ہماری وزارت خارجہ میں ''بابوئوں‘‘ کی بھرمار کا جو نتیجہ برآمد ہو سکتا تھا‘ ہو گیا۔ جب قومیں داخلی یا بیرونی طاقتوں کے تسلط کے خلاف جدوجہد کرتی ہیں تو عموماً اس جدوجہد کو انقلابی تحریک کا نام دیا جاتا ہے۔ بیشتر ملکوں میں عوام کی انقلابی تحریکوں نے طویل جدوجہد کا راستہ بھی اختیار کیا اور راتوں رات حکومتیں بدلنے کے تجربات سے بھی گزرے۔ لیکن عہد حاضر میں انقلاب کے کامیاب تجربے سے چین گزر رہا ہے۔ یہ اپنی طرز کا واحد انقلاب ہے‘ جس میں عوام اور قیادت نے مل کر حکمران طبقوں کو اس طرح شکست دی کہ پلٹ کر انقلاب کے پہیے کو الٹا نہ چلایا جا سکا۔ کسی بھی انقلاب کی آزمائش کے لئے 70 سال کا عرصہ کافی ہوتا ہے۔ انقلاب روس نے متعدد تجربات سے گزرتے ہوئے 73 سال بمشکل پورے کئے۔ میں نے شمالی کوریا کے عوام کی حالت زار دیکھی ہے۔ اتنا ظلم اور جبر جس کا شکار شمالی کوریا کے عوام کئی عشروں سے ہوتے آ رہے ہیں‘ اسے انقلاب کا نام دینا بھی‘ انقلاب کی توہین ہے۔ فلسطین کا المناک تجربہ گزشتہ صدی میں رونما ہونے والی تبدیلیوں میں انتہائی عبرتناک ہے۔ صہیونیوں نے‘ فلسطین پر قبضہ جمانے کے لئے اپنے دور کی تمام سامراجی طاقتوں کو اپنے حق میں استعمال کرکے‘ غیرمنظم اور سیاسی قیادت سے محروم فلسطینیوں کو‘ ایک آزاد قوم سے غیر منظم غلاموں کے گروہوں میں کیسے بدلا؟ یہ بھی انسانی تاریخ کا بدترین تجربہ ہے۔ پوری کی پوری فلسطینی قوم منتشر اور ملکوں ملکوں بکھر کے‘ عالمی سامراج کے شکنجے میں اس بری طرح سے جکڑی گئی کہ اب اس کے پاس موجود ارض فلسطین کے تھوڑے سے پسماندہ علاقے کو تین چار ٹکڑوں میں بانٹ کر‘ اسرائیلی فوجوں کی نگرانی میں دے دیا گیا ہے۔ جو فلسطینی براہ راست اسرائیلیوں کے زیر تسلط ہیں‘ ان کی حیثیت غلاموں کی سی ہے‘ جبکہ جن دوسرے چند شہروں میں فلسطینی اپنا نظم و نسق خود چلاتے ہیں‘ ان کی حالت اور بھی ابتر ہے۔
مثال کے طور پر غزہ‘ نام نہاد فلسطینی ریاست اور اس کے زیر انتظام چند چھوٹے شہروں کو برائے نام فلسطینیوں کے زیر انتظام قرار دے کر‘ ان پر خود مختاری کی تہمت لگا دی گئی ہے۔ ان علاقوں میں بسنے والوں نے ناتواں بازوئوں سے غلامی کی زنجیریں توڑنے کے لئے سر اٹھایا تو انہیں بری طرح سے موج در موج پامال کیا جا رہا ہے۔ انتفاضہ‘ عرب ممالک کے پسے ہوئے عوام کی متعدد ناکام بغاوتوں کا اجتماعی نام ہے۔ مایوس اور تھکی ہوئی نسلوں کے زیر سایہ پلنے والے باغی نوجوانوں کے منتشر اور مختلف گروہوں کو انتفاضہ کہا جاتا ہے۔ عالمی سامراج کے حاشیہ برداروں پر مشتمل حکومتوں کے اہلکار جب قابض غیر ملکی افواج سے ٹکرانے والے نوجوانوں کی کسی تحریک کا کوئی عنوان تجویز کرتے ہیں تو ان کا سانچہ بند ذہن آزادی کی ناکام تحریکوں کی طرف جاتا ہے۔ ایسے ہی ذہن مقبوضہ کشمیر کے آزادی پسند نوجوانوں کے جذبہ آزادی کو پہچان دینے پر مامور کئے جاتے ہیں تو وہ انہیں ''انتفاضہ‘‘ کا نام دیتے ہوئے ذرا نہیں جھجکتے۔ ان کے نزدیک نوجوانوں کی ہر تحریک آزادی‘ انتفاضہ ہوتی ہے۔ وہ اپنی محدود سوچ میں کشمیریوں کی تحریک آزادی کو انتفاضہ کے سوا کوئی اور نام نہیں دے سکتے۔
کشمیریوں کی تحریک آزادی ایسی بے بسی کی حالت میں نہیں‘ جس پر انتفاضہ کا لیبل لگایا جا سکے۔ کشمیری مسلمانوں نے اپنا مستقبل برصغیر کے مسلمانوں کی تحریک آزادی سے وابستہ کیا تھا۔ وہ برصغیر کی مجموعی آزادی کے اس حصے میں شامل تھے جو آج پاکستان ہے۔ انہیں غیروں کی سازشوں اور اپنوں کی کوتاہ اندیشیوں نے موجودہ حالت میں پہنچایا ہے۔ برصغیر کو تقسیم کے جس فارمولے کے تحت آزادی ملی‘ اس میں ریاست جموں و کشمیر پاکستان کا حصہ تھی۔ کشمیر کا مہاراجہ آزادی کے فارمولے سے خوفزدہ تھا۔ وہ جانتا تھا کہ جموں و کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور جب بھی رائے شماری ہوئی جموں و کشمیر کی ریاست پاکستان کا حصہ بنے گی۔ فارمولا یہ تھا کہ جو ریاستیں پاکستان اور بھارت میں سے کسی ایک ملک کی حدود کے اندر واقع ہوں‘ وہ اسی ملک کا حصہ قرار پائیں گی۔ البتہ جو ریاستیں دونوں ملکوں کی سرحدوں پر واقع ہوں‘ وہاں کے حکمران‘ آبادی کی اکثریت کی رضامندی سے‘ پاکستان یا بھارت میں شمولیت کا فیصلہ کریں گے۔ مثلاً حیدر آباد دکن کا حکمران مسلمان تھا‘ جبکہ آبادی کی اکثریت ہندو تھی۔ نواب آف حیدر آباد نے اپنی ریاست کو آزاد و خود مختار بنانے کی کوشش کی۔ بھارت نے فوج کشی کرکے اس پر قبضہ کر لیا۔ بہاولپور میں آبادی کی اکثریت بھی مسلمان تھی اور حکمران بھی۔ وہاں کوئی جھگڑا پیدا نہ ہوا۔ ریاست بہاولپور پاکستان کا حصہ بن گئی۔ جونا گڑھ اور مناودر‘ بڑودہ کی الحاقی ریاستیں تھیں‘ لیکن ان دونوں نے پاکستان میں شمولیت کا اعلان کیا جبکہ بڑودہ نے بھارت میں شامل ہونے کا اعلان کر دیا۔ بھارت نے جونا گڑھ اور مناودر کو بھی بڑودہ کے ساتھ ہی اپنے ملک میں شامل کر لیا‘ ہرچند پاکستان نے کئی برس تک جونا گڑھ اور مناودر پر اپنا دعویٰ قائم رکھا‘ جو شاید آج بھی کہیں فائلوں میں دبا پڑا ہو۔ بھارت کے پاس فوجی طاقت موجود تھی اور حیدر آباد مکمل طور پر بھارت کے حصار میں تھا۔ سید قاسم رضوی نے مسلمان حکمران کے حق حکمرانی کو منوانے کے لئے بغاوت کر دی۔ یہ اس وقت کے تاریخی اور جغرافیائی حالات میں ایک بلاجواز فیصلہ تھا۔ بھارت نے فوج کشی کرکے حیدر آباد کی مقامی پولیس کو شکست دے کر قبضہ کر لیا اور قصہ تمام ہوا۔
جموں و کشمیر کی صورتحال مختلف تھی۔ وہاں آبادی کی اکثریت مسلمان تھی جبکہ مہاراجہ ہندو تھا۔ وہ بروقت فیصلہ کرنے سے قاصر رہا‘ جبکہ اصولی طور پر اسے اپنی اکثریتی مسلمان آبادی کو پیش نظر رکھتے ہوئے پاکستان میں شمولیت کا اعلان کر دینا چاہیے تھا۔ بھارتی حکومت مہاراجہ کے ساتھ جوڑ توڑ کرنے میں لگی رہی‘ جبکہ پاکستانی فوج کے بعض جونیئر افسروں نے مسلح قبائلیوں کو ساتھ لے کر سری نگر پر حملہ کر دیا۔ بدنصیبی سے یہ پاک فوج کی باضابطہ کارروائی نہیں تھی۔ مجاہدین اور باغی پاکستانی سپاہی‘ سری نگر کے ہوائی اڈے‘ شیخ العالم ایئرپورٹ پر قبضہ کرکے شہر کی طرف نکل گئے اور قبائلی لوٹ مار کرنے بازاروں اور آبادیوں کی طرف جا نکلے۔ پاکستانی فوجی انہیں روکتے رہ گئے۔ ان کی تعداد انتہائی کم تھی۔ ہوائی اڈے پر قبضہ برقرار رکھنا ان کے اختیار میں نہیں تھا۔ اسی اثنا میں بھارت نے اپنے فوجی دستے شیخ العالم ایئرپورٹ پر اتار دیئے۔ باغی قبائل لوٹ کا مال لے کر واپس پاکستان چلے گئے۔ لوٹ کا یہ مال کئی ماہ تک لال کرتی بازار کے چوک میں نیلام ہوتا رہا۔ بھارتی حکومت مہاراجہ پر دبائو ڈالتی رہی کہ وہ بھارت میں شمولیت کا اعلان کر دے‘ لیکن مہاراجہ اپنا دائو کھیل رہا تھا۔ وہ ایک طرف بھارت سے مذاکرات کرتا رہا اور دوسری طرف پاکستان کے ساتھ۔ اس کی کوشش تھی کہ اسے خود مختار ریاست جموں و کشمیر کا حکمران تسلیم کر لیا جائے‘ جو پاکستان اور بھارت دونوں نہیں مانے۔ یہ تنازعہ بڑھتے بڑھتے اقوام متحدہ میں چلا گیا۔ متعدد فارمولے زیر بحث آئے۔ آخر میں اقوام متحدہ کی اس قرارداد پر اتفاق رائے ہوا کہ پاکستان اور بھارت دونوں اپنی افواج کشمیر سے نکال لیںگے اور امن و امان برقرار رکھنے کے لئے بھارت مطلوبہ پولیس فورس وہاں متعین رکھے گا‘ جو استصواب رائے کا بندوبست کرے گی۔ کئی مواقع ایسے آئے جب پاکستان اور بھارت ریاست کو مشترکہ کنٹرول میں لے سکتے تھے‘ مگر باہمی بدگمانیوں کے سبب ایسا نہ ہوا اور آج ہم انتفاضہ تک پہنچ گئے ہیں اور مجاہدین آزادی کی جدوجہد کو یہ نام بھی پاکستان نے دیا۔ وزارت خارجہ پر بابو ''نافذ‘‘ کر دیئے جائیں تو نتیجہ یہی ہونا تھا۔ پاکستان اور بھارت اگر دونوں ریاست جموں و کشمیر کے عوام کو ان کے حال پر چھوڑ دیتے تو برصغیر امن اور آسودگی کے دور میں داخل ہو سکتا تھا۔ ایک ایک کرکے سارے مواقع نکلتے چلے گئے۔ ہمارے حکمران ‘ امریکہ کے پٹھو بن کر‘ اس کی مدد سے کشمیر حاصل کرنے کے جتن کرتے رہے۔ آج اصل وادی کشمیر پر بھارت کا قبضہ ہے اور امریکہ بھی بھارت کا اتحادی بن کر ہمیں بے دست و پا کرنے کے لئے جال بن رہا ہے۔ ریاست جموں و کشمیر کے اصل وارثوں کی جنگ آزادی کو ہم نے خود ہی یو این کی جنرل اسمبلی میں جا کر انتفاضہ قرار دے دیا۔ کیا یہ اعتراف حقیقت ہے؟ سارا یورپی اور امریکی بلاک اسرائیل کا پشت پناہ ہے اور آزادی کے لئے لڑنے والے انتفاضہ۔ آج یورپ اور امریکہ‘ بھارت کے مددگار ہیں اور جنگ آزادی لڑنے والوں کو ہم نے خود انتفاضہ قرار دے دیا ہے۔