گزشتہ روز مولانا فضل الرحمن نے اپنے محسن اعظم‘ وزیر اعظم نواز شریف کو خوش کرنے کے لئے مردان میں ایک زبردست جلسے کی حاضری بھرنے کے لئے سارا بلوچستان اور ڈیرہ اسماعیل خالی کر دیئے‘ مگر ن لیگیوں کی توجہ سٹیج کی طرف نہ گئی۔ زیادہ تر پکتی ہوئی دیگوں کے اردگرد منڈلاتے رہے۔ جیسے ہی وہ تیار ہوئیں‘ یا علی کا نعرہ لگا کر دیگوں پر پل پڑے۔ جس کے ہاتھ میں جو آیا اسے چاولوں سے بھر لیا۔ شریف خاندان کی طرف سے مہمانوں کے لئے پکایا گیا پلائو اتنا لذیذ ہوتا ہے کہ لوگ دور دور سے دیگوں کی خوشبو سونگھ کر پہنچ جاتے ہیں کہ یہاں ن لیگی لیڈروں کا پلائو پک رہا ہے۔ مولانا کے مدرسوں کے طالب علم‘ اپنے رہنما کے احترام میں خاموش بیٹھ کر تقریریں سنتے رہے‘ جن میں سے ایک تقریر سب سے طویل تھی۔ اس طویل تقریر کے دوران لوگوں نے پلائوں بھی کھایا۔ گھروں کو بھی لے گئے اور مولانا فضل الرحمن کے مدرسوں کے طالب علم تقریر کو بزرگان دین کے اسمائے گرامی سے خالی پا کر خاموشی سے کھسک گئے۔ جس تقریر میں پیپلز پارٹی کے انداز میں مخالفوں کو للکارا گیا ہو‘ اسے پیپلز پارٹی کے سابق کارکن کس طرح سن سکتے ہیں؟ اور جو پیپلز پارٹی والے پلائو کھانے آئے تھے‘ وہ ساری دیگوں میں سے آدھی پیٹ میں اور آدھی پراتوں میں بھر کے بڑے نظم و نسق کے ساتھ جلسہ گاہ کو خالی کر گئے۔ مقرر نے جب دیکھا کہ سارے حاضرین جلسے کا مقصد پورا کرکے واپس جا رہے ہیں‘ تو اس نے سٹیج سے ہی للکارا ''اوئے بد بختو! چار بوٹیاں مجھے بھی دے جائو‘‘۔ جس پر پلائو لے کر بھاگتے ہوئے چند سامعین نے جواب دیا ''تم مزے سے تقریر کا شوق پورا کرو۔ 30 برسوں سے جلسوں میں تقریر کرنے کو ترس رہے ہو۔ اب سامعین ملے ہیں تو بوٹیوں کے نعرے لگا رہے ہو‘‘۔ بیچارے مظاہرین کو کیا پتہ کہ مقرر موصوف شکم پُری کے لئے محض دو چار بوٹیاں ہی کھاتے ہیں‘ باقی پیٹ مشروبات سے بھرتا ہے۔ مقرر موصوف کے ساتھ بہت زیادتی ہوئی کہ جو جلسہ ان کے لئے جمع کیا گیا‘ اس کے حاضرین کی ایک بڑی تعداد مولانا فضل الرحمن کے مدارس کے طلبہ کی تھی اور باقی تھانیداروں اور پٹواریوں کے گھیر کے لائے ہوئے سامعین تھے‘ جن کے ہاتھوں میں مسلم لیگ کے جھنڈے دے دیئے گئے تھے۔ یہ وہ سامعین ہیں‘ جو تھانیدار اور پٹواری‘ ہر حکمران پارٹی کو مہیا کرتے ہیں۔ مسلم لیگیوں کے دعوے سنے جائیں تو ان کا اپنا ہی ایک انداز ہوتا ہے۔ دنیا کی ہر چیز دیکھ لیتے ہیں‘ لیکن انہیں عمران خان کے جلسے اور جلوس میں کوئی شخص نظر نہیں آتا۔ صرف پریس اور ٹی وی کیمرے‘ حاضرین کے ہجوموں کی تصویریں بنا لیتے ہیں۔ مسلم لیگی اور مولانا فضل الرحمن کے پلائو خور کارکن‘ شکم پرُی ذوق و شوق سے کرتے ہیں‘ لیکن جب نظریں اٹھا کر دیکھتے ہیں تو ان کے سامنے تحریک انصاف کے کارکن ہوتے ہیں یا لیڈر۔
دوسری طرف 49 سالہ پیپلز پارٹی کے تازہ تازہ سن بلوغت میں داخل ہونے والے نوعمر لیڈر بلاول زرداری ہیں‘ جو 60 سالہ عمران خان کو یاد دلاتے ہیں کہ ان کی بچہ اپوزیشن ''پختہ کار سیاستدانوں‘‘ سے ٹکر نہیں لے سکتی۔ وہ جسے چاہیں بچہ ڈکلیئر کر دیں اور جسے چاہیں بزرگ‘ لیکن اس مخمصے میں وہ ہمیشہ پھنسے رہتے ہیں کہ وہ اپنے کس بزرگ کے نام پر ووٹروں کو جمع کریں؟ ان کے جو ماموں شہید ہوئے‘ انہوں نے سیاست میں قدم رکھے ہی تھے کہ انہیں شہید کر دیا گیا۔ ان دونوں شہیدوں کی پہچان یہ تھی کہ وہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کے صاحبزادے ہیں۔ ان میں سے صرف مرتضیٰ بھٹو نے اپنی پارٹی کو جنم دیا تھا‘ جو ابھی گود سے نہیں اتری تھی کہ مرتضیٰ خود شہید ہو گئے‘ اور شاہنواز بھٹو کی بات کی جائے تو سوائے اس کے کہ ان کی موت پُراسرار حالات میں ہوئی‘ کوئی درد بھرا کارنامہ ان سے منسوب نہیں؛ تاہم مجھے اس جواں مرگی کا شدید رنج ہوا تھا۔ اقتدار کا کھیل انتہائی تکلیف دہ ہے۔ بھٹو صاحب کی اولاد نے اپنا خون بہا کر خاندان کے المناک انجام کا باب لکھا‘ جبکہ موجودہ حکمران صرف پاور اور پیسوں پر قناعت کر رہے ہیں۔ اس خاندان کی کہانی مکمل کب اور کیسے ہو گی؟ اس کے بارے میں غیب کا علم جاننے والے ہی بتا سکتے ہیں۔ بھٹو خاندان کے ایک سابق پرستار ان دنوں نواز شریف پر واری واری جا رہے ہیں۔ ان کی پرستاری سے‘ وزیر اعظم نواز شریف کے ہاتھ کیا لگتا ہے؟ اس کا فیصلہ بھی وقت ہی کرے گا۔ بھٹو صاحب کی روح کو جو آخری صدمہ پہنچایا گیا‘ اسے بھٹو صاحب کے فدائین کیسے برداشت کریں گے؟ یہ سوال مجھے گزشتہ روز سے پریشان کر رہا ہے۔ بھٹو صاحب کے نواسے اور حاکم علی زرداری کے پوتے‘ ابھی تک اپنے سیاسی اثاثوں کی صحیح وراثت کا کریڈٹ لے رہے تھے۔ کل رات خدا جانے انہیں کس نے‘ کیا سمجھایا؟ والد صاحب نے یا پھوپھی صاحبہ نے؟ مجھے اس کے بارے میں علم نہیں‘ لیکن بھٹو خاندان کے دل پر کیا گزری ہو گی‘ جب بلاول نے اپنی ایک تقریر میں فخر سے‘ اپنے نانا اور دادا کا نام لیا۔ پھانسی کے بعد پیپلز پارٹی کی تاریخ کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ بھٹو صاحب کے سیاسی مقام و مرتبے کو حاکم علی زرداری کے برابر کرکے رکھ دیا گیا۔ میں سوچتا ہوں‘ جب بلاول کے نانا کے نام پر نعرہ لگے گا‘ تو عوام کیا جواب دیں گے؟ اور جب دادا کا نام آئے گا‘ تو پیپلز پارٹی والے کیا نعرہ لگائیں گے؟ اور ان دونوں نعروں کو سن کر بلاول پر کیا بنے گی؟ اگر بلاول کی شادی‘ زرداری خاندان میں ہو گئی تو پھر اللہ ہی اللہ۔ اونٹوں کے ریوڑ ہوں گے اور بھٹو کا نواسہ۔