بھارتی حکومت کے دیرپا منصوبوں کی تفصیل دیکھ کر اندازہ ہو رہا ہے کہ اس بار بی جے پی کی بھارتی حکومت ‘طویل منصوبے تیار کر رہی ہے۔ مجھے تو یوں لگتا ہے کہ بھارت کے آئندہ انتخابات اسی کشیدگی کے دور میں ہی منعقد کئے جائیں گے۔ مودی کی حکومت کے پاس ایسا کوئی منصوبہ موجود نہیں‘ جس کے تحت وہ عوامی فلاح و بہبود کے منصوبے تیار کر کے‘ انتخابات سے قبل پایہ تکمیل کو پہنچا سکے۔اپنی ذہنی تہی دستی کا اندازہ یا اعتراف کرتے ہوئے‘ مودی ٹیم آئندہ انتخابات تک‘ پاکستان کے ساتھ کشیدگی کو برقرار رکھنے کے مختلف حیلے بہانوں سے وقت گزارنا چاہتی ہے۔ ان میں ایک منصوبہ حفاظتی دیوار کھڑی کرنے کا ہے‘ جو اسرائیلیوں کی طرز پر تعمیر کی جائے گی۔ یہ دیوار چار سے چھ فٹ چوڑی ہو گی۔ صرف سیمنٹ اور بجری سے بنائی جائے گی اور اسے توپوں یا ٹینکوں کی ٹکروں سے متاثر نہیں کیا جا سکے گا۔ اسی طرح کے متعدد دیگر منصوبے تیار کئے جائیں گے اور ان میں سے کچھ منصوبے آنے والے انتخابات سے پہلے مکمل کر لئے جائیں گے اور کچھ زیرتعمیر ہوں گے۔سب سے بڑا بھارتی منصوبہ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ اس منصوبے کے تحت سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کی تیاریاں شروع کر دی گئی ہیں۔ سندھ طاس منصوبے کے تحت چین‘ آسام اور ہماچل پردیش کے دریائوں کا پانی روکے گا۔ بھارت کے ان منصوبوں کے نقشے دیکھ کر چین نے اعلان کر دیا کہ وہ برہم پتر کی چھوٹی چھوٹی ندیوںپر بند باندھ کر سرحدی علاقے میں اپنے انفراسٹرکچر کو مضبوط کرنا چاہتا ہے۔ جہاں تک سندھوندی دریا کے معاہدے کی بات ہے‘ تو اس معاہدے کے تحت کچھ دریائوں کا پانی بھارت سے ہو کر پاکستان جاتا ہے۔ فی الحال بھارت کے لئے فوری طور پر اس معاہدے کو توڑنا ممکن نظر نہیں آتا۔ ان معاون دریائوں کا پانی روکنے کے لئے ان پر بند باندھنا فی الوقت ممکن نظر نہیں آتا۔ اس معاہدے کا ایک اہم پہلوعالمی بنک کی شرکت بھی ہے۔ یہ معاہدہ توڑنے کی صورت میں‘ بھارت کی بیرونی ساکھ متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ معاہدے کے مطابق ایک اہم دریا سندھ کا پانی چین سے ہو کر بھارت آتا ہے۔ ظاہر ہے‘ معاہدہ توڑنے کی صورت میں‘ چین بھی سندھ کا پانی روک سکتا ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان موجودہ کشیدگی اگر طول پکڑتی گئی‘ جیسا کہ بھارت کے عزائم نظر آتے ہیں‘ اسے دیکھ کر چین غیرجانبدار نہیں رہ سکتا۔ یہ ٹھیک ہے کہ چین اور بھارت کے تجارتی تعلقات بہت پختہ ہیں۔ لیکن جب پاکستان کا معاملہ سامنے آتا ہے‘ تو چین اس معاملے سے الگ تھلگ نہیں رہ سکتا۔ جس دن چین نے برہم پتر کے معاون دریائوں کا پانی روکنے کا اعلان کیا‘ اسی دن چین نے ہندوستان کو دہرا جھٹکا دیتے ہوئے‘ مسعود اظہر کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں‘ دہشت گرد قرار دینے کی بھارتی تجویز کو بھی رد کر دیا۔ یاد رہے‘ مسعود اظہر کو بین الاقوامی دہشت گرد قرار دینے کی تجویز پر 14ممالک پہلے ہی دستخط کر چکے ہیں۔ چین پہلے ہی اس تجویز کو ویٹو کے ذریعے مسترد کر چکا ہے۔ اب جبکہ چین کے ویٹو کی مدت ختم ہو رہی تھی‘ تو اس نے ویٹو کی دوبارہ توثیق کر دی۔ چین کا یہ قدم اس بات کی علامت ہے کہ دہشت گردی کے معاملے میں وہ پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑا ہے اور ہندوستان کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف کسی بھی کارروائی کو بلاتامل مسترد کر سکتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کی صورت میں چین‘ بھارت کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرے گا۔
بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی میں ‘ کشن گنگا ہائیڈرو پاورپراجیکٹ کا معاملہ بھی اٹھایا جا رہا ہے۔ پاکستان نے عالمی بنک سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس اعتراض کو سننے کے لئے باہمی ثالثی
کی عالمی عدالت قائم کرے۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت‘ پاکستان یہ معاملہ عالمی عدالت میں لے جانے کا حق رکھتا ہے۔ بھارت کی کوشش یہ ہے کہ اس معاملے میں ایک غیرجانبدار ثالث کے ذریعے جانچ کرائی جائے۔ پاکستان کو کشن گنگا ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے ڈیزائن پر اعتراض ہے‘ جسے وہ کسی وقت بھی عالمی سیاست کے دائرے میں لے جا سکتا ہے۔ بھارت کا اعتراض ہے کہ سندھ طاس معاہدے کا ڈیزائن طے شدہ معاہدے کے خلاف ہے۔ اگرچہ پاکستان اس معاملے میں پہلے بھی اعتراض کر چکا ہے۔ لیکن جس طرح سے دونوں ممالک کے درمیان حالیہ کشیدگی مختلف محاذوں پر انتہائوں کی طرف پہنچ رہی ہے‘ اس کی موجودگی میں پاکستان اس معاہدے کے ڈیزائن پر عرصہ پہلے اعتراض کر چکا ہے۔ جس طرح دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان کشیدگی میں روزبروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے‘ اس سے پاکستان کو ان معاملات سے الگ کرنا‘ بھارت کاہدف دکھائی دے رہا ہے۔ موجودہ صورتحال میں بھارت جارحیت کا مرتکب ہونے کے باوجود‘ زیادہ عالمی طاقتوں کی حمایت حاصل کر چکا ہے۔ حال میں علاقائی تنظیم سارک کا جو اجلاس پاکستان میں ہونے جا رہا تھا‘ بھارت نے تمام رکن ممالک پر دبائو ڈال کر‘ اسے منسوخ کرا دیا۔ سارک کا ایک رکن بھی‘ پاکستان کے ساتھ کھڑا نہ ہو سکا۔ اسی طرح دیگر عالمی طاقتوں نے بھی کشمیر کے معاملے پر بیرونی ملکوں میں بھیجے گئے مندوبین کو خاص اہمیت نہیں دی۔ بعض کے اعلیٰ عہدیداروں نے تو ہمارے مندوبین کے پیش کئے ہوئے کسی بھی مسئلے پر توجہ نہیں دی۔ تادم تحریر میزبان ملکوں نے ہمارے مندوبین کو ملاقاتوں کا موقع بھی نہیں دیا۔
پاکستان نے اس پر غور کیا ہے کہ ورلڈ بنک کی شراکت سے سندھ طاس معاہدے پر بات چیت کی جائے۔ لیکن تینوں فریقوں یعنی عالمی بنک‘ پاکستان اور بھارت کی رضامندی کے بغیریہ کانفرنس نہیں کی جا سکتی۔ کم و بیش یہی صورتحال عالمی عدالت کی ہے۔ پاکستان کا معاملہ جب تک عالمی عدالت میں سماعت کے لئے منظور نہیں کیا جاتا‘ شنوائی ہونا ممکن نہیں۔ پاکستان کو یہ بھی شکایت ہے کہ اس نئے پراجیکٹ کی وجہ سے‘ کشن گنگا دریا کے بہائو پر اثر پڑے گا۔ نتیجے میں نیلم کا منصوبہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے گا۔ دو پڑوسی ملکوں کے درمیان جب کشیدگی اس انتہا کو پہنچ جائے‘ تو اس خدشے سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ کشیدگی کسی بھی لمحے ٹکرائو کی صورت اختیار کر سکتی ہے۔ اس ٹکرائو کا کوئی بھی خطرناک نتیجہ نکل سکتا ہے۔ دو نوں ملکوں کے لیڈروں کی طرف سے سخت بیانات کا سلسلہ جاری ہے۔ ان حالات میں دونوں ملکوں کے درمیان کبھی کبھار بات چیت کی کچھ امید پیدا ہو سکتی ہے۔ جس میں پیغامات کے باہمی تبادلے کبھی کبھار ہو جاتے ہیں۔ چند ہی روز پہلے دونوں ملکوں کے دفاعی مشیروں کے درمیان پیغام رسانی ہوئی۔ جس میں بھارت کے مشیر نے پیش کش کی کہ دونوں ملکوں کو موجودہ کشیدگی کی صورتحال سے نکلنے کے لئے باہمی رابطے کرنا چاہئیں۔ اس پیغام کا ابھی تک کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔
پاکستان کے اندر داخلی سیاسی کشمکش میں مسلسل تیزی آتی جا رہی ہے۔ تحریک انصاف کرپشن کے خلاف کارروائی کے مطالبے سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔ وہ ہر طرح کے عدالتی اور ثالثی کے راستے آزما چکی ہے۔ لیکن حکومت سمجھوتے کے ہر امکان کو مسترد کرتی آ رہی ہے۔ معاملہ عدالت میں بھی گیا۔ لیکن حکومت نے جو تجاویز پیش کیں‘ انہیں چیف جسٹس آف پاکستان نے من و عن قبول نہیں کیا۔ دو پارلیمانی کمیٹیاں بنا کر‘ پاناما لیکس کے مسئلے پر بات چیت کے متعدد ادوار ہوئے۔ لیکن حکمران جماعت کا ایک ہی اصرار تھا کہ حکومت‘ حکمران خاندان پر کرپشن کے الزام پر کسی صورت بات نہیں کرے گی۔ جب نامزد ملزموں کے معاملات زیربحث ہی نہیں آئیں گے‘ تو بات کیا ہو گی؟ یہی صورتحال دستیاب اداروں سے مدد لینے کی بھی ہے۔ بلکہ اس سلسلے میں تو ایک لطیفہ بھی ہوا کہ عمران خان پر کوئی جماعت الزام نہیں لگا رہی۔ جبکہ عمران خان وزیراعظم کو ملزم ٹھہراتے ہیں۔ عمران اور وزیراعظم نے سپیکر قومی اسمبلی کو درخواستیں دیں کہ دونوں کا معاملہ الیکشن کمیشن کو بھیج دیا جائے۔ سپیکر صاحب نے آئو دیکھا نہ تائو‘ دونوں کے معاملات الیکشن کمیشن کو بھیج دیئے۔ صورتحال یہ تھی کہ وزیراعظم کا مراسلہ تو الیکشن کمیشن کو بھیج دیا گیا اور ساتھ ہی عمران خان کا معاملہ بھی۔ اس میں بھی لطیفہ یہ ہے کہ جس پر کوئی الزام نہیں تھا‘ اس کا کیس بھی الیکشن کمیشن کو بھیج دیا گیا اور جس پر الزام تھا‘ اس کا معاملہ بھی چیف الیکشن کمشنر کو بھجوا دیا گیا۔ پاکستان کے بڑھتے ہوئے داخلی تنازعات اور بھارت کے ساتھ کشیدگی میں روزبروز اضافہ‘ حالات کے بگاڑ میں مزید اضافہ کر رہا ہے۔ جنگ سے دونوں فریق انکار کرتے ہیں۔ لیکن جنگ کی طرف بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ پانی کے معاملے پرپھر کبھی لکھوں گا۔