رات کے اندھیرے میں بہت سی ٹڈیاں بیک وقت ٹرٹرا رہی ہوں‘ تو شور بن جاتا ہے اور نیندیں بھی اچاٹ ہو جاتی ہیں۔ لیکن ایک ٹڈی تنہاچاہے پوری آواز سے شور مچا رہی ہو‘ اس کا کوئی نوٹس نہیں لیتا۔ حکومت ‘عمران خان کے خلاف ٹڈی دل بھی جمع نہیں کر پائی‘ جس سے تھوڑا بہت شور بھی مخالفین میں معمولی سی بدسکونی پیدا کر دے۔شام کے دھندلکے اور رات کے اندھیرے میں مختلف مراحل میں‘وقفے وقفے سے ایک ایک ٹڈی چھوڑی جاتی ہے۔اس کے سامنے چار چار مائیک اور درجنوں لوڈ سپیکر نصب کئے جائے ہیں۔ لیکن ایک ٹڈی کا شور کیا ہنگامہ برپا کر سکتا ہے؟ لوگ آتے جاتے رہتے ہیں اور ٹڈی گلا پھاڑنے کے باوجود شور کا تاثر پیدا نہیں کر سکتی۔عمران خان چھ ماہ سے صرف ایک آواز بلند کر رہا ہے۔ مگر یہی ایک آواز حکمرانوں کی نیندیں ذبح کئے جا رہی ہے اور عمران خان خاموشی سے کبھی ختم نہ ہونے والے حامیوں کے درمیان ‘کہیں کہیں کھڑا ہو کر‘ ایک تقریر کر دیتا ہے اور حکمران‘ مختلف ملائوں کے دربدر جا کرصدائیں لگاتے ہیں کہ ہمیں جلسے کے لئے تھوڑے سے حاضرین دے دو۔ لیکن ملا اپنے مریدوں اور پیروکاروں کو کب فرصت دیتے ہیں کہ وہ حکمرانوں کی خدمت میں نذرانہ پیش کر سکیں؟ صرف ایک در ایسا ہے‘ جہاں سے حکمرانوں کی جھولی میں کچھ پڑ جاتا ہے اور وہ ہے مولانا فضل الرحمن کا بے تحاشہ دولت خانہ۔ حکمران اپنے آپ کو بے شک ''شیر شیر ‘‘کہتے رہیں۔ لیکن جب وہ مولانا فضل الرحمن کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں تو ایک ہی نظر میں پتہ چل جاتا ہے کہ شیر کون ہے؟ اور بھیڑ کون؟ مولانا کس طرح دندناتے ہوئے ایوان اقتدار میں داخل ہوتے ہیں؟ اس کی شان ہی اور ہے۔ انہوں نے ایک گُر دریافت کر لیا ہے۔ جیسے ہی عمران خان کہیں گرجتا ہے‘ مولانا فضل الرحمن‘ سہمے ہوئے شیروں کو حوصلہ دینے کے لئے اپنی آواز نکالتے ہیں اور سہمے ہوئے شیر‘ پست حوصلے گرا کر‘ اپنے آپ کو سنبھال کر سوچتے ہیں کہ اب ان کی دھاڑ میں دم آ گیا ہو گا۔لیکن عمران خان یا عام آدمی ایسی دھاڑوں کو کب خاطر میں لاتا ہے؟ عمران خان کی آواز سنتے ہی چاروں طرف سے عوام جوق در جوق نکل کر ‘ ان کے گرد جمع ہونے لگتے ہیں۔ طویل مدت کے بعد ایک ایسا لیڈر منظرعام پر آیا ہے کہ وہ جہاں جا کر کھڑا ہو جائے‘ وہیں جلسہ۔
حکومت بھی کیا چیز ہے؟ جس کے آنے کی اتنی خوشی نہیںملتی‘ جتنا اس کے جانے کا دکھ ہوتا ہے۔ اگر آپ حکومت جانے کے خوف سے چیختے چلاتے ارباب اقتدار کی حالت دیکھیں‘ توہر نرم دل آدمی‘ لمحے بھر کے لئے تو سوچتا ہے کہ انہیں ووٹ کی تسلی کا آسرا دے دے۔ لیکن پھر انہیں25روپے سیر آلو کی چھیڑ خانی یاد آ جاتی ہے اور 40 روپے کلو کا اصل بھائو یاد کر کے‘ غصہ آ جاتا ہے۔ کونسا عام آدمی ہو گا؟ جسے 40 روپے کلو آلو خریدنا پڑے اور ملک کا وزیراعظم اور بعد میں وزیرخزانہ ‘ غریب آدمی کی بے بسی میں کانٹا چبھو چبھو کر اسے ستائے کہ آلو 25 روپے کلو ہے۔ جبکہ وہ 40 روپے کلو بھی مشکل سے مل رہا ہو۔ارباب اقتدار کی یہی حرکات ہوتی ہیں‘ جو عام آدمیوں کو سچ بولنے والے لیڈر کا حامی بناتی ہیں۔
یہ بات فوجی آمروں کی سمجھ میں بھی نہیں آئی تھی کہ جب وہ بازاروں میں دندناتی ہوئی مہنگائی پر عوام کو قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ضروریات زندگی کی اشیا تو بہت سستی مل رہی ہیں۔ ایک مہنگائی کا عذاب‘ دوسرے حکمرانوں کی چھیڑ خانیاں کہ بازاروں میں تو ہر چیز سستی مل رہی ہے۔ سچ بولنے والے اکیلے آدمی کے چاروں طرف اتنے بڑے بڑے ہجوم جمع ہونے لگتے ہیں کہ ایوان اقتدار میں بیٹھا ہوا آسودہ حال شخص یہ سوچ کر حیران ہونے لگتا ہے کہ آخر لوگوں کو ہوا کیا ہے؟ میں اپنے جس وزیراور مشیر کو ‘ بازار کے بھائو پوچھنے کے لئے بھیجتا ہوں‘ وہ آ کر جو ریٹ بھی بتاتا ہے‘ وہ بہت کم ہوتے ہیں۔ جبکہ شور مچانے والے عوام سب کے سب ایک ہی آواز میں نعرہ لگاتے ہیں کہ مہنگائی بہت ہو گئی ہے۔ ظاہر ہے‘ ان حالات میں ارباب اقتدار کویقین ہونے لگتا ہے کہ عوام جھوٹے ہیں۔ حکومت بازاروں میں چیزیں ارزاں بیچتی ہے اور یہ احسان ناشناس لوگ پھر بھی ہماری مخالفت میں نعرے لگاتے ہیں۔ عوام اور حکمرانوں کے درمیان یہ عناد اتنا شدید ہے کہ جب بھی کوئی شخص عوام کے حق میںآواز اٹھاتا ہے‘ تو حکومت اس کی دشمن ہو جاتی ہے۔ میں اپنی زندگی میں یہ واقعہ دوسری مرتبہ دیکھ رہا ہوں۔ پہلی مرتبہ 1967 ء اور دوسری مرتبہ 1970ء ۔ سب کچھ بدلا‘ سچائی نہیں بدلی۔ عوام اور حکمرانوں کا باہمی رشتہ وہی ایک چلا آ رہا ہے۔ بھٹو صاحب کو حکومت ضرور مل گئی۔ لیکن وہ عوام کو وہ کچھ نہ دے سکے‘ جس کی وہ دل میں آرزو لے کر آئے تھے۔ اقتدار کا کروفر ہاتھ میں آ گیا۔ وہ یہ باور بھی کرنے پر مجبور ہو گئے کہ ان کی حکومت میں ہر چیز ٹھیک ہوتی جا رہی ہے۔ لیکن جب الیکشن آیا اور اصل حکمران طبقوں کو خطرہ پیدا ہوا کہ بھٹو نے تو 1970ء میں الیکشن جیت لیا تھا جبکہ حکومت جرنیلوں کے پاس تھی اور ا ب تو حکومت بھی بھٹو کے پاس ہے۔ وہ الیکشن میں حکمران طبقوں کو کیسے جیتنے دے گا؟ ان کے خدشات درست نکلے۔ بھٹو واقعی حیرت انگیز اکثریت کے ساتھ جیت گیا۔ پھر جو ہونا تھا‘ وہی ہوا۔ حکمران طبقوں نے اپنے تمام اداروں کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے‘ بھٹو کو پھانسی لگا دی اور بڑے اطمینان سے اپنے اقتدار کا تسلط پھر سے قائم کر لیا۔
طویل مدت کے بعد پھر عوام کو ایسا دن دیکھنا نصیب ہوا‘ جب اکیلا ایک شخص ‘ غریبوں کی آواز بلند کرتے ہوئے‘ میدن میں نکلا۔ پہلے تو اس کا مذاق اڑایا گیا۔ مگر یہ دھن کا پکا‘ لوگوں کو جمع کرتے کرتے‘ اپنی آواز سنانے لگا اور پھر بقول مجروح
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
موجودہ نسل خوش قسمت ہے ‘ جس نے اس شعر میں بیان کئے گئے منظر کوایک بار پھر اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ آج پھر وہی منظر ہے کہ عمران خان اپنی ایک آواز لے کر‘ منزل کی طرف نکل کھڑا ہوا ہے۔ اپنے ابتدائی دنوں میں جب وہ اپنے تنہا خواب کو لے کر میدان میں نکلنے کی ٹھان چکا تھا‘ تو میرے غریب خانے پر بھی تشریف لایا اور دوسرے لوگوں کی طرح مجھے بھی یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ جنونی شخص اکیلا‘ کروڑوں بھیڑوں کو اپنے ساتھ ملا لے گا‘ جنہیں حکمران درندوں نے دہشت زدہ کر کے‘ اپنے آگے لگا رکھا ہے۔ لیکن وہ حیرت انگیز واقعہ وجود میں آ گیا۔ جب 2013ء میں عوام نے دیوانہ وار ووٹ ڈالے‘ تو حکومت میں بیٹھے ہوئے لوگوں نے اس آنکھوں دیکھی حقیقت کو بھی ماننے سے انکار کر دیا اور ڈبوں پر ڈنڈے چلا کر ‘ اپنے ہارے ہوئے لوگوں کو بھی کامیاب کرا لیا۔ یہی ہارے ہوئے لوگ اب اقتدار پر قابض ہیں۔ لیکن عمران نے شکست نہیں مانی۔ وہ لوگوں کو ساتھ ملاتا ہوا‘ چلتا رہا اور آج میں دوبارہ یہ عمل اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں کہ لوگ ساتھ آتے جا رہے ہیں اور کارواں بنتا جا رہا ہے۔ وہ ساری نام نہاد اپوزیشن‘ جو اپنے آپ کو عوام کی ترجمان قرار دیا کرتی تھی‘ ایک ایک کر کے‘ حکمرانوں کے ساتھ ملتی جا رہی ہے۔ عمران اکیلا ہوتا جا رہا ہے۔ عوام اس کے ساتھ آتے جا رہے ہیں۔ اس بار الیکشن ہو یا نہ ہو‘ اقتدار کا فیصلہ عوام اور حکمرانوں کے درمیان ہو رہا ہے۔ جیت ہمیشہ عوام کی ہوتی ہے۔ حکمرانوں کو اعتماد ہے کہ وہ ڈنڈے کے زور پر اس بار بھی اپنے ڈولتے ہوئے اقتدار کو بچا لیں گے۔ لیکن فرق بہت بڑا پڑ چکا ہے۔ ڈنڈا ہمیشہ اس طرف ہوتا ہے‘ جدھر عوام ہوں۔ بندوقیں ہمیشہ حکمرانوں کے ساتھ رہی ہیں۔ اس بار ایسا شاید نہ ہو۔ ڈنڈے عوام کے ہاتھوں میں ہوںاور گولیاں ان کے سینوں پر لگنے سے انکار کر دیں۔ عمران خان جس چیز کو تبدیلی کہہ رہے ہیں‘ وہ یہی ہو گی۔