جنرل راحیل شریف نے جب پاک افواج کی کمان سنبھالی‘ تو میں نے لکھا تھاکہ شہیدوں کے خون کے وارث نے پاک فوج کی کمان سنبھال لی ہے۔ کسی کو شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ وہ اپنے موجودہ ذمہ داریوں کے دور میں‘ نہ صرف شاندار دفاعی کارنامے انجام دیں گے بلکہ پاکستان کا دفاع بھی ناقابل تسخیر بنا دیں گے۔ ماضی میں اقتدار پر قبضہ کرنے والے جرنیلوں نے حکومت اور میڈیا پر قبضہ کر کے‘ اپنی ذاتی شہرت میں تو ہر بہانے سے اضافہ کیا۔ لیکن جو ذمہ داریاں انہوں نے سنبھالی تھیں‘ان کے حوالے سے کارکردگی صفر کے برابر تو کیا؟ اس سے بھی کم رہی۔ پہلے جمہوری دور کے آخری وزیراعظم نے تو ملک کی جغرافیائی حدود میں اضافہ کیا تھا۔ یعنی ایک ہمسایہ ریاست سے صلح صفائی ‘ امن اور دوستی کے ماحول میں گوادر کا انتہائی قیمتی اور اہمیت کا حامل رقبہ ‘ پاکستان میں شامل کیا۔ وہ آخری لمحہ تھا‘ جب ہمارے ملک کی سرحدوں میں توسیع ہوئی۔ پہلے جنرل صاحب نے پاکستان کا کچھ رقبہ ایک پڑوسی ملک کے سپرد کر دیا۔ ان کے بعد جنرل یحییٰ خان آئے اور ہمارا آدھا ملک گنوا دیا۔ ضیاالحق تشریف لائے تو بھارت نے سیاچن گلیشیئر کے بڑے حصے پر خاموشی سے قبضہ کر لیا اور جب یہ خبر عالمی میڈیا پر آئی‘ تو ہمارے مردمومن نے کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے کہا ''سیاچن کی کیا اہمیت ہے؟وہاں تو گھاس بھی نہیں اگتی۔‘‘ ضیا کے بعد جنرلوں نے درپردہ اقتدار پر اپنا کنٹرول رکھا اور جو دو سویلین وزرائے اعظم آئے‘ انہیں اصل اقتدار حاصل نہیں کرنے دیا۔ انہیں باہمی لڑائیوں میں مصروف رکھا اور آخر کار جنرل مشرف اقتدار پر قابض ہو گئے۔ ان کے دور میں بھی سیاچن کا ایک حصہ جو جغرافیائی اعتبار سے انتہائی اہمیت کا حامل تھا‘ بھارت کے قبضے میں دے دیا۔ یہ تھا ہمارے جنرلوں کا شاندار ریکارڈ۔
جب جنرل راحیل شریف نے اپنی موجودہ ذمہ داریاں سنبھالیں‘ تو پاکستان میں دہشت گردوں نے چاروں طرف اپنے پنجے گاڑ رکھے تھے۔قبائلی علاقوں میں‘ عمومی طور پر دہشت گردوں نے اپنے اڈے بنا رکھے تھے اور شمالی وزیرستان میں تو وہ‘ ایک ہیڈکوارٹر قائم کر چکے تھے‘ جہاں سے عام شہریوں اور نیم فوجی دستوں کو ‘دہشت گردوں نے عملاً بے دخل کر دیا تھا۔ انہوں نے اس پورے علاقے پر اپنا کنٹرول قائم کر لیا۔ عام شہریوں کو غلاموں کی حیثیت دی۔ جو بھی ان کی مرضی کے خلاف چلتا‘ اسے زنجیروں میں باندھ کر بازارو ں کے اندر پھرایا جاتا اور بازار کے اندر ہی اسے پھانسی دے دی جاتی۔ اس کی لاش کئی کئی دن لٹکائی جاتی۔ قبائلی علاقوں کے بڑے حصے پر بھی دہشت گردوں کا قبضہ تھا۔ جنوبی پنجاب میں وہ اپنے پنجے گاڑ چکے تھے۔ یہاں تک کہ پاکستان کے مالیاتی اور تجارتی مرکز ‘کراچی میں بھی دہشت گردوں نے اپنے مراکز قائم کر رکھے تھے۔ جہاں سے وہ مالدار شہریوں اور اپنی مخالفت کرنے والوں کو اغوا کر کے‘ شمالی وزیرستان کے شہر‘ میرانشاہ میں لے آتے اور جب تک تاوان وصول نہ کرلیتے ‘مغویوں کواپنی تحویل میں رکھتے۔ پاکستان میں دہشت گردوں کی قوت کا یہ عالم تھا کہ وہ پاکستان کے جس حصے میں بھی چاہتے‘ وہاں سے ہر ناپسندیدہ اور صاحب حیثیت شخص کو ‘اغوا کر کے لے جاتے اور اس کے ساتھ من مانا سلوک کرتے۔ جس شخص کووہ ناپسندیدہ نظروں سے دیکھتے‘ اسے پھانسی پر لٹکا دیا جاتا اور جس سے تاوان لینا مطلوب ہوتا‘ اسے مہینوں بلکہ سالوں مقید رکھ کر‘ اس کے خاندان سے تاوان وصول کیا جاتا۔ یہ تھا وہ منظر جب جنرل راحیل شریف نے پاک فوج کی کمان سنبھالی۔
اگر وہ زمانہ یاد کروں تو پاکستان کی گلیوں اور شہروں سے لے کر اقتدار کے ایوانوں تک‘ دہشت گردوں نے ہر طرف خوف پھیلا رکھا تھا۔ پاکستان کی منتخب حکومت‘ دہشت گردوں پر ریاستی طاقت کے ذریعے کنٹرول قائم کرنے کا حوصلہ چھوڑ چکی تھی۔ وزیراعظم نے جب لاہور کے چند صحافیوں کے سامنے‘ اس ارادے کا اظہار کیا کہ وہ دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے معاملات طے کریں گے‘ تو میں نے عرض کیا تھا کہ ''جناب وزیراعظم! دہشت گرد آپ سے کبھی سنجیدہ مذاکرات نہیں کریں گے۔ وہ آپ کو صرف ٹریپ میں لا رہے ہیں۔‘‘ حقیقت میں یہی ہوا۔ وہ دنیا کی بہترین فوج کے سربراہ ہونے کے باوجود‘ دہشت گردوں سے مذاکرات کے لئے یوں کوشاں رہے‘ جیسے وہ غالب آ چکے ہوں۔ حکومت پاکستان نے اپنے اہلکاروں اور نمائندوں پر مشتمل وفود مذاکرات کے لئے تشکیل دیئے۔ جبکہ ریاست کے باغیوں نے باضابطہ مذاکرات کے لئے اپنے نمائندوں پر مشتمل کوئی وفد نہیں بنایا۔ انہوں نے پاکستان میں موجود اپنے ہی ہمدردوں کے وفود میں باربار ردوبدل کر کے‘ پاکستانی حکومت کے ساتھ کھیل کھیلے۔ مگرایک دن کے لئے بھی اپنے بااثر لیڈروں کو مذاکراتی وفد میں شامل نہیں کیا۔ پاکستانی قوم کے لئے ‘وہ دن بہت ہی المناک تھے‘ جب ان کی حکومت ‘ دہشت گردوں کے ہاتھوں میں کھیل رہی تھی اور اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ان کے ساتھ مذاکرات کیسے کرے؟ حقیقت میں حکومت اپنی فوجی طاقت پر بھروسہ نہیں کر پا رہی تھی۔ خداجانے‘ اگر صورتحال وہی رہتی‘ تو ہماری سویلین حکومت ‘ دہشت گردوں سے کیسی شرائط پر سمجھوتہ کرتی؟
یہ تھے وہ حالات‘ جن میں جنرل راحیل شریف نے اعلیٰ حکومتی قیادت کے احکامات کا انتظار کئے بغیر‘ خاموشی سے ''ضرب عضب ‘‘کامنصوبہ تیار کر کے‘ دہشت گردوں پر باضابطہ حملہ کر دیا۔ سب سے پہلے ان کے مضبوط فوجی مرکز کی طرف پیش قدمی کی اور جیسا کہ پاک فوج کے شایان شان تھا‘ دہشت گردوں کے مضبوط ٹھکانوں پر دیکھتے ہی دیکھتے قبضے کرنا شروع کر دیئے۔ چند ہی روز کے اندر ان کے تمام اڈوں پر قبضہ جما لیا‘ جہاں سے وہ بے بس پاکستانی ریاست پر‘ ہر طرح کی جارحیت کر رہے تھے۔ وہ ہمارے شہریوں پہ بھی وار کرتے۔ ہمارے فوجی دستوں پر حملے کرتے۔ اپنے میڈیا کے مرکز سے‘ اغواشدہ شہریوں کی خوفزدہ کرنے والی ویڈیوز بنا کر‘ ملک کے اندرپھیلاتے اور ان کے ذریعے براہ راست مجبور خاندانوں پر ہیبت طاری کر کے‘ تاوان وصول کرتے اور ہمارے ارباب اقتدار پاکستان ہی کی سرزمین پر‘ دہشت گردوں کے مضبوط مراکزمیں کارروائی سے گریزاں رہتے۔ ضرب عضب‘ جنرل راحیل شریف کا پہلا فوجی معرکہ تھا‘ جس میں انہوں نے دہشت گردوں کی طاقت کے سب سے بڑے اڈے کو دیکھتے ہی دیکھتے روند ڈالا۔ انہیں‘ چوہوں کی طرح اپنے بلوں سے نکل کر بھاگنا پڑا۔ ان کا بڑا حصہ سرحدیں عبور کر کے‘ افغانستان میں جا نکلا اور بعض حصے جنوبی پنجاب میں جا کر‘ اپنی اپنی کمین گاہیں ڈھونڈ کر روپوش ہو گئے۔ آج خدا کے فضل و کرم سے قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کے تمام مراکز کا صفایا کیا جا چکا ہے۔ اب وہ چھوٹی چھوٹی ٹولیوں کی صورت ‘ پہاڑی کمین گاہوں میں چھپتے پھر رہے ہیں۔
دہشت گردوں کا مالیاتی اڈہ ‘ کراچی کا شہر تھا۔ وہاں ان کی طاقت کا یہ عالم تھا کہ کوئی بھی سویلین حکومت ‘ دہشت گردوں پر غالب آنے کاخیال بھی ذہن میں نہیں لاتی تھی۔عام شہری دن دیہاڑے اغوا کئے جاتے۔ بھتے اور تاوان وصول کر کے‘ فراخدلی سے اخراجات کئے جاتے۔ شہر کی انتظامیہ کو دہشت گردوں نے بے بس کر رکھا تھا۔ ان حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے غنڈوں اور سماج دشمن عناصر نے ‘علیحدہ اپنی اپنی طاقت کے مراکز قائم کر لئے تھے۔ شہر کے مختلف علاقوں کو ان غنڈوں نے آپس میں تقسیم کر رکھا تھا۔ سیاسی جماعتوں نے اپنی سرپرستی میں مسلح گروہ بنا رکھے تھے۔ غرض عملی طور پر کراچی ایک لاوارث شہر تھا‘ جہاں سے لوگ دھڑا دھڑ اندرون اور بیرون ملک محفوظ مقامات دیکھ کر اپنے بال بچوں کو لے جا رہے تھے۔ رینجرز نے ‘ سیاسی انتظامیہ کے عدم تعاون کے باوجود سماج دشمن عناصر اور غنڈوں کے ساتھ طویل جنگ لڑی اور اب خدا کے فضل سے بڑی حدتک امن و امان قائم ہو گیا ہے۔ یہ تھا پرانے جنرلوں کا کارنامہ کہ پہلے پاکستان کے بڑے بڑے رقبے‘ دشمنوں کے حوالے کر دیئے اور اس کے بعد پورا ملک‘ دہشت گردوں کے کنٹرول میں دے دیا۔ جنرل راحیل شریف نے بااختیار لوگوں کے عدم تعاون کے باوجود‘ پاکستان کو دہشت گردوں سے واگزار کرانے کی جنگ جاری رکھی۔ آج پاکستان کے عام شہری‘ دہشت گردوں کے خوف سے آزاد ہو چکے ہیں۔ وہ اپنے مراکز سے محروم ہو کر ادھرادھر چھپتے پھر رہے ہیں اور پاکستان عملی طور پر دہشت گردوں کے خوف سے آزاد ہو چکا ہے۔ جنرل راحیل نے دنیا کی سب سے مشکل جنگ میں کود کر‘ اپنوں کی بے اعتنائی کے باوجود کامیابی حاصل کی۔ پاک فوج کے افسروں اور جوانوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر کے‘ وطن کی عزت و وقار کو بحال کیا۔ جدید دنیا میں یہ اپنی نوعیت کی پہلی جنگ ہے ‘جس میں کود کر جنرل راحیل شریف نے شاندار کامیابی حاصل کی۔ بھارت کے جارحیت پسند ہندو حکمران کے مذموم عزائم اور دھمکیوں کا جواب دیتے ہوئے مودی کا نام لے کر‘ اسے تنبیہ کی۔ بھارت کی خفیہ ایجنسی جو ہر وقت پاکستان کے اندر کوئی نہ کوئی کارروائی کرتی رہتی ہے‘ اس کو للکارا۔غالباً یہ پاکستان کے پہلے جنرل ہیں‘ جنہوں نے فوج کا سربراہ ہوتے ہوئے‘ زیادہ وقت ‘داخلی مورچوں‘ میدانوں‘ پہاڑوں اور صحرائوں میں اپنے آپ کو موجود رکھا۔انہوں نے وطن عزیز کے اندر رہتے ہوئے مسلح دشمنوں سے ٹکر لی اور نہ صرف انہیں شکست دی بلکہ دشمن کو بھی للکارا اور یہ الفاظ کہہ کر ''پاک فوج‘ ملکی سلامتی کے لئے کسی بھی حد تک جائے گی۔‘‘ آخری الفاظ ''پاک فوج کسی بھی حد تک جائے گی‘‘ کا مطلب دنیا کے ساتھ ساتھ ہمارا روایتی دشمن بھارت بھی اچھی طرح سمجھتا ہے۔