لی کوان یو‘ سنگا پور کے نامور وزیر اعظم تھے۔ انہوں نے اپنے ملک کے بگڑے ہوئے مالیاتی نظام کو اس طرح سنبھالا کہ ان کی شہرت‘ اور خوشحالی عوام میں وبائے عام کی طرح پھیل گئی۔ اسی طرح ملائشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد اپنے عوام کے لئے خوش نصیبی کا دور لے کر آئے۔ انہیں بھی یہی عارضہ لاحق تھا کہ اپنے ملک کی معیشت کو تندرست و توانا کرکے‘ ڈائریا کا مرض پھیلا دیں۔ جب سے ان دونوں ملکوں میں ڈائریا کا مرض پھیلا ہے‘ عوام بھی خوشحال ہیں۔ روزگار بھی دستیاب ہے۔ کاروبار بھی اچھی طرح چل رہا ہے اور قومی معیشت بھی مسلسل ترقی کر رہی ہے۔ ہمارے وزیر خزانہ‘ جو اصل میں اپنے نازک دل کے اندر وزیر اعظم بننے کی تمنا لئے تڑپتے رہتے ہیں‘ نے بھی لی کوان یو اور مہاتیر محمد کی طرح یہ ٹھان رکھی ہے کہ پاکستانیوں کو ڈائریا کے مرض سے اس طرح نوازیں گے کہ اپنے دونوں ''استادوں‘‘ کے بعد‘ دنیا ان کا نام عزت و احترام سے لیا کرے گی۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ عہدنو کی ''ڈائریا معیشت ‘‘کو ہمارے وزیرخزانہ اتنے ذوق و شوق سے عام کریں گے کہ اپنی تقریروں میں فخر سے دعوے کیا کریں گے کہ وہ پاکستان میں معیشت کوترقی دے کر‘اتنے زور سے ڈائریا پھیلائیں گے کہ معیشت کی ترقی کی مخالفت کرنے والے ‘دیکھتے ہی دیکھتے ڈائریا میں مبتلا ہو کر‘ حکومت کے لئے خطرہ بن جائیں گے۔ پاکستان میں بہت سے لوگ پریشان ہیں کہ یہاں ڈائریا اتنی تیزی سے کیوں پھیل رہا ہے؟ عمران خان جو ایک محدود حلقے میں سیاسی اثرورسوخ رکھا کرتے تھے‘ اسحق ڈار نے وزیرخزانہ بنتے ہی ‘معیشت کو ایسی دہشت ناک ترقی دی کہ دنیا دیکھتی رہ گئی۔
روایتی طور پر بھارت سے ہمارا ہمیشہ مقابلہ رہتا ہے۔ جب ہمارے وزیراعظم نوازشریف کی موجودہ حکومت معرض وجود میں آئی‘ تو سب سے پہلے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے انتہائی عزت و احترام کے ساتھ ہمارے وزیراعظم جناب نوازشریف کو بھارت میں تقریب حلف وفاداری میں شرکت کے لئے خصوصی دعوت دی۔وزیراعظم نوازشریف نے یہ دعوت نہ صرف قبول کی بلکہ اپنے فرزند حسین نواز کو بھی ‘ساتھ لے کر بھارت گئے۔ مودی صاحب کے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ پاکستان کی طرف سے ان کی دعوت کو اتنی پذیرائی ملے گی۔ بھارتی فلمی صنعت کے بڑے بڑے ہیرو‘ ہمارے وزیراعظم کے خوبرو فرزند کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے‘ فرمائشی کارڈ لے کر دلی کی تقریب میں پہنچے۔ دلی کی وزارت اطلاعات نے حسین نواز کا شاندار مردانہ جاہ و جلال بھارتی حسینائوں کو دکھانے کے لئے خصوصی ڈاکومنٹری فلمیں بنائیں‘ جن کی بڑے عزت و احترام کے ساتھ صرف بھارت ہی نہیں‘ پوری دنیا میں نمائش کی گئی۔ جیسے ہی یہ ڈاکومنٹریز دنیا میں دکھائی گئیں‘ تو پاکستان کے وزیراعظم کے فرزند ارجمند کی وہ شہرت پھیلی کہ ہمارے ملک کے حسین و جمیل سیاسی ہیرو‘ بلاول بھٹو کے پورے بھارت میں چرچے ہونے لگے۔
پاکستانی نوجوانوں کی بھارت میں وہ شہرت ہے ‘ جس پر وہاںکی پوری فلم انڈسٹری حسد اور صدمے کا شکار ہو گئی۔ وزیراعظم مودی اس لحاظ سے بدنصیب انسان ہیں کہ قدرت نے انہیں ایک بچہ بھی خوبصورت نہیں دیا۔ جس بچے کو وہ گود لیتے ہیں‘ وہ بھارت میں کسی کو پسند نہیں آتا اور فلم انڈسٹری والے جو بھارتی ہیرو‘ تلاش کر کے لاتے ہیں‘انہیں بھارتی فلم بین پسند نہیں کرتے۔ میں بھارتی عوام کے پسندیدہ ہیروز کا نام اس لئے نہیں لے رہا کہ پاکستانی اداکار تو وہاں سے نکال دیئے گئے۔ ایسا نہ ہو کہ بھارت میں جنم لینے والے ہیروز کو بھی ‘وہاں سے زبردستی نکال دیا جائے۔بھارتیوں کو غرور ہے کہ ان کی فلمیں مختلف ذرائع سے پاکستانی‘ اپنے گھروں میں چوری چھپے دیکھتے ہیں۔ مجھے یہ بتاتے ہوئے شرم آتی ہے کہ گھروں میں چوری چھپے بھارتی فلمیں دیکھنے کی وجہ کیا ہے؟ پاکستان کے کئی معززین ایسے ہیں‘ اگر ان کے نام شائع کر دیئے جائیں‘ تو وہ سرشام اپنے گھروں میں جاتے ہوئے شرمانے لگیں۔ میں ذاتی طور پر ایک ملک کے فنکاروں کے دوسرے ملک میں فن کے اظہار کا برا نہیں مناتا۔ یہ ساری شرارت مذہبی جنونیوں کی ہے۔ ہندو پنڈت بظاہر خوبصورت خواتین سے آنکھیں چراتے ہیں۔ لیکن مندروں میں جاتے ہی آنکھیں پھاڑپھاڑ کر دیکھنے لگتے ہیں۔ پاکستانی فنکاروں سے بھارتیوں کو بے شک شرم آتی ہو۔ لیکن ہمارے سیاستدانوں کووہ سر آنکھوں پہ بٹھاتے ہیں۔ مثلاً لال کشن ایڈوانی‘ بھارت کے قابل احترام سیاستدان ہیں۔ انہیں احترام سے سرآنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے۔ لائل پور کے نوجوان شہید‘ بھگت سنگھ کو احترام کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ اگر میںگنتی کرنے لگوں تو بھارت کے ممتاز سیاستدانوں میں پاکستان سے جانے والے اہل سیاست کی گنتی کرنا دشوار ہو جائے۔ البتہ خواتین میں جو سیاستدان سب سے ممتاز ہے‘ اس کا تعلق پاکستان سے ہے۔ بھارت کی وزیرخارجہ شریمتی سشما سوراج لاہور کی بیٹی ہے۔ انہوں نے بھارت کی صف اول کی سیاسی قیادت میں جو مقام حاصل کیا ہے‘ وہ پورے برصغیر کے لئے قابل فخر ہے۔
بات کہاں سے چلی تھی اور کہاں آ پہنچی؟ ہمارے اسحق ڈار ‘ دنیا کے تمام ماہرین مالیات میں امتیازی حیثیت رکھتے ہیں۔ یعنی وہ حساب دان یا منشی ضرور ہیں‘ لیکن مالیاتی مہارت کو انہوں نے ہمیشہ حقارت سے دیکھا۔ یہ بڑی محنت کا کام ہے۔ اس رتبے کے لوگ آئی ایم ایف ‘ عالمی بنک کے سربراہ یا امریکہ‘ برطانیہ ‘ فرانس ‘ چین اور سوئٹزرلینڈ کے وزرائے مالیات ہوتے ہیں۔ ان میں سے کوئی ایک بھی یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ وہ معیشت کا ماہر ہے۔ منشی گیری اور مالیاتی مہارت ‘ دونوں ہی الگ الگ علوم ہیں۔ کوئی ماہرمعاشیات یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ اس کی شاندار کارکردگی سے اس کے مخالفین کو ڈائریا ہو جاتا ہے۔ آج تک دنیا کے کسی وزیرخزانہ نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ اس کی مہارت فن کے نتیجے میں معاصرین کو ڈائریا ہو جاتا ہے۔ ان بدنصیب شہریوں کی قسمت پر ''رشک‘‘ ہی کیا جا سکتا ہے‘ جن کے وزیرخزانہ کو اپنی شاندار کارکردگی پر یہ فخر ہو کہ اسے ڈائریا پھیلانے میں مہارت حاصل ہے۔ ویسے ڈار صاحب کا بھی قصور نہیں۔ ان کے باس ‘اپنے بہی کھاتے کی دیکھ بھال صرف منشیوں کے سپرد کرتے ہیں۔ مال و دولت جمع کرنے کی ضرورت کا ہنر صرف منشیوں یا چارٹرڈ اکائونٹنٹس کے پاس ہوتا ہے۔ دولت کہاں سے نکالنی ہے؟ کہاں پر چھپانی ہے؟ اور کیسے بچانی ہے؟ یہ فن صرف منشی ہی جانتے ہیں۔