"NNC" (space) message & send to 7575

بین الاقوامی الطاف حسین

الطاف حسین کی حیرت انگیز صلاحیت اور خوبی یہ ہے کہ وہ چھوٹے چھوٹے معاملات کو قومی سطح کاتنازعہ بنا کر ساری قوم‘ سیاسی جماعتوں اور حکومتوں کو اندھادھند مصروف کر دیتے ہیں۔ عوام کی بھاری تعداد پاجامہ ادھیڑ کر ‘سینے کی انتھک مشقت میں جت جاتی ہے۔ کچھ خبر نہیں کہ الطاف بھائی اس ''کارِناکردگی‘‘ کے کارخانے ‘کب تک‘ شب و روز چلاتے رہیں؟ متوسط طبقے کے کتنے گھرانے اپنی جمع پونجی‘ اہل خاندان کی خوراک اور بچوں کے تعلیمی اخراجات میں جھونکتے رہیں؟ کسی کو کچھ حاصل نہ ہو۔ گزشتہ کئی دنوں کی مصروفیات کا ایک جائزہ لے کر دیکھئے۔ الطاف بھائی نے اچانک (خاکم بدہن) ''پاکستان مردہ باد‘‘ کا نعرہ لگا کر‘ امریکہ‘ بھارت اور اسرائیل کو دعوت دی کہ وہ پاکستان کو (خاکم بدہن) تباہ کرکے دے سکتے ہیں۔ کیونکہ الطاف حسین کی نظر میں‘ پاکستان ایک اچھا ملک نہیں۔ یہ دنیا میں تباہی اور دہشت گردی پھیلاتا ہے۔ اس لئے سارے مذکورہ ملک مل کر‘ پاکستان کے لئے مشکلات پیدا کرتے رہیں۔ چھوٹی چھوٹی حرکتوں سے پاکستانی عوام کی بڑی تعدادغیرپیداواری سرگرمیوں میں ایک دوسرے کا وقت اور جمع پونجی ضائع کرتی رہے گی۔ الطاف حسین 40 سال سے زیادہ مدت سے مہاجروں کو مصروف رکھنے میں لگے ہیں اور غیر مہاجروں کو ‘ مہاجروں کے خلاف اپنا وقت اور طاقت ضائع کرنے میں۔ اگر آپ الطاف حسین کی لگائی ہوئی تازہ چنگاری سے بھڑکائے گئے بھُس کی پیدا کردہ مصروفیات میں سے‘ کچھ وقت نکال سکیں‘ تو اتنا ضرور سوچئے گا کہ الطاف حسین نے اپنی تمام سیاسی زندگی میں مہاجروں کو دیا کیا ہے؟ 
یہ محترم ‘ سیاست میں اس نعرے کے ساتھ داخل ہوئے کہ اپنے ٹیلی ویژن بیچ دو۔ ریڈیو بیچ دو۔ بچوں کی کتابیں بیچ دو۔ زیورات فروخت کر دو اور یہ سارے اثاثے بیچ کر‘ جو رقم ہاتھ لگے‘ اس سے اسلحہ خرید لو۔ آپ جانتے ہیں‘ جب اسلحہ آ جائے‘ تو اس کا واحد استعمال دوسروں کو مارنا ہوتا ہے۔ الطاف بھائی نے یہی کیا۔ اپنے پیروکاروں کو مسلح کر کے‘ انہیں ہرچند روز کے بعد‘ فساد کی کوئی دلیل مہیا کر کے‘ ایک دوسرے پر گولیاں چلانے میں لگا دیااور پھر ایک دوسرے کے خلاف اسلحہ استعمال کر کے‘ الطاف حسین کے مشتعل حامی‘ چارپائیوں پر جنازے ڈال کر‘ باہمی تصادم میںہڑتالیں کراتے۔ چند روزخوب گرما گرمی رہتی۔ کسی کو کچھ معلوم نہ ہوتا کہ وہ جس کے خلاف نعرے لگا رہا ہے‘ اس کے ساتھ لڑائی کیا ہے؟ جب غریب اور نچلی متوسط کلاس کے گھروں میں روٹیاں ختم ہو جاتیں اور بچے سکول جانے کے مطالبے کرنے لگتے‘ تو کچھ دنوں کے لئے وقفہ ملتا۔ گلیوں سے لاشیں اٹھوانے ‘ شہریوں کے اثاثے توڑ پھوڑ اور آتشزدگی کی نذر کرانے کے بعد‘ الطاف بھائی کسی نئے فساد کی بوٹی ڈھونڈنے میں لگ جاتے اور ''فسادزدگان‘‘ گھر کے لئے پھر سے آٹا دال اکٹھا کرنے میں مصروف ہو جاتے۔ مجھے نہیں یاد‘ الطاف بھائی نے اپنے پرستاروں کو فساد میں مصروف رکھنے کے لئے انہیں اور ان کے بچوں کو کیا دیا؟ لیکن وقت اور پونجی سب کی ضائع کرائی۔ 
کچھ عرصہ دوطرفہ نفرت کی فصل اُگا کر ‘ الطاف حسین نے صوبائی اور قومی اسمبلی میں چند نشستیں بٹوریں اور ان کا مول تول کر کے کبھی حکومت میں شامل ہوتے اور کبھی اپوزیشن کی نشستوں پر بیٹھ کر بھائو تائو کرتے۔دیکھتے ہی دیکھتے‘ کھالوں اور فطرانوں سے کروڑوں جمع کرنے کے علاوہ اربوں کے پھیر میں آ گئے۔ کراچی کارپوریشن پر قبضہ کر کے‘ انہوں نے جو اربوں روپے ''صرف‘‘ کئے‘ اس کا نتیجہ آج ووٹروںکے سامنے ہے۔ ان کے گٹروں سے پانی ابل کر گھروں میں بھی گھسنے لگا۔پائپ لائنوں میں رسائی حاصل کر کے‘ پینے کے پانی میں شامل ہو گیا۔ کچرے اور کراچی کا بندھن تو اس شہر کی پہچان بن گیا ہے۔ الطاف بھائی کے پرستار‘ پانی کو ترستے ہیں۔ انہیں فنڈز دینے والے پانی کا بازار لگاتے ہیں اور ان کے حق میں نعرے لگانے والے‘ اپنے بچوں کو پانی خرید کر پلاتے ہیں۔ قومی اسمبلی میں انہوں نے ایسی بھاری بھرکم وزارتیں بٹوریں کہ ان کے کارندے بھی ارب پتی ہو گئے اور الطاف حسین بھی کھربوں میں کھیلنے لگے۔ وہ دولت کی عالمی منڈی کے کھلاڑی بن گئے اور گزشتہ چند روز سے ‘انہوں نے عالمی سیاست کے کاروبار میں بھی پائوں رکھ دیا ہے۔ 
ان کے متوسط طبقے کے حامی اور کارندے‘ ان کے اچانک لگائے جانے والے حالیہ نعرے پر‘ ابھی تک حیرت زدہ ہیں۔ بھول چوک میں قومی نعرہ بھی لگا بیٹھتے ہیں۔ جس پر انہیں الطاف حسین کی جھڑکیاں اور تبّرے سننا پڑتے ہیں۔ بابر غوری بغیر سوچے سمجھے‘ الطاف حسین کے سامنے ''پاکستان زندہ باد ‘‘کا نعرہ لگا بیٹھے‘ جس پر انہیں ساری دنیا کے سامنے ذلیل ہونا پڑا۔ وہ دبک کر بیٹھ گئے۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ الطاف بھائی نے‘ انہیں ایک چھوٹے سے ٹھکانے سے نکال کر قومی سطح کے سرمایہ داروں میں شامل کر دیا ہے۔ ان کی خیر اسی میں ہے کہ جھڑکیاں سن کر چپ چاپ بیٹھ جائیں۔ اس صلے میں الطاف بھائی‘ انہیں بحری جہازوں کی دنیا سے نکال کر‘ ہوائی جہازوں کی دنیا میں پہنچا دیں گے۔ الطاف حسین کے بہت کم ساتھیوں کو معلوم ہو گا کہ انہوںنے عالمی سیاست کی منڈی میں چھلانگ لگا دی ہے۔ وہ اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق ایک بڑا سودا لے کر‘ عالمی سیاست میں کود پڑے ہیں۔ جن گاہکوں سے سپیشل آرڈر لے کر‘ وہ اپنی مالی حیثیت ‘بین الاقوامی سطح پر لے جانا چاہتے ہیں‘ ان کا نام چند روز پہلے وہ ظاہر کر چکے ہیں۔ یہ ہیں امریکہ‘ بھارت اور اسرائیل۔ 
الطاف حسین نے یقینی طور پر تجزیہ کرنے کے بعد ہی‘ نئے گاہکوں کی نشاندہی کرتے ہوئے اپنے پیروکاروں کو بتایا کہ امریکہ‘ بھارت اور اسرائیل کے پاس جا کر‘بتائیں کہ وہ پاکستان کو کیا کیا نقصان پہنچا سکتے ہیں؟ یہ لوگ پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لئے‘ اپنی خدمات ارزاں فروخت کرنے کی پیشکش کریں گے۔ الطاف حسین نے عالمی منڈی کا اتارچڑھائو دیکھ کر غالباً اندازہ کر لیا ہے کہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لئے افغانستان‘ بلوچستان اور بھارت کے مفادات کا دائرہ پھیلنے لگا ہے۔ اوپر سے امریکہ‘ مسلم انتہاپسندی کے خلاف ‘محاذ کو پھیلانے میں مصروف ہے۔ ریجن کی سٹریٹجک صورتحال میں سی پیک کی اہمیت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر کام اسی طرح چلتا رہا‘ تو پاکستان بہت زیادہ اہمیت اختیار کر لے گا اور وہ چین اور مسلم دہشت گردوں کا بیوپاری بن کر‘ عالمی کھلاڑیوں کے لئے کارآمد ہو جائے گا۔ پاکستان کو اسی مقام سے محروم کرنے کے لئے بڑے بڑے کھلاڑی اسے کمزور کرنا چاہتے ہیں اور یہ سودا‘ الطاف بھائی نے عالمی منڈی میں پیش کر دیا ہے۔ انہوں نے بولی لگا دی ہے کہ وہ پاکستان کے اندر انتشار اور بدامنی پیدا کر کے ''ضرورتمندوں‘‘ کی خدمت کر سکتے ہیں۔ بھارت اور امریکہ‘ اپنے وسائل کے زور پر بلوچستان میں بدامنی پیدا کریں گے۔ جس کا پہلا اور ہلکا سا نمونہ گوادر میں پیش کیا جا چکا ہے۔ گوادر پورٹ ابھی خدمات فراہم کرنے کے ابتدائی مراحل میں ہے۔ جبکہ کراچی پورٹ اعلیٰ درجے کی خدمات‘ زیادہ وسیع پیمانے پر فراہم کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ الطاف حسین کا خیال ہے کہ کراچی کی رائے عامہ‘ ان کی جیب میں ہے۔ انہوں نے اپنی جیب میں پڑے ہوئے سودے کی پہلی جھلک دکھا نے کے لئے (خاکم بدہن) پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگوا کر‘رائے عامہ کے موڈ کا نمونہ بھی سامنے رکھ دیا ہے۔ یہ انتہائی خطرناک کھیل ہے۔بلدیہ ٹائون میں سینکڑوں زندہ انسانوں کو جلا کر ماردینا تو ممکن ہے‘ دو کروڑ سے زیادہ آبادی کے شہر کو جلانا کسی کے بس کی بات نہیں۔ لیکن بڑے بڑے سودے‘ بڑے بڑوں کے منہ میں‘ پانی بھر کر انہیں ڈبو دیتے ہیں۔ لگتا ہے کہ الطاف بھائی کے منہ میں‘ وہی پانی بھرنا شروع ہو گیا ہے‘ جس میں آخر کار انہیں خودڈوبنا پڑے گا۔شہری سطح کے دبنگ تو‘ شہروں میں کام چلا لیتے ہیں‘ قومی سطح پر انہیں مانگ تانگ کے گزارا کرنا پڑتا ہے اور عالمی سطح پر‘ تو ایسے لوگ کسی بھی وقت‘ کسی بھی بڑے کے پائوں تلے کچلے جا سکتے ہیں۔ الطاف حسین بین الاقوامی منڈی کا مال بن کر‘ کہیں کے نہیں رہیں گے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں