میں نے ابتدا سے انتہا تک بھٹو صاحب کا طرز سیاست قریب سے دیکھا ہے۔ عوام کو متحرک کرنے کی جو حیرت انگیز صلاحیتیں خدا نے انہیں دی تھیں‘ وہ اگر اپنے ہم عصر سیاستدانوں سے دور رہتے‘ توہو سکتا ہے آج پاکستان کے نظام حکومت میں مثبت تبدیلیاں آ چکی ہوتیں۔ بھٹو صاحب کو شاید اپنی طلسمی صلاحیتوں کا اندازہ نہیں تھا۔ انہوں نے ہم عصر سیاستدانوں کی چالبازیوں کا اندازہ نہیں کیا‘ جو ہمدرد اور ساتھی بن کردغا دینے میں ماہر تھے۔ یہی وہ سیاستدان تھے‘ جنہوں نے اپنا پہلا شکار ہمارے پہلے وزیراعظم کو بنایا۔ ان کی شہادت کے وقت میں پاکستانی سیاست کی فریب کاریوں اور مکاریوں سے باخبر نہیں تھا۔ جب انہیں گولی لگی تو میں یہی سمجھا کہ انہیں دشمنوں نے شہادت کے انجام تک پہنچایا۔ میں اپنے سیاستدانوں کی ان صلاحیتوں سے واقف نہیں تھا‘ جو گھاس میں چھپے سانپ کی طرح اچانک ڈس لیتے ہیں۔ جب لیاقت علی خان کو گولی لگی‘ تو میں عوام کی طرح دھاڑیں مار مار کے رویا تھا۔ ہمارے سادہ لوح عوام کو اپنے سیاستدانوں کی خصلت کا علم نہیں تھا۔ ہماری قیادت نے جدوجہد آزادی کے دوران‘ انگریز اور کانگریس دونوں کا مقابلہ کر کے‘ چند ماہ کے قلیل عرصے میں فتح حاصل کی تھی۔ قوم کو امید تھی کہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی مخلصانہ اور مدبرانہ قیادت میں ہم اپنے وطن کی تعمیروترقی کے مراحل طے کرتے ہوئے ‘ایک عظیم طاقت کھڑی کر دیں گے۔ انہیں کیا خبر تھی کہ قائد اعظمؒ کو شدید بیماری کے دوران کراچی کی جھلس دینے والی گرمی میں‘ کھلی سڑک پر بے یارومددگار چھوڑ دیاگیا ہے ۔ ان کی ایمبولینس جھلس رہی تھی اور اس کے اندر آخری سانسیں لیتے ہوئے ہمارے نحیف و نزار قائدؒ کو خالق حقیقی کی طرف آخری سفر کرنا تھا۔ پوری قوم‘ بابائے ملتؒ کے اس نادیدہ قتل کو ‘قدرتی موت سمجھ کر آہیں دھاڑیں مارتی رہی۔ عوام بے خبر تھے کہ ہمارے بابائے ملتؒ کو سازش کے تحت قتل کیا گیا ہے۔
عوام یہی سمجھ رہے تھے کہ ہمارے وزیراعظم کو ‘ جس نے بدخصلت ہندو کو اس وقت مکا دکھایا‘ جب اس نے طاقت کے زعم میں‘ ہماری سرحدوں پر اپنی افواج کو متعین کر دیا تھا‘ اس وقت مجھ جیسے ہم عمر بچوں کی یہی سوچ تھی کہ دشمن نے ‘ لیاقت علی خان سے اسی مکے کا حساب لینے کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔ جیسے جیسے میںملکی سیاست کے دائو پیچ سمجھنے لگا‘ تو پتہ چلا کہ لیاقت علی خان کا خون بہانے والے بھی سازشی سیاستدان ہی تھے۔ اصل میں جو سیاسی فصل ہمارے حصے میں آئی‘ اس کی اکثریت‘ ہندو اور انگریز کی پٹھو تھی۔ اسے ہرگز یہ گوارا نہ تھا کہ پاکستان ایک آزاد یا خودمختار ملک کی حیثیت میں ‘دشمنوں سے بہادری کے ساتھ ٹکر لے‘ جس کا مظاہرہ ہمارے وزیراعظم لیاقت علی خان نے کیا۔ سابق حکمرانوں کے حاشیہ بردار‘ اندر سے بری طرح ڈرے اور سہمے ہوئے تھے۔ وہ بابائے قوم اور قائد ملت کی دلیرانہ پالیسیوں سے خوفزدہ تھے کہ نوآموز‘ غیرمسلح اور فرسودہ اسلحے پر تکیہ کرنے والاپاکستان ‘ انگریز اور ہندو کی مشترکہ طاقت سے کس طرح ٹکر لے سکے گا؟ان سب نے اپنا نیا آقا‘ امریکہ کی شکل میں تلاش کر لیا تھا۔ جیسے ہی وہ صف اول کے دونوں قائدین کو راستے سے ہٹانے میں کامیاب ہوئے‘ ان کے ساتھی فوراً ہی اپنی خدمات کا تحفہ لے کر‘ امریکہ کے قدموں میں بیٹھ گئے اور اس کے بعد ہمارے ملک کو امریکہ کی غلامی میں دے دیا۔
اس وقت پاکستان کا ہر شہری قوم کی خوابیدہ صلاحیتوں کو بیدار کر کے‘ اسے زندہ اور آزاد قوموں کی صف میں شامل کرنے کا خواہش مند تھا۔ یہ ذوالفقار علی بھٹو ہی تھا‘ جس نے ایوب خان کو آزادی کشمیر کے منصوبے پر عملدرآمد کے لئے آمادہ کیا ۔ ایوب خان نے پہلے مرحلے پر بھارت کو جھٹکا دیا‘ تو ساری طاقتوں نے یکجا ہو کر ایوب خان پر اتنا دبائو ڈالا کہ وہ آزادی کشمیر کے خیال سے دستبردار ہوکر‘ بھارت کے سامنے سرنگوں ہو گیا۔ ایوب آمریت کے کل پرزوں نے اس کی شہ پر مقبوضہ کشمیر پر حملے کا ذمہ دار بھٹو کو ٹھہرانا شروع کر دیا۔ آپ کو وہ فراموش کردہ کہانیاں شاید یاد آ جائیں‘ جن میں کہا گیا تھا کہ کشمیر پر حملے کے لئے‘ بھٹونے ایوب خان کو بہکایا تھا۔ غالباً یہی کہانی اس دور کی عالمی طاقتوں کے حکمرانوں کو بتائی گئی ‘ جس کے نتیجے میں وہ آخر تک بھٹوکو قتل کرنے پر تلے رہے۔ ایوب خان خود بھی امریکہ اور اس کے ساتھیوں کی طاقت سے ڈر چکا تھا۔ مجھے یاد ہے جب پاکستان کے پہلے فوجی حکمران کو ‘بڑی طاقتوں نے ڈرایا‘ تو وہ فوراً ہی جنگ بندی پر تیار ہو گیا۔ایوب نے اپنی عزت بچانے کے لئے امریکہ جا کر وہاں کے حکمرانوں سے مدد مانگی کہ وہ بھارت کے ساتھ جنگ بندی کا آبرومندانہ معاہدہ کرا دے۔ لیکن امریکہ نے ایوب خان کو اچھی طرح یہ باور کرانے کے لئے کہ وہ بھارت سے ٹکر نہیں لے سکتا‘ سوویت یونین کے پاس بھیجا۔ مذاکرات کے لئے تاشقند کا مقام منتخب کیا گیا۔ وہیں پاکستان پر معاہدہ تاشقند مسلط کیا گیا۔ بھٹو اس معاہدے پر سخت غم زدہ تھے۔ انہوں نے پاکستان واپس آ کر‘ عوام کو معاہدہ تاشقند کے خلاف منظم کرنے کی بہت کوشش کی۔ سامراج کے حاشیہ برداروں نے منظم ہو کر بھٹو کی کردار کشی کی۔ لیکن انہوںنے رائے عامہ کو سامراجی سازشوں کے خلاف کھڑے کر کے‘ 1970ء کے انتخابات میں عوام کے انقلابی شعور کی پہلی جھلک دکھائی‘ جب ذوالفقار علی بھٹو بھاری اکثریت سے عوام کے ووٹ لے کر ایک طاقتور سیاست کی حیثیت میں ابھرا۔
یحییٰ خان جو ایوب خان کو راستے سے ہٹا کر‘ خود اقتدار پر قابض ہو چکا تھا‘ نئی سامراجی سازش کا حصہ بن کر ‘ ذوالفقار علی بھٹو کو راستے سے ہٹانے کی سازش میں شریک ہو گیا۔ پاکستان کو تعمیروترقی کے راستے سے ہٹانے کے لئے ‘اس سازش کا دوسرا مرحلہ شروع کیا گیا‘ جو بھٹو کی حیرت انگیز انتخابی کامیابی کو ناکام بنانے کے منصوبے کا حصہ تھا۔مشرقی پاکستان میں حکمران طبقوں کے خلاف بپھرے ہوئے عوام کا رخ ‘ پاکستانی افواج کے خلاف کر دیا گیا۔ شیخ مجیب کو پاک افواج کا قیدی بنا کر‘ مشرقی پاکستان کا ہیرو بنا یا گیا۔ امریکی بلاک کے حاشیہ بردار مسلمان سربراہوں کو ‘ اسلامی کانفرنس کے نام پر لاہور میں یکجا کر کے‘ ایسا ماحول بنایا گیا‘ جس میں پاکستانی حکومت کو بنگلہ دیش قبول کرنے پر آمادہ ہونا پڑا۔ پاکستان کے دو ٹکڑوں کو آزاد ممالک کی حیثیت دے کر ‘ اصل پاکستان کو تاریخ کی کہانی بنا دیا گیا۔
شکست خوردہ پاکستان کو خانہ جنگی سے بچانے کے لئے ‘اقتدار بھٹو کے سپرد کیا گیا۔ اس نے نئے پاکستان کے پرانے شکست خوردہ سیاستدانوں کو یکجا کر کے‘ پہلا آئین پاس کرایا اور سمجھ لیا کہ سیاستدانوں کا یہ ٹولہ‘ عوام کی طاقت منظم کرنے میں اس کی مدد کرے گا۔ مگر اسے کیا خبر تھی کہ ایک دن یہی روایتی پٹھو سیاستدان‘ فوج کے ساتھ مل کر‘ بھٹو کے اس خواب کو پھانسی پر چڑھا دیں گے‘ جس میں وہ عوام کی طاقت سے پاکستان کو ایک مضبوط ملک بنانے کی اپنی کامیابی دیکھ رہا تھا۔ ضیاالحق نے بھٹو کو پھانسی دے کر ہمیشہ کے لئے آزادخیال اور عوام دوست سیاستدانوں کو بری طرح سے کمزور اور بے حوصلہ کر دیا۔ آج بھٹو کی پارٹی ‘ سرمایہ دار حکمرانوں کی حاشیہ برداری کر رہی ہے۔ ایک مخلص اور جذباتی سیاستدان ‘عمران خان نے ‘عوامی طاقت کو منظم کرنے کی جو ابتدائی کوششیں کی تھیں‘ مخالفین نے ایک بار پھر یکجا ہو کر‘ بھٹو دشمن سیاستدانوں کی حکومت کو سہارا دیا۔ نام نہاد پارلیمنٹ میں بظاہربھٹو کی پارٹی سے تعلق رکھنے والے قائد حزب اختلاف نے‘ جذبات سے بھری ایسی تقریر کی‘ جیسے وہ جمہوریت اور عوام دوستی پر یقین رکھتے ہیں۔ عمران خان ‘سیاسی نظام بدلنے کے لئے انہی چھوٹے چھوٹے سیاسی گروہوں سے تعاون کا طلبگار ہے‘ جو اسے سیاسی منظر سے ہٹانے کی مختلف ڈیوٹیوں پر مامور کئے گئے ہیں۔عوام کی یکلخت بیداری کا معجزہ رونما ہو گیا‘ تو ہو سکتا ہے عمران کے بچائو کی صورت نکل آئے‘ ورنہ اس کے سامنے بھی دو ہی راستے ہیں۔شکست۔ یا شہادت۔ جن کفن فروشوں کو ساتھ ملا کر‘ عمران خان تبدیلی کے خواب دیکھ رہے ہیں‘ ان میں سے ہر ایک نے بیعانہ پکڑ رکھا ہے۔وہ صرف دو ہی چیزیں دے سکتے ہیں۔ شکست یا شہادت۔تیسری چیز صرف قدرت کے ہاتھ میں ہے۔ وہ ہے کامیابی۔