پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ایک قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی‘ جس میں بھارت کی طرف سے پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سخت الفاظ میں مذمت کی گئی۔ ان دنوں بھارت کے معروف جاسوس‘ کلبھوشن یادیو کا نام پاکستانی مقتدرہ میں کڑے امتحان کا باعث بنا ہوا ہے۔ کئی اراکین قومی اسمبلی نے اس پر انعام رکھا کہ کوئی بھارتی جاسوس کلبھوشن کا درست نام لے کر دکھا دے تو اسے بھاری انعام دیا جائے گا۔ سینیٹ میں قائد حزب اختلاف‘ چودھری اعتزاز احسن کو جب یہ بحث ختم ہوتی نظر آئی اور انعام کی رقم بھی کسی ترغیب کے لائق نہ تھی‘ تو وہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے ایک نیا اعلان کر ڈالا کہ وزیر اعظم سمیت کوئی معزز رکن پارلیمنٹ میں بھارتی جاسوس‘ کلبھوشن یادیو کا صحیح نام لے گا‘ تو میں بلائنڈ ایسوسی ایشن آف پاکستان کو پچاس ہزار روپے نقد دوں گا۔ چودھری صاحب اگر یہ اعلان وزیر اعظم کی ایوان میں موجودگی کے دوران کر دیتے اور رقم صحیح نام بتانے والے رکن کو براہ راست دینے کا اعلان کر دیتے تو کس مائی کے لال میں ہمت تھی کہ وزیر اعظم کی موجودگی میں یہ انعام کی رقم جیت جاتا۔
مخالفین نے پاناما میں جمع شدہ رقم بلاوجہ وزیر اعظم کے نام لگا رکھی ہے۔ اصل میں یہ ان کے بچوں کے اثاثے ہیں۔ کاروباری خاندان کے بچے اپنے اثاثوں کی تفصیل والدین کو بھی نہیں بتایا کرتے۔ یہ حقیقت ہے کہ اگر نواز شریف صاحب کو اپنے بچوں سے پاناما میں جمع شدہ اصل رقم کی تفصیل پوچھنے کی ضرورت پڑ جائے تو وہ ایسا کبھی نہیں کرتے۔ رئیسوں کے ہاں روایت ہے کہ وہ ایک دوسرے کو اپنے اثاثوں کی تفصیل نہیں بتایا کرتے۔ خاندان کے سینئرز میں سے اگر کوئی مہمانوں کو دعوت دے تو سب بڑھ چڑھ کر دیکھ بھال کے فرائض ادا کرتے ہیں‘ لیکن مہمانوں کے رخصت ہوتے ہی دعوت کرنے والے ''سارے حصے دار‘‘ محفل جما کر بیٹھ جاتے ہیں اور پھر طے کیا جاتا ہے کہ کس نے دعوت کے اخراجات میں کتنی رقم کا حصہ ڈالا۔ روایت ہے کہ سب کا حصہ شمار کرنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ بڑے میاں صاحب کے حصے کے بغیر ہی رقم پوری ہو گئی اور جب اہل خاندان ان کے ساتھ برابر حصہ داری کی سعی کرتے ہیں تو وزیر اعظم صاحب اچانک کھڑے ہوتے ہوئے کہتے ہیں: ''اوہ! مجھے تو ایک میٹنگ میں جانا ہے۔ مجھے دیر ہو گئی‘‘۔ اور وہ تیزی سے چلتے ہوئے کمرے سے باہر نکل جاتے ہیں۔ جب میاں صاحب کی بچت کی اس عادت پر بات چلتی ہے تو بڑی صاحبزادی دفاع کرتے ہوئے فوراً ہی کہتی ہیں: ''ہمیں اپنے والد محترم پر اس طرح کا شک نہیں کرنا چاہئے۔ انہوں نے ہم سے کچھ بچانا ہوتا تو آج ان پر الزامات نہ لگ رہے ہوتے۔ جو کچھ ہم سب کے ناموں پر جمع ہے‘ وہ ابا حضور ہی کے طفیل ہمیں ملا ہے۔ رقم کے مالک ہم بنے بیٹھے ہیں اور مخالفین کے طعنے وہ سنتے ہیں۔ ان کے اس صبر اور حوصلے کی داد دینا چاہئے‘‘۔ صاحبزادے نے بات چیت میں شامل ہوتے ہوئے کہا: ''آپ میں سے کسی کو اندازہ نہیں کہ ابا جی! ہماری محفل کو چھوڑ کر اچانک کیوں باہر چلے گئے؟‘‘ بی بی کے صاحبزادے‘ جو ابھی تک ادب و احترام کی وجہ سے خاموش تھے‘ اجازت لے کر بولے کہ ''مجھے اصل بات معلوم ہے۔ بھارت ہمارا پانی بند کر رہا ہے اور نانا جی‘ فون پر مودی جی سے یہ کہنے گئے ہیں کہ پاکستان کا پانی بند کرنا انتہائی بے رحمی ہے‘ مودی جی اس پر نظرثانی کریں۔ نانا جی یہی سمجھا کر مودی کو پاکستانیوں کا پانی بند کرنے سے روکنے کا کہہ رہے ہوں گے‘‘۔ دیگر حاضرین میں سے ایک نک چڑھا ملازم ادب سے شامل گفتگو ہوتے ہوئے بولا: ''اس ہندو کو کیا پڑی ہے کہ وہ پاکستانیوں کا پانی بند کرنے کا ارادہ چھوڑ کے ہمارے دریائوں اور نہروں کو رواں دواں کر دے‘‘۔ دوسرا نوکر‘ جو پلیٹ میں رکھی پلائو کی بوٹی چبانے کی کوشش کر رہا تھا‘ اپنی یہ سرگرمی بند کرکے بولا: ''کیا یہ ضروری ہے کہ ہمارے وزیر اعظم ایک ہندو سے پانی مانگنے جائیں۔ چین والوں نے بھارتی دریائوں کا پانی روکنے کی تیاری کر رکھی ہے‘ کیوں نہ ہمارے میاں صاحب چین جا کر وہاں کے لیڈروں کے ساتھ پانی کا انتظام کریں‘‘۔
اس موقع پر ہونہار بھتیجے نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا: ''مناسب ہو گا کہ تایا جان کے بجائے یہ زحمت‘ ابا حضور اٹھائیں۔ چینی‘ دریائے برہم پتر کے پانی کا رخ تبت سے ہی موڑ دیں اور اسے پھر چین میں سے گزارتے ہوئے اس کا رخ پاکستان کی طرف کر دیں۔ ابو نے کاروبار سے لے کر حکومت تک‘ ہمیشہ سارے کام بڑے سلیقے اور احتیاط سے کئے ہیں۔ چینی خود بھی کاروبار میں پائی پائی کا حساب رکھتے ہیں۔ ابو جب انہیں بتائیں گے کہ اقتصادی راہداری اور چینی پانی کا مصنوعی دریا‘ دونوں مکمل ہو گئے تو بچت میں کھربوں ڈالر دونوں ملکوں کے کام آئیں گے۔ سمندر کی طرف سے چین کی طرف جانے والی ہائی وے سمندری راستوں کی بچت کرکے سڑک کا خرچ آدھا کر دے گی جبکہ تبت سے پاکستان آنے والے مصنوعی دریا میں چین کا برآمدی سامان پانی کے بہائو میں مفت گوادر تک پہنچ جائے گا۔ بچت کا یہ شاندار بندوبست ہر کسی کے ذہن میں نہیں آسکتا۔ ایسے کام صرف میرے ابو ہی سوچ سکتے ہیں‘‘۔ یہ بات سن کر تمام اہل خاندان سوچ میں ڈوب گئے اور پھر اپنی اپنی تخلیقی صلاحیتیں استعمال کرتے ہوئے‘ نئے نئے منصوبوں پر غور کرنے لگے۔
گھریلو سوچ بچار کی جس محفل کو چھوڑ کے ہم دیگر موضوعات کی طرف آئے‘ اس میں یقیناً اس نکتے پر غور کیا گیا ہو گا کہ مودی صاحب خود ہمارے گھر تشریف لاتے ہیں۔ اپنے باورچی کے صندوق سے ہندو دھرم کے مطابق تیار شدہ برتن نکال کر اپنے ویٹرز کو دیتے ہیں۔ وہی مودی اور ان کے ساتھیوں کے لئے کھانا میز پر سجاتے ہیں جبکہ میزبانوں کے لئے کھانا الگ میزوں پر برتنوں میں رکھا جاتا ہے۔ اس شاندار ضیافت میں ہندو دھرم کے مطابق تیار شدہ کھانوں سے مہمان لطف اندوز ہوتے ہیں‘ حالانکہ ہندو کھانے میں لطف اندوزی کی ذرا بھی گنجائش نہیں ہوتی۔ دہلی میں‘ میں ایک ڈنر پر چلا گیا تھا اور یہ سوچ کر ہندو کھانے کی طرف چلا گیا کہ اس کی ورائٹی بھی دیکھ لیں مگر جب کھانا پلیٹ میں رکھنا شر وع کیا تو سر چکرا گیا۔ جس چیز میں چمچ مارو‘ د ال آ جاتی‘ اور جہاں سے کوئی چیز اٹھا کر پلیٹ میں رکھو‘ وہاں سبزیاں ہی سبزیاں۔ اللہ تعالیٰ نے اتنی نعمتیں دے رکھی ہیں لیکن ہندوئوں کے صبر کی حد ہے کہ وہ یہی بدمزہ چیزیں کھا کر‘ زندگی گزار جاتے ہیں۔ کلدیپ نائر جیسے بہت سے ہندو ہیں جو ہم جیسے کھانوں سے پرہیز نہیں کرتے۔ میرا خیال ہے انہیں زندگی گزارنے کے لئے جو چند روز میسر آتے ہیں‘ انہی میں وہ زندگی کا مزہ حاصل کر لیتے ہیں‘ ورنہ دالیں اور سبزیاں اور ہندو پانی...... دالوں اور سبزیوں کا دھرم تو پتہ نہیں کیا ہوتا ہے‘ لیکن پانی کو انہوں نے ہندو ضرور بنا رکھا ہے۔ اگر بھارت کی طرف سے پانی بند ہونے کے بعد‘ ہمیں چین سے پانی دستیاب ہو جائے تو بھارت کی ساری دھمکیاں بے کار جائیں گی۔ ہم چین کے پانی سے لطف اندوز ہوں گے اور بھارت‘ چین کی طرف سے بند ہونے والا پانی‘ اپنے صحرائوں میں ڈھونڈتا پھرے گا۔ اور بدقسمتی سے کشیدگی بڑھ گئی تو بھارت کی طرف سے ہمیں پانی مٹی کے گلاسوں میں پیک ہو کر ملا کرے گا۔