"NNC" (space) message & send to 7575

نہتے نشانے (Target)

پولیس ٹریننگ کالج کوئٹہ میں جو اندوہناک سانحہ ہوا‘ وہ سینکڑوں خاندانوں اور بیس کروڑ پاکستانیوںکے دلوں کے ٹکڑے تو کر ہی گیا لیکن عقل و فہم کو حیرت اور تعجب کے سمندر میں ان گنت غوطے بھی دے گیا۔ متعدد ذرائع کی خبروں کو دیکھنے کے بعد جو اعداد و شمار سامنے آئے‘ ان کے مطابق بلوچستان حکومت کے ترجمان کے بقول‘ پولیس کے تربیتی کالج میں کل سات سو طلبا زیر تربیت ہیں۔ سانحہ کے وقت کالج کی حدود میں اڑھائی سے تین سو طلبا موجود تھے۔ وسیع رقبے پر پھیلی ہوئی یہ عمارت شہر سے 12 کلومیٹر دور واقع ہے اور یہ زیادہ پُررونق بھی نہیں۔ میڈیا کی رپورٹ کے مطابق بھی سانحے کے وقت چاردیواری کے اندر اڑھائی سے تین سو طالب علم موجود تھے۔ نیم دیہی علاقوں میں موجودہ موسم کے مطابق سات‘ ساڑھے سات بجے رات کا منظر ہو جاتا ہے جبکہ نو بجے تو یہ تاثر پیدا ہو جاتا ہے جیسے رات گہری ہو چکی ہو۔ اگر ہم بلوچستان کی صورت حال کا جائزہ لیں تو گزشتہ کئی عشروں سے یہ صوبہ بدامنی کی لپیٹ میں ہے۔ یہاں کئی طرح کے تصادم اور لڑائیاں ہوتی رہتی ہیں۔ قبیلے‘ قبیلوں سے لڑتے ہیں۔ فرقہ‘ فرقوں سے متصادم ہے اور نسلی خونریزی بھی موقع بہ موقع ظاہر ہوتی رہتی ہے۔ حکومت کے باغی اپنی جگہ سرگرم رہتے ہیں۔ ویسے تو کسی صوبے میں بھی امن و امان کی صورت حال‘ کبھی اطمینان بخش نہیں ہوتی‘ بلوچستان میں تو بالکل ہی نہیں۔ تعلیم و تربیت سے فیض یاب ہونے والی نوجوان نسل تو بطور خاص دہشت گردوں کا نشانہ بنتی رہتی ہے۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا‘ باچا خان یونیورسٹی پر دہشت گردوں کا وحشیانہ حملہ ہو چکا ہے۔ ابھی تک مصدقہ دہشت گردوں کا سراغ نہیں لگایا جا سکا۔ انتظامیہ کی تدبیروں سے ہم عمومی طور پر واقف ہیں۔ تھوڑے بہت فرق کے ساتھ ہمارے ہر صوبے میں امن و امان کی رپورٹیں شائع کرنے کے لگے بندھے طور طریقے موجود ہیں۔ عموماً حیرت انگیز واقعات بیان کئے جاتے ہیں۔
باچا خان یونیورسٹی کے سانحے کو یاد کریں تو شہید ہونے والوں کی تعداد‘ ان کی آمد کے راستوں اور تصادم کی تفصیل پڑھنے کے بعد آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جو واقعات سرکاری طور پر بیان کئے گئے‘ وہ حقیقت کے قریب نہیں۔ پولیس ٹریننگ کالج کوئٹہ میں جو حیرت انگیز سانحہ رونما ہوا‘ ایسی کہانیاں تو جاسوسی ناول لکھنے والے بھی مشکل ہی سے تیار کرتے ہوں گے۔ یہ علاقہ‘ جہاں پر پولیس کالج واقع ہے‘ رات کے وقت کم و بیش سنسان ہوتا ہے۔ شاذ و نادر ہی کوئی اس طرف سے گزرتا ہو گا۔ جو سناٹا اس وقت وہاں ہو چکا ہوتا ہے‘ اس میں موٹر سائیکل کی آواز اچھا خاصا شور برپا کرتی ہو گی۔ یہی صورت حال سائیکل کی ہے۔ کسی جیپ یا کار کا گزرنا ہو‘ تو گرد و نواح کی نیم خوابیدہ آبادی کو اچھی طرح چونکا دیتا ہو گا۔ یہ شور بیشتر لوگوں کی نیند میں مخل تو ضرور ہو جاتا ہو گا۔ اگر راستے سے گزرنے والے دہشت گرد جیپ‘ کار یا موٹر سائیکل پر کندھے سے کلاشنکوف لٹکائے بیٹھے دکھائی دیں گے تو یقیناً یہ ساری آبادی کے لئے خطرے کا گھنٹال ہو گا۔ رات کے اس پہر کے سناٹے میں کوئی بھی غیر معمولی آواز جاگتے یا خوابیدہ شہریوں کو انجانے خطروں سے نمٹنے پر تیار کر دیتی ہو گی۔ سانحے کی گہری رات کے اندھیرے میں مسلح افراد کا سناٹا توڑتے ہوئے گزرنا‘ کسی بھی طور معمول کی بات نہیں۔ یقیناً یہ غیر معمولی واقعہ ہے۔ چار مسلح افراد کو پولیس کالج کی طرف جانے والے راستے پر چلتے ہوئے دیکھ کر کون سے پہرے دار چونکتے نہیں ہوں گے؟ کون سا شہری ہے جو گھر کی کھڑکی یا چھت سے اس غیر معمولی نقل و حرکت کو دیکھ کر اہل محلہ کو خبردار نہیں کرتا ہو گا؟ یہ منظر تو میں چشم تصور سے دیکھ رہا ہوں۔ واقعاتی طور پر دیکھا جائے تو بلوچستان‘ خصوصاً کوئٹہ میں امن وامان کی صورت حال ایسی نہیں کہ وہاں غیر معمولی حالات سے نبردآزما ہونے کے لئے گارڈ‘ چوکیدار یا رات کو گشت کرنے والی پولیس موجود نہ ہو۔
زیادہ دن نہیں گزرے کہ کوئٹہ کے سول ہسپتال میں عین اس وقت جب لوگ ہزاروں کی تعداد میں موجود تھے‘ وکلا اپنے صدر‘ بلال انور کاسی کی میت لینے گئے۔ جیسا کہ آپ کے علم میں ہے‘ دوست احباب اور رشتے داروں کی کثیر تعداد اپنے مریض کی تیمارداری کے لئے آئی ہوتی ہے۔ غرض صبح کے وقت ہسپتال میں میلے کی سی صورت حال نظر آتی ہے۔ جیسے ہی وکلا‘ سول ہسپتال کوئٹہ میں اپنے صدر کی لاش لینے پہنچے تو عین اسی وقت مسلح دہشت گرد بڑے ہجوم میں اچانک گھس کر خون ریزی برپا کر دیتے ہیں۔ 70 وکلا جام شہادت نوش کر جاتے ہیں۔ جو سانحہ پولیس کالج کوئٹہ میں رونما ہوا‘ وہاں حملہ آوروں اور ان کا نشانہ بننے والوں کی تعداد کا موازنہ کر دیکھئے‘ کوئی خاص فرق نظر نہیں آئے گا۔ بلوچستان میں امن و امان کی جو صورت حال ہے اس میں کم و بیش ہر شہری اپنی حفاظت کے لئے اسلحہ اپنے ساتھ یا گھر میں رکھتا ہے۔ خصوصاً چارسدہ میں باچا خان یونیورسٹی سانحے کے بعد دو ہی صورتیں ممکن تھیں۔ اول یہ کہ نوجوان طلبا اپنی حفاظت کے لئے اسلحہ اپنے ساتھ رکھنے کی اجازت حاصل کر لیتے یا اپنی یونیورسٹی و شہری انتظامیہ سے‘ تحفظ مانگ لیتے۔ یہی کچھ پولیس کالج میں ہونا قرین قیاس تھا۔ اگر طلبا بھی نہتے تھے اور وہ بھی پولیس کے زیر تربیت نوجوان تو پھر یہ عقل و فہم کے لئے حیران کن و اقعہ ہے۔ اگر باچا خان یونیورسٹی پر حملے کے بعد طلبا کو اپنی حفاظت کے لئے بھی اسلحہ رکھنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی تو عقل کا انگشت بدنداں نہ ہونا یقینی تھا۔
مستقبل میں پولیس فورس کا حصہ بننے والے زیر تربیت نوجوانوں کے پاس (کالج کے اندر) اسلحہ کی عدم موجودگی ناقابل فہم ہے۔ جس کالج میں پولیس کے زیر تعلیم و تربیت نوجوانوں کو نشانے بازی سکھانے کے لئے کالج کے سٹور میں بندوقیں دستیاب نہ ہوں‘ وہاں وہ کیا 
سیکھتے ہوں گے؟ شاید انہیں چھڑیوں کی مدد سے دہشت گردوں یا ڈاکوئوں کا مقابلہ کرنا سکھایا جاتا ہو گا۔ مجھے بھارتی وزیر اعظم‘ نریندر مودی کی وہ تقریر یاد ہے‘ جس میں انہوں نے اپنے عوام کو بتایا تھا کہ انہیں‘ بلوچستان سے مدد مانگنے والوں کی اپیلیں موصول ہو رہی ہیں۔ یہ کسی ایرے غیرے کا بیان نہیں۔ ہمارے بنیادی دشمن بھارت کے وزیر اعظم کا انتباہ ہے۔ پاکستان اور بھارت دونوں ہی ان دنوں کشیدگی کی لپیٹ میں ہیں۔ بھارت ہر وہ قدم اٹھا رہا ہے جو کشیدگی میں مزید شدت پیدا کرتا ہو۔ سرحدو ں پر کم و بیش روزانہ دو طرفہ گولہ باری ہو رہی ہے اور پہل ہمیشہ بھارت کی طرف سے ہوتی ہے۔ پاکستان کے دیرینہ باغی‘ براہمداغ بگٹی‘ جو اپنے باپ کے خون کا انتقام لینے کے لئے ہر وقت اپنے کھولتے ہوئے خون میں پکتے رہتے ہیں‘ ان دنوں بھارت میں مودی صاحب سے مدد لینے ان کے در پے دھرنا دیے بیٹھے ہیں اور بھارت کی شہریت مانگ رہے ہیں‘ اپنے بلوچ حامیوں کو فوجی تربیت دلوانے کے طلب گار ہیں۔ نریندر مودی‘ پاکستان کے اندر بدامنی پھیلانے کی بہانوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ تحریک انصاف کے مرکزی رہنما‘ شاہ محمود قریشی نے تو ایک نجی ٹی وی چینل پر اظہار خیال کرتے ہوئے برملا الزام لگایا کہ جیسے ہی وزیر اعظم نواز شریف کسی مشکل میں پڑتے ہیں پاکستان میں بدامنی کے واقعات ہونے لگتے ہیں۔ پولیس کالج کوئٹہ پر حملے کا منصوبہ بھی افغانستان میں بنایا گیا تھا۔ افغانستان‘ بھارت اور بلوچستان کے باغیوں کی سرگرمیوں کو پیش نظر رکھیں تو ایک ہی قدر مشترک نظر آتی ہے... بھارت!
چار دہشت گرد‘جن میں سے دو خود مر گئے اور ایک کو نوجوان طلبا نے مار دیا۔ اس کے بعد گنتی کر کے دیکھئے‘ چار میں سے دو قاتل ‘جہنم واصل ہو گئے تو باقی دو نے 60 طلبا کو شہید اور 124 کو زخمی کیسے کر دیا؟ یہ حساب کا سوال ہے یا اسلحہ چلانے کی مہارت کا؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں