یوں تو ہر زمانے میں جنگ کا سب سے بڑا ہتھیار ‘پراپیگنڈہ رہا ہے۔ آج کے دور میں اس کی حیثیت دیگر تمام ہتھیاروں کے مقابلے میں ‘زیادہ اہمیت حاصل کر گئی ہے۔ مشرقی پاکستان کی جنگ میں‘ بھارت کو پراپیگنڈہ فرنٹ پر مکمل برتری حاصل تھی۔ رہی سہی کسر ہمارے فوجی و غیرفوجی حکمرانوں نے‘ میڈیا پر پابندیاں لگا کر نکال دی۔ مجھے اس زمانے کا ایک ایک لمحہ یاد ہے‘ جب ہم قابل اعتبار خبریں حاصل کرنے کے لئے‘ بی بی سی ریڈیو سننے کی خاطر ‘ہر طرح کے جتن کیا کرتے تھے۔ کیونکہ بی بی سی کی آواز صاف سنائی نہیں دیتی تھی۔ درمیان میں آواز صاف ہوتی تو ہم کچھ جملے سن لیتے۔ آج بھی ہماری حالت 1971ء سے بہتر نہیں ہے۔ شاید یہ ہماری قسمت ہے یا باقاعدہ منصوبہ بندی کا نتیجہ کہ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران ‘پاکستانی میڈیا کی گردن پر انگوٹھا رکھ کر‘ اس کی گرفت لمحہ بہ لمحہ سخت کی جا رہی ہے۔ میڈیا کے معاملے میں ایک میں ہی نہیں‘ سارا شعبہ سچائی کی تلاش میں سرگرداں ہے اور سچی خبر کسی بھی طرف سے‘ سنائی یا دکھائی نہیں دیتی۔ حکومت نے چن چن کر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر‘ ایسے لوگ مسلط کر دیئے ہیں‘جو معمول کی صورتحال میں بھی ‘قومی مفاد کے تقاضوں کو سمجھ نہیں پا رہے اور اب تو بھارت نے مکمل طور پر میڈیا وار شروع کر دی ہے۔ ایمرجنسی کے نفاذ پر غور ہو رہا ہے اور ہمارے سرکاری بابو‘ جواب میں ‘الزام تراشی اور تہمت گری کے سوا ‘کچھ کرنا ہی نہیں جانتے۔ بیشک جنگ میں سب سے پہلا قتل سچائی کا ہوتا ہے۔ یہی محاذ جنگ کا پہلا اصول ہے۔ میڈیا پر سچ بول کر کون بیوقوف اپنی اصل پوزیشن کو بے نقاب کرتا ہے؟
بھارت نے پراپیگنڈہ وار کا محاذ کھولتے ہی ‘اپنی تمام توپوں کا رخ ‘پاکستان کی طرف کر دیا ہے۔ جبکہ پاکستانی میڈیاکو یہی سمجھ نہیں آ رہی کہ بھارت کے اچانک پے درپے حملوں کے جواب میں ‘ہم کیا طریقہ اختیار کریں؟ میڈیا کی جو پلٹن ‘سرکاری کارندوں کی کمانڈ میں ‘بھارت سے مقابلہ کرنے کے لئے میدان میں اتاری گئی ہے‘ اس کو تو یہی پتہ نہیں کہ بھارت کا اصل ہتھیار کیا ہے؟ اور جھانسہ دینے کے لئے کونسے ہتھیار استعمال کئے جا رہے ہیں؟ ہم نے سوویت یونین اور امریکہ کی جنگ میں کود کر ‘ اپنی شکل اس بری طرح سے بگاڑ لی ہے کہ ابھی تک ‘ہم خود اپنے خدوخال پہچاننے سے قاصر ہیں۔ دوسروں سے پوچھتے پھر رہے ہیں کہ ہمارا اصل چہرہ کیا ہے؟ اور جتنے ماہرین بھی ہمیں ہماری صورت بتانے آتے ہیں‘ ان میں کوئی ہمارا خیرخواہ نہیں اور خیرخواہ ہو بھی کیوں؟ ہم نے کس کا بھلا کیا ہے؟ امریکیوں کی جنگ لڑنے کے لئے‘ ان سے پیسہ لیا۔ اس کا بڑا حصہ ہضم کر گئے اور جو باقی بچا‘ وہ ان دہشت گردوں کے حوالے کر دیا‘ جو امریکی مفادات کو نقصان پہنچا رہے تھے۔ قریباً دو عشروں تک‘ ہم نے روسی فوجیوں پر ضربیں لگائیں اور جب امریکہ نے رخ بدلا‘ تو روس سے اسلحہ اور پیسہ مانگنے نکل کھڑے ہوئے۔ روسی حکومت کی ناراضی دور کرنے کے لئے جتن کئے۔ صدر پوٹن کو پاکستان کے دورے کی دعوت دی۔ وہاں سے تاریخ بھی مل گئی۔ لیکن عین وقت پر صدر پوٹن نے‘ پاکستان کا دورہ بغیر کوئی وجہ بتائے منسوخ کر دیا۔ روس نے دو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی آس دلائی۔ ہم امیدیں لگا کر بیٹھ گئے اور ہمارے ہاتھ کچھ بھی نہ آیا۔ آتا بھی
کیسے؟ روسیوںکے ساتھ ہمارا سلوک کیا تھا؟ عین اس وقت جبکہ بھارت ‘ہم پر چاروں طرف سے حملہ آور ہے‘ہم نے جنگی مشقوں کے لئے روس کے فوجی دستے اپنے گھر بلا لئے۔ بھارت اور روس کی دوستی ساٹھ سال کو محیط ہے۔ جبکہ ہم نے روسیوں کو عہد حاضر کی‘ سب سے بڑی جنگی ہزیمت سے دوچار کیا۔ میں دفاعی اور خارجہ پالیسیوں کے ان ماہرین کو خراج تحسین پیش کروں گا‘ جنہوں نے افغانستان میں روسیوں کو شکست دے کر‘ فتح کے نعرے لگائے اور اب ان کے فوجیوں کو اپنی سرزمین پر بلا کر‘ جنگی مشقیں کر رہے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ صدر پوٹن ‘ہمیں زرمبادلہ اور اسلحہ دینے کے لئے‘ پاکستان کا دورہ کریں گے۔
چند ہی روز پہلے یو این کی جنرل اسمبلی کا اجلاس ہوا تھا۔ ہمارے وزیراعظم کے خطاب کا دھوم دھام سے اہتمام کیا گیا۔ ایک بہت بڑی میڈیا ٹیم‘ سرکاری خرچ پر نیویارک بھیجی گئی۔ پاکستان کے سوا دنیا کے کسی ملک میں‘ ہمارے پرمغز خطاب کے ''معنی خیز ‘‘ نکتوں کی گہرائی کا ‘کسی کو اندازہ نہ ہو سکا۔ حد یہ ہے کہ جس شاہی ٹیم نے‘ اسلام آباد میں بیٹھ کرخطاب کی تیاری کی‘ نیویارک جا کے اس کی نوک پلک سنواری۔ جناب وزیراعظم نے بڑی محنت سے حق خطابت ادا کیا۔ جبکہ ہمارے روایتی حریف ‘بھارت نے جواب میں کارکردگی دکھانے پر‘ ذرا بھی زحمت نہ کی۔ حتیٰ کہ بھارت کی وزیرخارجہ نے‘ رسمی تقریر بھی نہ کی۔ ایک خاتون بیوروکریٹ کو ذمہ داری دی گئی کہ وہ ہمارے وزیراعظم کے تاریخی خطاب کا جواب دینے کی ''بھاری ذمہ داریاں‘‘ ادا کرے۔
ہمارے وزیراعظم اور ان کی نابغہ روزگار ٹیم ‘ابھی تک وطن واپسی کے راستے میں ہے۔ لندن میں قیام کے دوران ‘میڈیا کی گشتی ٹیم کو‘ سامنے رکھ کے وزیراعظم نے قیمتی خیالات کا اظہار کیا اور اس کے بعد شاید خاندانی معاملات میں مصروف ہو گئے۔ دوسری طرف ہمارے وزیراعظم کے ''تحائف پسند‘‘ دوست ‘ بھارت کے اندر بیٹھے‘ اپنی جنگی ٹیموں سے مشاورت کر رہے تھے۔ فرانس کے جدید ترین رفال طیاروں کے تاریخی سودے کی نوک پلک سنوار رہے تھے۔ یہ بھارت کی تاریخ کا سب سے مہنگا دفاعی سودا ہے اور فضائیہ کی تاریخ کا انتہائی جدید اور خطرناک ترین جنگی طیارہ‘ جسے کل 6‘عالمی کمپنیوں کے مقابلے میں سب سے بہتر قرار دیا گیا۔ کارکردگی میں یہ ایک فرانسیسی طیارہ‘ امریکہ کے پانچ ایف16 طیاروں سے بھی بہتر ہے۔ مودی نے اپنی نگرانی میں‘ ان طیاروں کی خریداری کے معاہدے مکمل کرائے۔اس کے بعد مودی نے پورا دن‘ قومی وار سنٹر میں بیٹھ کر‘ تمام فنی اور جنگی امور کے ماہرین کے ساتھ مشاورت کی اور ہنگامی بنیادوں پر جنگی ضروریات کا جائزہ لیا۔ غالباً یہ وہی دن تھا جب ہمارے وزیراعظم ‘ نیویارک سے لندن کی پرواز کے دوران ‘خصوصی طور پر تیار کئے گئے کھانوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔
مجھے وزیراعظم کی وارٹائم ٹیموںمیںشامل‘ ہمہ جہتی ماہرین اور وزیراعظم کی خدمت میں پیش کئے گئے‘ ان کے مشوروں اور تجاویز کا تو علم نہیں۔ یقینی طور پر بھارت کی جنگی تیاریاں دیکھ کر‘ ہماری قیادت نے بھی جوابی منصوبے مکمل کر لئے ہوں گے۔ میں اپنی ادنیٰ سی معلومات کی روشنی میں عاجزانہ سا مشورہ پیش کر سکتا ہوںکہ پاکستان میں خارجہ امور کی مہارت اور تجربہ رکھنے والے جو سیاستدان دستیاب ہیں‘ ان کے نام لکھ دو ں۔ تاکہ درپیش جنگی حالات میں ان کی مشاورت سے کچھ فائدہ اٹھایا جا سکے۔ ان میں خورشید قصوری‘ گوہرایوب خان‘ سیدمشاہد حسین‘ سردار آصف احمد علی اور حناربانی کھرنمایاں ہیں۔ ہو سکتا ہے ‘ یہ بابو ٹرین کی سواریوں کے ہم پلہ نہ ہوں۔ لیکن بہرحال یہ سیاستدان ہیں اور ہمارے ساتھ لڑی گئی جنگوں میں بھارت نے ‘اپنی خارجہ پالیسی مرتب کرنے اور اس پر عملدرآمد کے لئے‘ جن ماہرین کی خدمات حاصل کیں‘ وہ کم و بیش سب کے سب سیاستدان تھے۔