آج میں نے بھارتی ٹیلی ویژن پر وہاں کے جنگی ماہرین کا ایک حیرت انگیز منصوبہ دیکھا اور غالباً یہ سالِ رواں کی سب سے دلچسپ درفنطنی تھی۔ موصوف نے ایک بریفنگ دیتے ہوئے اس خوفناک منصوبے کی تفصیلات بیان کیں، جس کے تحت وہ پاکستان کو صحرا میں بدل دینے کی وہ ترکیب بتا رہے تھے‘ جو انہوں نے پاکستان کو سزا دینے کے لئے تیار کیا ہے۔اس حیر ت انگیز منصوبے کے مطابق‘ پاکستان میں داخل ہونے والے سارے دریا‘ کشمیر کے اس حصے سے نکلتے ہیں‘ جو تادم تحریر بھارتی کنٹرول میں ہے۔ماہر موصوف نے بتایا کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر سے پاکستان میں داخل ہونے والے دریائوں کا پانی‘ ایک معاہدے کے تحت‘ پاکستان کو دے رکھا ہے۔ یہ معاہدہ اسی وقت تک موثر رہے گا‘ جب تک دونوں فریق اس پر عملدرآمد کے لئے رضا مند ہوں گے۔اگر بھارت یکطرفہ طور پر یہ پانی بند کرنے کا فیصلہ کرتا ہے تو پاکستان تھوڑے ہی دنوں میں صحرا میں بدل جائے گا۔ اس کے بعد موصوف نے ایک ایسی درد ناک تصویر کھینچی کہ پیاس کی شدت سے میرا حلق خشک ہو گیا۔ زبان پر چھالے پڑ گئے۔اور میں سوچنے لگا کہ اگر واقعی بھارت نے ہمارے دریائوں کا پانی بند کر دیا‘ تو ہمارا کیا بنے گا؟ہم پر خشک سالی کا حملہ کر کے‘ بھارت نے جنگ جیتنے کا جو منصوبہ پیش کیا‘ اس کی حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین‘ دریائوں کے پانی کی تقسیم کا جو معاہدہ طے پایا تھا‘ اس کے تین فریق ہیں۔پاکستان‘ بھارت اورعالمی بنک۔عالمی بنک نے ضمانت دے رکھی ہے کہ پاکستان اور بھارت دونوں میں سے اگر ایک فریق نے معاہدے کی خلاف ورزی کی تو عالمی بنک اس کا ضامن ہو گا۔موجودہ سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے اگر بھارت جیسا ملک‘ عالمی بنک کے ساتھ بد عہدی کا مرتکب ہوتا ہے‘ توپھر اصل سزا کس کو ملے گی؟
بھارت سرمائے کی عالمی منڈی میں ناقابل اعتبار ٹھہرے گا۔ کوئی اس کے ساتھ لین دین پر تیار نہ ہو گا۔ اقوام عالم کے سارے بنک اس کے ساتھ لین دین سے انکار کر دیں گے۔ بھارتی سرمایہ داروں کو اپنے برآمداتی سودوں کی قیمت ملنا دشوار ہو جائے گی۔بھارت جو مشکل سے نیم سوشلسٹ نظام سے باہر نکل کر‘ عالمی سرمائے کی منڈی میں داخل ہوا ہے‘ اس کا اعتبار ایک بار پھر اٹھ جائے گا۔ہمیں تو معاہدے کے مطابق ‘دریائوں کا پانی دلانے کا ذمہ دار عالمی بنک ہے لیکن عالمی بنک کے ساتھ‘ بھارت جو وعدہ شکنی کرے گا‘ اس کا ہرجانہ بھارت کیسے بھرے گا؟ آئندہ کے لئے اس کے ساتھ لین دین کون کرے گا؟ پاکستان کو سزا دینا تو بھارت کے اختیار میں نہیں ہوگا لیکن عالمی بنک کی طرف سے ‘اسے وعدہ شکنی کی سزا ضرور مل جائے گی‘ جومعمولی ہے۔ اصل سزا تو اسے بھرپور منافع کے ساتھ پانی کی صورت میں ملے گی‘جو وہ ہمیں دینے کے لئے تیاریاں کر رہا ہے ۔ بھارت کی مادرِ آب ہر طرف سے چین کی مٹھی میں ہے۔پاکستان اور چین کے مفادات اب سانجھے ہو گئے ہیں ۔ اگر بھارت ہمارا پانی روکے گا تو چین کو یہ حق حاصل ہو گا کہ وہ اپنے شراکت دار کا پانی روکنے والے بھارت کے ساتھ وہی سلوک شروع کر دے‘ جو وہ ہمارے ساتھ کر رہا ہو گا۔ یونہی نہیں کہا جاتا کہ پاکستان ‘ مملکت خدادادِ پاکستان ہے۔ اس کی حفاظت کا ذمہ‘ خالقِ کائنات نے خود لے رکھا ہے۔ جب تک ہم خود اس کی بربادی پر نہ تُل جائیں ، بھارت کی کیا مجال ہے کہ پاکستان کو صحرا میں بدل سکے؟بھارتی حکمران اسی گمان میں ہوں گے کہ پاکستان کو ابھی تک جو نقصانات پہنچے ہیں‘ ان کے ذمہ دار‘ بھارتی سورما ہیں۔ جس وادی کشمیر پر وہ قبضہ کر کے اترا رہے ہیں‘ وہ غیر منظم جنگجوئوں کی حماقت اور ہوس ِزر تھی۔ جس کی وجہ سے وہ سری نگر کو فتح کرنے کے بجائے ‘لوٹ مار میں جُت گئے۔ ورنہ قبائلی لشکر سری نگر کے ہوائی اڈے کو فتح کر کے بیٹھ جاتے تو بھارتیوں کی ساری فوج بھی کشمیر پر قبضہ نہ کر سکتی۔آج پورے 70سال کے بعد جبکہ بھارت‘ دنیا کی بڑی فوجی طاقتوں میں شمار ہونے کے لئے ایڑیاں اٹھا اٹھا کے‘ اپنا قد بڑھا چڑھا کے دکھاتا ہے‘ اس کی تو نیندیںنہتے کشمیری مجاہدین نے حرام کر رکھی ہیں۔اس کے جرنیلوں کو ہر وقت دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کب اور کس طرف کے پہاڑوں سے مجاہدین کا گروپ‘ اس کے فوجی اڈوں پر حملہ آور ہو کر‘لالہ جی کی دھوتیاں ڈھیلی کر ڈالے؟کیا یہ مضحکہ خیز نہیں کہ نہتے کشمیری عوام کے خوف سے اس نے سات ڈویژن مسلح افواج‘ چھوٹی سی ریاست کشمیر پر مسلط کر رکھی ہے؟ اس کے علاوہ ایئر فورس کی مدد بھی اسے حاصل ہے۔ اور پولیس فورس کے نام پر نیم فوجی دستے بھی وہاں تعینات کر دئیے گئے ہیں۔
1965ء میں جب پاکستان سیاسی عدم استحکام کا شکار تھا اور ہمارے جرنیل ‘حکومتی امور میں الجھے ہوئے تھے،انہوں نے اقتدار کے نشے میں مست ہو کر‘ اکھنوردریا پار کر کے‘ مقبوضہ کشمیر پر یلغار کر دی۔ لالے‘ کشمیر کے پہاڑوں میں تو مزاحمت نہ کر سکے، ٹینکوں کے ڈویژنز لے کر لاہور اور سیالکوٹ
کے محاذوں پر چڑھ دوڑے۔ ان کا منصوبہ یہ تھا کہ لاہور اور سیالکوٹ پر قبضہ کر کے‘ پاکستان کو دو بڑے شہروں سے محرومی پر حواس باختہ کر دے گا لیکن یہ بھی جنگوں کی تاریخ کا واحد واقعہ ہے کہ بھاری تعداد میں فوجیں اور ٹینک لے کر‘ اس نے خواب غفلت میں پڑے دونوں شہروں کو آ لیا۔ امرتسر کی طرف سے بھارتی ٹینک واہگہ تک آپہنچے لیکن نہر کا پل پار کرنے سے ڈر گئے اور نہر کے دوسری طرف کھڑے ہو کر کانپنے لگے۔انہیں ڈر تھا کہ پاکستانی فوجیں انہیں گھیرے میں لینے کے لئے تیار بیٹھی ہیں۔ جیسے ہی وہ نہر کے پار گئے‘ انہیں گھیر لیا جائے گا۔صبح کی روشنی ہوئی تو پاکستانی فوج نے خود نہر کا پل توڑ کے‘ اپنے حملے کی کامیابی پر خوفزدہ بھارتیوں کو دبوچ لیااور وہ لاہور جم خانہ میں ایک'' چھوٹا‘‘ لگانے کا خواب آج تک پورا نہیں کر سکے۔ یہی حال سیالکوٹ کے محاذ پر ہوا۔ وہاں بھی پاکستانی فوجیں بڑی جنگ کے لئے تیار نہیں تھیں۔ جبکہ بھارتی فوج ٹینکوں کی بھاری تعداد کے ساتھ اچانک حملہ آور ہوئی۔ چھمب کے مقام پر ہونے والی لڑائی کو جنگوں کی تاریخ میں‘ ٹینکوں کی سب سے بڑی جنگ کہا جاتا ہے۔اس جنگ میں بھی بھارتی افواج ٹینکوں کی بڑی تعداد کے باوجود‘ پاکستان کے اندر آگے نہ بڑھ پائیں۔البتہ چھمب کے میدان میں ٹینکوں کا قبرستان‘ کئی سال تک‘ بھارت کی فوجی ناکامیوں پر ماتم کرتا رہا۔ بھارت کی ہزاروں سال پرانی تاریخ میں اس کے راجے مہاراجوں کی فوجیں‘ کسی دوسرے ملک پر حملہ کر کے‘ اسے آج تک فتح نہیں کر پائیں۔ پاکستان کے ساتھ جو سانحہ ہوا، وہ ہماری داخلی خانہ جنگی اور سازشیں تھیں۔جب مشرقی پاکستان کی نوے فیصد آبادی ‘حملہ آور بھارتی فوجوں کی مدد گار بن کر‘ ان کے شانہ بشانہ لڑنے میں مصروف ہو گئی تو دنیا کی کون سی فوج‘ ایسے حالات میں کامیاب ہو سکتی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کو جب بھی بھارت کے ہاتھوں تکلیف پہنچی‘ وہ ہمارے اپنوں کی دغا بازیوں کے نتیجے میں تھی۔دنیا کی طویل اور وسیع ترین گوریلا جنگ پاک فوج کو پہاڑوں اور صحرائوں میں‘ تیس سال سے زیادہ عرصے تک لڑنا پڑی۔ دورِ حاضر میں اس سے مشکل اور طویل جنگ‘ دنیا کی کوئی فوج نہیں جیت سکی۔ جبکہ بھارتی افواج اپنے ملک کی تیرہ ریاستوں میں ‘ چالیس برس سے گوریلا جنگ لڑ رہی ہے اور ابھی تک کامیابی حاصل نہیں کر سکی۔اب تو چینی‘ پاکستانی بھائی بھائی‘ اپنے مشترکہ تعمیراتی منصوبوں کی تکمیل میں کندھے سے کندھا ملا کر‘ دن رات محنت کر رہے ہیں۔ کس میں ہمت ہے؟ جو ان کے ہاتھ روک کر‘ تعمیر و ترقی کی جنگ میں خلل ڈال سکے؟البتہ بھارتی اپنے گھر آئے ہوئے پاکستانی گلوکار‘استاد غلام علی کو اپنے دیس سے نکال کر ''بھارت ماتا کی جئے‘‘ کے نعرے ضرور لگا لیتے ہیں۔