"NNC" (space) message & send to 7575

دو جمہوریتیں (آخری حصہ)

وزیراعظم جناب محمد نوازشریف کے دورہ آذربائیجان کے فوری نتائج سامنے آنے لگے ہیں۔ آذربائیجان نے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی حمایت کا اعلان کر کے‘ انتہاپسند بھارتی قیادت کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے۔ ابھی آذربائیجان کے جرأت مندانہ اعلان کو زیادہ وقت نہیں گزرا کہ بھارتی حکام کے جارحانہ رویے میں حیرت انگیز تبدیلی رونما ہوئی ہے اور انہوں نے کہا ہے کہ ''ہم پاکستان کے ساتھ کشیدگی نہیں چاہتے۔ ‘‘ وہی بھارتی حکومت ‘جو ہمارے وزیراعظم کے دورہ آذربائیجان سے پہلے ہمیں دھمکیاں دے رہی تھی‘ وزیراعظم نوازشریف کے باکو میں قدم رکھتے ہی بھارتیوں کا غروروتکبر خاک میں مل گیا ہے۔ آذربائیجان نے پاکستان کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقیں کرنے کا جو اعلان کیا ہے‘ اس کی وجہ سے خطے کے اندرپھیلتی ہوئی کشیدگی کا رخ اچانک بدل گیا ہے۔ میزبان ملک کے صدر جناب الہام علیوف نے حق میزبانی ادا کرتے ہوئے پیش کش کی کہ مجوزہ جنگی مشقیں ‘ ان کے ملک میں کی جائیں۔ میزبان ملک کی پروٹوکول ٹیم نے جو ایک ممتاز مقامی شخصیت پر مشتمل تھی‘ شائستگی سے بتایا کہ ہمارے ملک میں آزمائشی جنگی مشقوں کے لئے اتنا بڑا میدان جنگ دستیاب نہیں ہے جس میں پاکستان اور آذربائیجان کی فوجیں جنگی مشقیں کر سکیں۔ ہمارے دو ٹینک‘ تین جیپیں اور چارتوپوں پر مشتمل آزمائشی جنگوں میں حصہ لینے والے فوجی دستوں کے لئے مناسب جگہ دستیاب نہیں اور جب پاکستان کی مختصر سی فوج ہمارے ملک میں اترے گی‘ تو دونوں ملکوں کی فوجوں کو آزمائشی جنگوں کے لئے مناسب جگہ فراہم نہیں کی جا سکے گی۔ ہماری اپنی ساری فوج کے لئے چار مرغوں کی دیگیں پکائی جا سکیں گی‘ اتنی ہی دیگیں ہم اپنے مہمان فوجیوں کو بھی پیش کر سکیں گے۔ مہمان وزیراعظم نے پیش کش کی ہے کہ وہ جنگی مشقوں میں حصہ لینے والے فوجیوں کے لئے اپنے اہل خاندان کی خاطر تیار کیا گیا کھانا میزبانوں کو پیش کر دیں گے‘ جس کی ہماری فوج کے جنرل ہنسی اڑائیں گے۔ لیکن میزبانوں کو جلد ہی مہمانوں کا خیال آیا کہ کہیں ان کی دل آزاری نہ ہو جائے۔ جناب وزیراعظم کے خاندان کے لئے تیار کئے گئے کھانوں کی دیگیں‘ جب ٹرانسپورٹ طیارے سے اتار کے‘ میزبان فوج کے سامنے رکھی گئیں‘ تو حکم جاری ہوا کہ چھٹیوں پر گئے ہوئے تمام افسروں اور جوانوں کو ہنگامی طور پر واپس بلا لیا جائے۔ ہمارے پاس اتنی خوراک محفوظ کرنے کا انتظام نہیں ہے۔ 
میزبان صدر اور مہمان وزیراعظم کے مابین پہلے ون ٹو ون مذاکرات ہوئے۔ اس کے بعد دونوں ملکوں کے وفود کے درمیان تبادلہ خیال شروع ہوا۔ یہ مذاکرات مکمل ہونے کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس میں آذربائیجان کے صدر نے پاکستان کے ساتھ رشتوں کو تاریخی اور تہذیبی قرار دیتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ دونوں ملکوں کے درمیان تجارت اور اقتصادی تعلقات ‘ دفاعی محاذ پر بھی آگے بڑھیں گے۔ میزبان ملک نے کشمیر پر پاکستانی موقف کی بھرپور حمایت کی اور مقبوضہ وادی میں بھارتی ظلم و ستم اور اقوام متحدہ کے مسئلہ کشمیر اور آرمینیا کے تنازعے کے حل کے بارے میں دہرے کردار کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔ اس بات پر کافی بحث ہوئی کہ مسودے میں مقبوضہ وادی کی جگہ'' مقبوضہ وادی کشمیر ‘‘لکھا جائے۔لیکن میزبان صدر الہام نے اپنی عالمی خارجہ پالیسی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہمارا ملک ‘ تمام بڑی طاقتوں کے مفادات کو پیش نظر رکھتا ہے۔ ہمیں اکثر اپنی کابینہ کی میٹنگ کے لئے روس ‘ بھارت یا فرانس سے کانفرنس ہال مستعار لینا پڑتا ہے۔ یہ ہماری متوازن خارجہ پالیسی کا نتیجہ ہے کہ ہم جس ملک سے بھی اپنی کابینہ کی میٹنگ کے لئے جگہ مانگتے ہیں‘ ہمیں بلاتامل فراہم کر دی جاتی ہے‘ جس پر ہمارے وزیراعظم نے فراخ دلی سے پیش کش کی کہ اپنی کسی بھی وزات کے سیکرٹری کا دفتر ‘ آپ کی خدمت میں پیش کر دیں گے۔ آپ جب چاہیں ‘اپنی کابینہ کا اجلاس وہاں منعقد کر لیا کریں۔ جس پر مہمان صدر نے معذرت کرتے ہوئے کہاکہ آپ کے ہاں جمہوریت پورے ملک میں پھیلی ہے۔ آپ کی مقامی حکومتوں کا پھیلائو اتنا زیادہ ہے کہ ہر بلدیاتی ادارے کے منتخب اراکین کے اجلاس منعقد کرنے کے لئے مطلوبہ جگہ دستیاب نہیں ہوتی۔ ہماری طرف سے کہا گیا کہ آپ بلاوجہ زحمت اٹھانا چاہتے ہیں‘ورنہ ہم تو جس ایئرپورٹ کے وی آئی پی لائونج میں چاہیں‘ آپ کی کابینہ کا اجلاس منعقد کرا سکتے ہیں۔ 
ہمارے وزیراعظم جناب نوازشریف نے ‘ بھارتی حکومت کی شکایت کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی مذاکرات کے لئے سنجیدہ ہیں اور مسئلہ کشمیر کو ساتھ رکھیں‘ تو ہم بھی بات چیت کے لئے تیار ہیں۔ اس پر صدر الہام علیوف غوروفکر میں ڈوب گئے اور سوچتے ہوئے کہا‘ میری سمجھ میں یہ بات نہیں آ رہی کہ بقول آپ کے‘ ایک طرف تو بھارتی وزیراعظم مذاکرات کے لئے سنجیدہ ہیں ‘ لیکن وہ مسئلہ کشمیر کو ساتھ نہیں رکھتے۔ مہمان وزیراعظم نے کہا کہ یہی تو ہماری مشکل ہے۔ مسٹرمودی اپنی بات چیت میں سنجیدہ تو بہت ہوتے ہیں‘ لیکن مسئلہ کشمیر پر بات نہیں کرتے۔ پاک بھارت تعلقات میں بنیادی پیچیدگی یہی ہے کہ بھارتی وزیراعظم جس موضوع پر ہم سے بات چیت کرتے ہیں‘ اسی کو ساتھ نہیں رکھتے۔ میں نے یہ اقتباس پاکستان کے ایک قومی روزنامے کی خبر سے لیا ہے۔ 
ہمارے وزیراعظم کو یہ سن کر نہایت خوشی ہوئی کہ آذربائیجان میں جمہوری نظام قائم ہے۔ ہر پانچ سال کے بعد ہمارے ملک کے اٹھارہ لاکھ ووٹر ‘ اپنے لئے نئی حکومت کا انتخاب کرتے ہیں اور وہ واپس اپنی اپنی کرسیوں پر آ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ آپ کے طرزحکومت سے ہم نے بہت کچھ سیکھا ہے۔ لندن میں آپ کے بچے ہمارے پڑوسی ہیں اور ملک کے اندر اور باہر ہمارا پورا خاندان اطمینان اور سکون کی زندگی گزارتا ہے۔ مجھے یہ سن کر بہت رنج ہوتا ہے کہ قوم کے آپ جیسے خدمت گزار کو لوگ آرام سے نہیں رہنے دیتے۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے‘ آپ صرف پلائو اور قورمہ کھاتے ہیں۔ آپ کے دونوں فرزند برطانیہ کے ایک عام سے محلے کے اندر فلیٹوں میں رہتے ہیں۔ دنیا میں شاید ہی کوئی شاہی خاندان ذاتی محلات کے ہوتے ہوئے‘ پردیس میں چھوٹے چھوٹے فلیٹوں کے اندر زندگی گزارتا ہے۔ پاکستان میں گھریلو خادموں کی تنخواہیں بہت زیادہ ہوتی ہیں۔ جبکہ بھارت میں گھریلو ملازمین بہت سستے مل جاتے ہیں۔ آپ کے بچے انہی سستے ملازمین کے ساتھ گزارا کرتے ہیں۔ کھانے میں عموماً مکڈونلڈ کے برگر کھائے جاتے ہیں۔ جب پلائو کھانے کو دل چاہتا ہے‘ تو ذاتی طیارے میں بیٹھ کر لاہور میں اپنے گھر پہنچ جاتے ہیں۔ دوچار نجی طیاروں میں ان کے دوست احباب‘ اپنے خاندانوں سمیت لاہور آ جاتے ہیں‘ جہاں جاتی عمرہ میں شاہی باورچیوں کے پکائے ہوئے مرغن کھانے‘ مہمانوں کو پیش کئے جاتے ہیں۔ جب وزیراعظم کے وفد کے ساتھ جانے والے صحافیوں اور افسروں سے پوچھا گیا کہ آذربائیجان کی سیر کیسی ہوئی؟ تو سب نے بیک زبان جواب دیا‘ ہم روزانہ پیدل پورے ملک کے دس بارہ چکر لگا کے ‘ اپنی خواب گاہوں میں چلے جاتے تھے۔ جب یہی سوال اینکروں سے کیا گیا‘ تو ان کا جواب تھا کہ میزبان حکومت نے ایک پڑوسی ملک کے ٹیلی وژن نیٹ ورک پر ہمارے لئے خصوصی نشریات کا اہتمام کر رکھا تھا۔ مقامی زبان تو ہمیں نہیں آتی تھی‘ ہم اپنی ہی زبان میں گرماگرم بحث کر کے‘ پروگرام کا وقت پورا کر لیتے۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ ناظرین بڑی دلچسپی سے ہمارے پروگرام دیکھتے۔ انہیں سمجھ تو کچھ نہیں آتا تھامگر وہ ہمارے ہاتھ اور ہونٹ ہلتے دیکھ کر‘ بہت مزے لیا کرتے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں