"NNC" (space) message & send to 7575

نئی فصل‘ نئی کھاد

پاناما لیکس پر یکلخت جو طوفان کھڑا ہوا تھا‘ حکمران گروپ نے اس کے فوری جھٹکے سے بچائو کے لئے اپنے آپ کو سامنے سے ہٹا کر ‘ عوامی غیظ و غضب کی لہر کو‘ نکل جانے دیا۔ اب سمجھوتے بازی کا تاثر دے کر حکمران اپنے خیال میں باور کر چکے ہیں کہ مصنوعی ٹھہرائو کی کیفیت میں وہ یکجا ہو کر اپنا دائو لگا لیں گے اور 2018ء کے انتخابات سے پہلے پہلے ‘اگلے پانچ سال گزارنے کے لئے کوئی نئی سودے بازی کر کے‘ برسراقتدار اور حزب اقتدار پارٹیوں میں وسائل کی تقسیم کا جھانسہ دینے کا نیا ڈرامہ تیار کر لیں گے۔ اس ڈرامے کی ابتدائی تیاریاں بہت دنوں سے ہو رہی تھیں۔ درمیان میں پاناما لیکس کا دھماکہ ہوا۔ تاج اچھالنے اور تخت گرانے کا خطرہ ‘بے نقاب ہو کر سامنے آ گیا۔ تاج و تخت والے ہزاروں میل دور پہنچ کر ‘ابتدائی طوفانی لہروں سے بچ کر بیٹھ گئے۔ ان کے منظر سے ہٹنے کا تاثر پیدا ہو چکا ہے۔ مختلف پارٹیوں اور گروہوں کی تقسیم بظاہر ختم کرنے کا ڈرامہ تیار کیا جا رہا ہے۔ ایم کیو ایم ‘ حکمرانوںکے گھر کا ایک ناراض بچہ ہے‘ جو کبھی ناراض ہو کر منہ پھیر لیتا ہے اور کبھی خوش ہو کر دہی کے پیالے پر مان جاتا ہے۔ اس کے پاس اتنا حق نمائندگی نہیں ہوتا کہ بلاشرکت غیرے وفاق یا صوبے کی حکومتیں بنا سکے۔ اس کی ساری سیاست‘ دہی کے پیالے تک رہتی ہے۔ کبھی دھمکیاں دے کر پیالے کو لات مار دیتا ہے اور کبھی خوش ہو کر دوبارہ دہی کے پیالے پر بیٹھ جاتا ہے۔ حکمرانوں کے باہمی گٹھ جوڑ کی نئی تیاریوں سے ‘ایم کیو ایم نے ایک بار پھر اپنے آپ کو الگ کر لیا ہے۔ لیکن اس کا یہ روٹھنا چند روزہ ہے۔ لہٰذا اس کی دھمکیوں پر بھروسہ کر کے ہرگز یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ وہ کسی احتجاجی تحریک کا حصہ بن کر‘ تاج و تخت اچھالنے اور گرانے میں شریک ہو جائے گی۔ اس کو اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ پورے کھیت کا قبضہ نہیں لے سکتی۔ اس کی سودے بازیاں دہی کے پیالے تک محدود ہیں۔ ایم کیو ایم خود جانتی ہے کہ وہ تن تنہا اقتدار کی مالک نہیں بن سکتی۔ عوام کوپرچھائیوں کے کھیل سے امیدیں لگانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ جو کچھ ماضی میں ہوتا رہا ہے‘ وہی ان دنوں ہو رہا ہے اور آنے والے دنوںمیں بھی یہی کچھ ہو گا۔ 
اب آتے ہیں اصل کھیل کی طرف۔ اصل کھیل کے کردار صرف دو ہیں۔ ایک طرف عوام اور دوسری طرف خزانے پر قابض طبقات۔ کسی زمانے میں پیپلز پارٹی‘ عوامی امنگوں کی ترجمان تھی اور حکمران جتھے بندیاں کر کے‘ عوام کے مفادات پر چھینا جھپٹی کے ذریعے ‘اپنے اپنے حصے پر قبضہ جما لیا کرتے تھے اور کبھی کبھی عوامی طاقت کی کوئی لہر پیدا ہوتی اور وہ اقتدار پر قابض ٹولے سے تھوڑا بہت حصہ لے لیا کرتے۔ پاکستان کی مختصر تاریخ میں صرف ایک بار عوام نے اپنے حق پر قبضہ جمایا تھا۔ یہ وہ حالات تھے‘ جب حکمران طبقوں کے رگ پٹھوں میں کھچائو آ گیا تھا۔ انہیں ہلنے جلنے میں تکلیف ہو رہی تھی۔ یہی وہ حالت تھی‘ جس میں ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار حاصل کرنے کا موقع مل گیا۔ لیکن جو کچھ انہیں ملا‘ وہ خالص اقتدار نہیں تھا۔ انہیں اقتدار کے ایوان میں داخل ہونے کے لئے‘ دوسرے سیاسی گروہوں کے ساتھ جتھہ بندی کرنا پڑی۔ انہیں پورا اقتدار نہیں ملا تھا۔ اقتدار پر انہیں اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لئے کافی جدوجہد کرنا پڑی۔ اس زمانے میں اقتدار کی شہ رگ پر فوج کا ہاتھ ہوا کرتا تھا۔ تھوڑے دنوں کے لئے انگلیاں ڈھیلی پڑی تھیں‘ جن کی گرفت جلد ہی دوبارہ مضبوط کر دی گئی۔ فوج نے روایتی کٹھ پتلیاں دوبارہ جمع کرنا شروع کر دیں۔ بھٹو سے بھی یہی کام لینے کی کوشش کی گئی۔ بھٹو کے ساتھیوں نے روایتی کٹھ پتلیوں کا کھیل رچانے کی کوشش کی۔ لیکن بھٹو صاحب نے ان کے راستے پر چلنے سے انکار کر دیا۔ وہ عوام کی طاقت سے ان کے حق میں تبدیلیاں برپا کرنے کے خواہشمند تھے۔ اسی خواہش کے تحت ‘انہوں نے ریاستی اثاثوں میں‘ عوام کو ان کا حصہ 
دینے کا عمل شروع کر دیا۔ کٹھ پتلیوں اور ان کی ڈوریاں کھینچنے والوں نے گٹھ جوڑکر کے‘ بھٹو کی عوامی طاقت کا زور توڑنے کے لئے ‘روایتی انتخابی کھیل کا ماحول تیار کیا۔ بھٹو صاحب‘ جن کی بظاہر اقتدار پر پکی گرفت نظر آ رہی تھی‘ ان کے گرد کہانیوں کا ایسا جال بنا‘ جس کے اندر آ کر وہ شکاریوں کی امیدوں کے عین مطابق یہ سمجھ بیٹھے کہ دوبارہ عوام کا اعتماد حاصل کر کے‘ نئے عزم اور طاقت کے ساتھ انقلاب برپا کرنے کا عمل شروع کر دیں گے۔ ان کا اندازہ بالکل درست تھا۔ عوام میں ان کی مقبولیت اپنے عروج پر تھی۔ یہ حقیقت انتخابی نتائج کی صورت میں سامنے آ گئی۔ جس کے اندر عوام کی بھرپور اور پرجوش حمایت کا ثبوت موجود تھا۔ یہ نتائج دیکھ کر اصل کھلاڑیوں نے فیصلہ کر لیا کہ زندہ بھٹو ‘ہمارے لئے زیادہ خطرناک ہے اور عوامی طاقت کا جو جن‘ بھٹو کے پاس ہے‘ اسے ہم شکست نہیں دے سکیں گے۔ چنانچہ فیصلہ ہوا کہ انتخابی نتائج پر‘ سازشوں کی سیاہی گرا کر‘ انہیں مشکوک کر دیا جائے۔ کٹھ پتلیوں کو جمع کیا جائے اور ایک نام نہاد احتجاجی تحریک‘ پالتو ایجنٹوں اور تنخواہ دار کارندوں کے ذریعے ‘قابل ذکر مقامات پر جھلکیوں کی صورت میں دکھائی جائے۔ ذوالفقار علی بھٹو پر قتل کا ایک نمائشی مقدمہ کھڑا کر کے‘ عدالتوں کو جلاد کا کردار دے دیا جائے۔ بھٹو نے عوامی طاقت کا جو عفریت کھڑا کیا ہے‘ اس کے پرزے کر دیئے جائیں۔ ہم تاریخ کے جس دور سے گزر رہے ہیں‘ یہ عوامی طاقت کو پرزہ 
پرزہ کرنے کی اس مہم کا اختتامی حصہ ہے‘ جو ضیاالحق کی قیادت میں عوام کا خون چوسنے والے ساہوکاروں کی طرف سے شروع کی گئی تھی۔ 
بھٹو کی عوامی طاقت کو منتشر کر کے‘ اس کے علامتی زور کو بھی توڑ دیا جائے۔ بے نظیر کی شہادت کے بعد‘ بھٹو کی علامتی طاقت کو پوری طرح سے ختم کرنے کا عمل شروع ہوا۔ آج نہ کوئی ایسا مقام رہ گیا ہے‘ جہاں بھٹو کے چاہنے والوں کے جمع ہونے کے لئے ‘پلیٹ فارم دستیاب ہو۔ بھٹو کے اصولوں کو دہرانے اور ان کا پرچار کرنے والا کوئی جیالا دستیاب ہو۔ لٹیرے حکمرانوں کے طور طریقوں میں‘ ان سے بھی بڑھ کر کرتب دکھانے والے مداریوں نے ‘بھٹو کی تصویریں لگا کراپنی دکان اور اس کی برانچیں کھول رکھی ہیں۔ آپ کو معلوم ہے کہ بھٹو کا قاتل کون تھا؟ آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ بھٹو کے قاتل‘ کی وراثت کے دعویدار کون ہیں؟ آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ بھٹو کی تصویر لگا کر‘ اس کے قاتلوںکی مریدی کرنے والے کون ہیں؟ اور آج بھٹو کی گدی اور ان کی مریدی پر قبضہ کرنے والے‘ ایک دوسرے سے گلے کیسے مل رہے ہیں؟ عوامی طاقت جو قیادت سے محروم ہونے کے بعد‘جھانسے دینے والے ایک جیسے مداریوں سے امیدیں لگا کر‘ بچے بچائے روٹی کپڑے اور مکان کو بھی تھوڑا تھوڑا گنوا کرتہی دستی کے راستوں پر چل رہی ہے‘ ان کے اختیار میں کچھ رہ بھی نہیں گیا۔ وقت بھی کیا کیا منظر دکھاتا ہے؟ عوام کے اصل ووٹ بھاری اکثریت میں لینے والا بھٹو‘ چار دن حکومت نہیں کر سکتا اور چھین کر ڈبوں میں بھرے گئے ووٹوں پر قبضہ کرنے والے‘ اقتدار پر اقتدار لیتے چلے جا رہے ہیں۔ عوام مخالف قوتوں کا یہ گٹھ جوڑ ‘مزید کچھ عرصے کے لئے اقتدار میں رہے گا۔ 
میں جانتا ہوں کہ ہجوم کے اندر ایک سرپھرا عمران خان‘ عوامی طاقت جمع کرنے میں لگا ہے۔ مگر عوام دشمن طاقتیں اس قدر زور آور ہیں کہ عمران کے قدم نہیں جمنے دیں گی۔ ان کے اپنے قدم لڑکھڑا رہے ہیں۔ لیکن ان کی سازشوں کی صلاحیت میں آج بھی کمی نہیں آئی۔ ان قوتوں کا آخری حربہ عو ام کو جوڑنے والی شخصیت کا قتل ہوتا ہے۔ مجھے بھی ایسے ہی کسی قتل کا انتظار ہے۔ عوام کی رگوں سے خون کے بڑے بڑے گھونٹ بھرنے والے ‘ایک دن بدہضمی اور بدمستی میں ڈوب کرایک دوسرے کی گردنیں کاٹنا شروع کر دیں گے۔ان کا طبقاتی وجود پارہ پارہ ہو کر بکھر جائے گا اور پھر بھوکے ننگے عوام‘ گلیوں اور سڑکوں پر پھیلے جسموں کے ٹکڑے جمع کر کے‘ ایک نئی فصل کی کھاد بنائیں گے اور اس کھاد سے کسی نئے نظام اور نئی تہذیب کا جنم ہو گا۔ حکمران طبقوں کی روحیں اور جسم‘ دونوں گل سڑ چکے ہیں۔ ان سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ عوام سے ڈر رہے ہیں اور یہ اسی ڈر میں اپنے آپ کو تباہ و برباد کر کے‘ نئے دور کے لئے راستہ ہموار کریں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں