لگتا ہے رینجرز کی بے شمار قربانیوں‘ انتھک محنت‘ پیشہ وارانہ صلاحیتوں کے استعمال اور شکنجے میں آئے ہوئے کراچی شہر کی خوف زدہ آسودگی‘ سب کا رائیگاں جانا‘ اب زیادہ دور نہیں رہ گیا۔ پاکستان کا یہ خوب صورت‘ گنجان آباد‘ صاف ستھرا اور پر امن شہر‘ ایک نئی تنظیم کے سر اٹھانے کے بعد‘ اس پر ایک آسیب کا سایہ پڑا اور ابھی تک یہ آسیب‘ دہشت کی ماری شہری آبادی کا پیچھا نہیں چھوڑ رہا۔رینجرز کی بے شمار قربانیوں کے بعد‘شہریوں کے کشیدہ اعصاب کو ذرا سی تسکین حاصل ہوئی تھی اور قدرت نے اہل کراچی کو سکون کا سانس لینے کا ایک سنہرا موقع فراہم کیاتھا۔ مسٹربانی (الطاف بھائی)کے چلائے ہوئے انگنت تیروں میں سے ایک تیر ‘خوش نصیبی سے نشانے پر لگ گیا اور ''پاکستان مردہ باد‘‘( خاکم بدہن) کا نعرہ ‘زخم خوردہ پاکستانی قوم کے حوصلے بلند کرنے کا ذریعہ بن گیا۔یہ ایسے مواقع ہوتے ہیں جب خطرات میں گری ہوئی قومیں‘ اپنے اوسان جمع کر کے‘ نئی طاقت اور توانائی کے ساتھ‘ آنے والے دنوں میں آسودگی بھر دیتی ہیں۔رینجرز نے حالات سازگار بنائے تھے لیکن مسٹر بانی نے ضرورت سے زیادہ بلند حوصلے کے گھوڑے پہ چڑھ کے‘ ساری قوم کے سینے پر گہراگھائو لگادیا ۔ اس کے بعد‘قوم میں پاکستان بچانے کا جذبہ اورزیادہ مضبوط اور طاقتور ہو گیا۔ یہ دیکھ کر‘مسٹر بانی کے پیروکار‘ سہم کر خفیہ گوشوں اور کونے کھدروں میں بیٹھ گئے۔
وہ منظر عام پر آنے کی راہیں اور بہانے تلاش کر رہے تھے۔انہوں نے بے شمار عذریات کے سر کنڈوں سے ‘اپنا سر باہر نکال کر دائیں بائیں دیکھا اور جلد ہی بھانپ لیا کہ زود فراموش پاکستانی قوم‘ اپنے معمولات میں پھر سے مست ہونے لگی ہے۔ تیزی وطراری کی بھر پور شہرت رکھنے والے اس گروہ نے ‘کمال ہنر مندی سے خود کو نئے حالات کے سانچے میں اتنی مہارت سے ڈھالا کہ اس کا نام‘ اس کا لیڈر‘ اس کی تنظیم ‘غرض یہ کہ اس نے تمام سماجی ساختیں بھی محفوظ کر لیں اور پاکستانی قوم کے سینے پر جو زخم لگایا تھا‘ اسے بھی نظروں سے اوجھل کر دیا۔اس کے کارندے بڑی احتیاط سے پھونک پھونک کر قدم بڑھاتے ہوئے پھر سے منظم ہونے کی تیاریاں کر رہے تھے کہ سندھ میں اناڑیوں کی حکومت نے یکے بعد دیگرے ‘ایسے اقدامات کئے کہ خوف سے سر کنڈوں میں سر چھپائے بیٹھے تمام کارندے‘ عجیب و غریب آوازیں نکالتے ہوئے منظر عام پر آگئے۔ صبح تک جو اپنی شناختوں پرترپالیں ڈالے‘ بھلے وقتوں کے انتظار میں پڑے تھے‘د وپہر ڈھلنے تک اتنی تیزی سے متحرک ہوئے کہ اب حکومت پچھلے قدموں پر چلتی ہوئی‘ دیوار کی طرف بڑھ رہی ہے اور اتنی پست ہمتی سے پیچھے ہٹ رہی ہے کہ مسٹر بانی کی فوج کا لشکر‘جو بے حوصلہ اور غیر منظم ہونے لگا تھا‘ وہ پھر سے جمع ہوکر مسٹر بانی کے حق میںنعرے بلند کرنے لگاہے۔ گزشتہ رات مسٹر بانی کی سالگرہ کے جشن دھوم دھام سے منائے گئے۔ دیواروں پر اس کے حق میں نعرے لکھ دئیے گئے۔مسٹر بانی کے لئے دعائوں اور خیر سگالیوں پرمشتمل پمفلٹ ‘دست بدست بانٹے گئے۔ نجی محفلوں میں مسٹر بانی کے حق میں موسیقی کے ساتھ ترانے گائے گئے۔ احتیاط سے نعرے لگائے گئے اور یہ دعوے کئے گئے کہ وہ دن دور نہیں‘جب نہ صرف پرانے واپس آئیں گے بلکہ نئی فتوحات بھی حاصل کی جائیں گی۔ یوں لگ رہا تھا کہ مسٹر بانی نے دوسری قوموں کو پاکستان کے خلاف اکساتے ہوئے‘ جن تیاریوں کی دعوت دی تھی اور جو تھوڑی دیر کے لئے تھک گئی تھیں ‘ وہ دوبارہ پاکستان کو گھیرے میں لینے کے نا مکمل منصوبوں کوازسر نو مکمل کرنے میں مصروف ہو چکی ہیں۔
پاکستان کی تباہی و بربادی کے لئے تیار کئے گئے ان منصوبوں کی جگہ‘ جنہیں پاک فوج نے اپنا خون بہا کر ملیا میٹ کر دیا تھا‘ نئے منصوبوں کی تیاری شروع ہو چکی ہے۔ افغانستان تیزی کے ساتھ بھارت کا بغل بچہ بن کر‘ دہشت گردوں کے زخم خوردہ پاکستان کو نئی تیاریوں اور اتحادیوں کے ساتھ مل کر‘نئے زخم لگانے کے در پے ہے۔ بھارت جو کچھ کرتا رہتا تھا‘ اس میں اب مزیدتیزی آجائے گی۔ بھارت کی اس تیزی کا سبب ‘وہ اپیل ہے جو مسٹر بانی نے پاکستان دشمنوں سے کی ہے۔جنوبی افریقہ کا روٹ پھر سے حرکت میں آچکا ہے۔ ایس ایس پی ‘رائو انوار اس کی راہ میں روڑا بنتا دکھائی دینے لگا تھا لیکن سندھ حکومت کی چست رفتاری کی لپیٹ میں آکر‘ وہ اپنی جگہ سے ہل گیا ہے۔ دوبارہ اسے اپنی جگہ لینے میں بہت وقت لگے گا اور تب تک بہت وقت گزر گیا ہو گا۔نئے راستے بن جائیں گے۔ فاصلوں کی طوالتیں کم ہونے لگیں گی۔ اور مسٹر بانی کی پاکستان کو دنیا کے نقشے سے مٹانے(خاکم بدہن) کے منصوبے میں نئے اتحادی اپنا حصہ ڈالنا شروع کر دیں گے۔ یہ اتحادی دائیں بائیں‘ آگے پیچھے اور اوپر نیچے سے یوں سر اٹھاتے نظر آنے لگیں گے کہ ہمیں اصل منظروں پر نگاہیں جمانا مشکل ہو جائے گا۔رائو انوار‘ مسٹر بانی اوراس کے مریدوںکاپرانا ہدف ہے۔یہ ان فرض شناس پولیس ملازمین میں سے ایک ہے‘ جو1992ء میں سینہ تان کر دہشت گردوں اور قاتلوں کے سامنے کھڑے ہو گئے تھے۔بھتہ خوروںاور ٹارگٹ کلرز پر ان کی ہیبت طاری تھی ۔ اس وقت کی انتظامیہ بھی سندھ کی موجودہ حکومت کی طرح پیچھے قدم ہٹا کر‘ یہ سمجھ رہی تھی کہ وہ اب محفوظ ہو جائے گی۔ لیکن پیچھے قدم ہٹانے والے رک یا جم کر خطرات کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ایسے وقت میں پیپلز پارٹی کی شیر دل رہنما‘ محترمہ بے نظیر بھٹو میدان میں آئیں اور انہوں نے سامنے کھڑے ہو کر‘ ان کا مقابلہ کیا۔ اس وقت کی پولیس نے بی بی کا پورا پورا ساتھ دیا اور مسٹر بانی کے جنگجو یا مارے گئے یا بھاگ نکلے۔لیکن مسٹر بانی کے دل میں آیا ہوا کینہ‘ پنجے گاڑ کر مناسب وقت کے انتظار میں بیٹھ جاتا ہے اور وہ مناسب وقت جلد ہی آگیا۔ مسٹر بانی ایک بار پھر سندھ حکومت میں طاقتور حصے دار بن گیا۔ وہ اپنے کاموں کے لئے حکومتی مشینری کبھی استعمال نہیں کرتا۔اس نے اپنے کارندوں کو میدان میں اتارا اور پولیس کے وہ اہلکار اور افسر‘ جنہوں نے مسٹر بانی کے کارندوں کی درگت بنائی تھی‘ انہیں چن چن کر گولیوں کا نشانہ بنا دیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس مہم میں پولیس کے قریباً سوا سو ملازمین کو مختلف حالات میں گولیوں کا نشانہ بنا کر‘ ہلاک کر دیا گیا۔ کسی کو سڑک پر پھڑکایا گیا۔ کسی کو موٹرسائیکل پر جاتے ہوئے ‘موت کے منہ میں دھکیلا گیا۔ کسی کی کار کو الٹا کر‘ اسے دنیا سے رخصت کیا گیا۔صرف رائو انوار ایک ایسا پولیس آفیسر تھا‘ جس نے ڈٹ کر مسٹر بانی کے نشانچیوں کا مقابلہ کیا اور آج تک نہ صرف زندہ رہنے میں کامیاب رہا بلکہ جہاں موقع ملا‘ اس نے مسٹر بانی کے مریدوں سے ٹکر لی۔ سندھ کی موجودہ حکمران ٹیم‘ ابھی اپنے قدم نہیں جما پائی۔ مسٹر بانی کے حامی‘ اپنی اپنی پوزیشنیں سنبھالنے میں مصروف ہیں۔ان کا پہلا ہتھیار جذباتی نوجوان ہوتے ہیں‘جو مسٹر بانی کے شہ پر‘ ا پنے سر ہتھیلیوں پر رکھ کر میدانوں میں نکل آتے ہیں۔جلد ہی ہماری ایجنسیوں کو یہ خبریں ملنا شروع ہو جائیں گی کہ کچھ سر پھرے نوجوان‘ کہاں کہاں سے تربیت حاصل کر کے‘ نئے نئے حربوں اور ہتھیاروں کے ساتھ‘ پاکستان میں داخل ہو گئے ہیں؟ اور پھر چل سو چل۔
پاک فوج نے کراچی میں دہشتگردی کے جن مراکز کو توڑ پھوڑ کر‘ مسٹر بانی کی کمین گاہوں کو مسمار کیا تھا‘ اب وہ پھر سے آراستہ ہوں گی اور یہی حکومت‘ تعمیر نو کر کے اس کے ساتھیوں کی خدمت میں پیش کر یگی۔میری نظر میں اب وہ وقت باقی نہیں رہ گیا‘ جس میں فوج شہر کے اندر آئے اور تیز رفتاری سے کامیابی حاصل کر لے۔ اب اسے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔جنوبی افریقہ سے جدید تربیت اور ہتھیاروں سے مسلح نوجوانوں کے دستے ‘کراچی میں داخل ہو چکے ہونگے۔ رائو انوار‘ان کی آمد کا انکشاف کر کے‘ اپنی زندگی خطرے میں ڈال چکے ہیں۔ اب تقدیر ہی ان کو تحفظ دے پائے گی۔نئے معرکے میں‘ نئے نئے اتحادی منظر عام پر آئیں گے۔ ملائوں کے شدید مخالف مسٹر بانی‘ ان کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر‘پاکستان کو زخم دینے کی ناپاک جدوجہد میں ایک دوسرے کے ساتھی ہوں گے اور محب وطن پاکستانیوں کو ان کی مشترکہ طاقت سے لڑنا ہو گا۔سندھ پر حکومت کرنے والی بچہ پارٹی ‘سردو گرم چشیدہ جنگجو ئوں کی پیش قدمی کیسے روکے گی؟