ الزام عائد کر سکتا ہے کہ وہ اس پر نظر رکھے ہوئے ہے اور اس کی سزا بھی ایک سال ہے۔سائبر بل کی ایک شق کے مطابق ‘آپ کسی کی تصویر بلا اجازت انٹرنیٹ پر نہیں ڈال سکتے۔نگہت داد کہتی ہیں ''اس میں ذاتی یا عوامی مقامات کی تصاویر کی وضاحت نہیں کی گئی۔ اگر کوئی شخص کسی عوامی مقام پر ‘کسی جلسے، ریلی، احتجاج، یا کسی تقریب کی تصویر بناتا ہے اور اس کے ساتھ چند مزید لوگ بھی اس میں دکھائی دیتے ہیں تو وہ تصویر لینے اور اسے سوشل میڈیا پر ڈالنے والے کے خلاف شکایت درج کروا سکتے ہی۔آج کل تو سوشل میڈیا پر سیلفی کا رواج عام ہے اور اس میں پس منظر میں بہت لوگ ہوتے ہیں۔ لوگوں کی ذاتیات میں دخل اندازی کے حوالے سے یہ ایک اچھی چیز تھی اگر اس کی وضاحت کر دی جاتی۔‘‘نگہت داد کے بقول ایک عام صارف کے لئے جو سب سے زیادہ پریشان کن عمل ‘جسے جرم قرار دیا گیا ‘وہ ہے سپیمنگ۔سائبر کرائم بل کے تحت کسی بھی قسم کا جعل سازی پر مبنی پیغام بھیجنے والوں کو ‘تین ماہ قید اور 50 ہزار سے 50 لاکھ روپے تک جرمانہ ہو سکتا ہے۔نگہت داد کہتی ہیں ''اس میں وہ لوگ بھی شامل ہو جاتے ہیں جو اپنے چھوٹے کاروبار کی تشہیر کے لئے موبائل پیغامات کا سہارا لیتے ہیں چونکہ ان کے لئے یہ نسبتاً سستا ہوتا ہے۔ اس میں اگر فراڈ، مجرمانہ اور غیر ضروری کی وضاحت کر دی جاتی تو مناسب تھا۔ساری دنیا میں کہیں بھی سپیمنگ کو جرم قرار نہیں دیا گیا لیکن پاکستان میں اس بل کے تحت اب یہ جرم ہے۔‘‘
سائبر حقوق کے لیے کام کرنے والوں اور سوشل میڈیا کے ایکٹوسٹ کو یہ بھی شکایت ہے کہ معمولی نوعیت کے جرائم کے لئے‘ سخت سزائیں رکھی گئی ہیں اور اس کی وجہ سے سراسیمگی کی فضا قائم ہوگی۔یاسر لطیف ہمدانی کہتے ہیں ''لوگ اب سوشل میڈیا پر کچھ بھی لکھنے اور کہنے سے پہلے ‘ سو بار سوچیں گے اور یہ جمہوریت اور اظہار رائے کے بنیادی حق کے خلاف ہے۔‘‘ان کے بقول ''ان مقدمات کی سماعت کرنے والے ججوں کا کردار نہایت اہم ہے۔ انہیںسائبر جرائم کی مکمل آگاہی ہونا نہایت ضروری ہے تاکہ وہ اس پر بہترین عمل درآمد کروا سکیں۔ کوئی بھی قانون اس وقت بدترین بن جاتا ہے اگر اس پر عمل کروانے والے جج ہی ٹھیک نہ ہوں۔‘‘نگہت داد کہتی ہیں کہ لوگ ان کے اعتراضات پر کہتے ہیں کہ پاکستان میں پہلے کون سے قانون پر عمل ہوتا ہے جو آپ اس پر شور مچا رہے ہیں لیکن ان کے بقول ''ان قوانین میں چونکہ کئی چیزوں کو جرم قرار دیا جا چکا ہے ‘اس لئے انہیںکسی بھی وقت کسی کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے۔‘‘ انہیںخدشہ ہے کہ پاکستان میں عام لوگوں کو قوانین کی زیادہ آگاہی نہیں ہے ‘اس لئے اس کے غلط استعمال کا خدشہ بھی زیادہ ہے۔''ایک ڈر یہ بھی ہے کہ لوگ اپنے ذاتی جھگڑوں میں بھی اس قانون کو استعمال کریں گے۔ لوگ اب اپنے اوپر از خود پابندیاں لگائیں گے اور وہ بات نہیں کہہ پائیں گے جو وہ کہنا چاہتے ہیں۔‘‘ سائبر کرائم بل کے تحت ایسا مواد نشر یا شائع کرنا ‘جرم قرار دیا گیا ہے‘ جس سے کسی شخص کی کردار کشی ہو یا اس کی ساکھ کو نقصان پہنچے۔نگہت داد کے بقول ''لوگوں نے انٹر نیٹ پر مزاحیہ اکاؤنٹ بنا رکھے ہیں‘ جہاں طنز و مزاح کیا جاتا ہے ۔ اب اگر کوئی کسی شخص کا کارٹون بنا کر کوئی پوسٹ لگائے گا تو وہ بھی ایک جرم ہے ۔لیکن اس کے پیچھے سیاسی مقاصد دکھائی دیتے ہیں۔ کیونکہ آج کل سیاستدانوں پر طنز ومزاح کیا جانا عام ہو گیا ہے۔‘‘نفرت انگیز مواد کے حوالے سے یاسر لطیف کے بقول ‘اس طرح کے قوانین کو کسی بھی معاشرے میں اقلیتوں کے خلاف زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔نگہت داد کہتی ہیں ''اس بل میں انسداد دہشت گردی کے قانون کی شق کو ہو بہو شامل کر دیا گیا ہے جبکہ انٹر نیٹ پر تو روز ہی مباحثے ہوتے ہیں لوگ تنقید کرتے ہیں، لڑائیاں بھی ہوتی ہیں لوگ گالیاں بھی دیتے ہیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ انٹر نیٹ پر ہونے والے جرائم کی تشریح کون کرے گا؟‘‘اگرچہ حکام نے واضح کیا ہے کہ اس بل کے تحت کسی بھی جرم کے الزام کی‘ پہلے باقاعدہ تفتیش کی جائے گی اور پھر اس کا مقدمہ متعلقہ عدالت میں بھیجا جائے گا تاہم کڑی سزاؤں اور جرائم کے حوالے سے ابہام کی بنا پر انٹرنیٹ صارفین اور انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ اب پاکستان میں لوگوں کی ''از خود سنسر شپ‘‘ کے بعد سوشل میڈیا کا ماحول سہما سہما رہے گا۔‘‘

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں