''بی جے پی پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ وہ سیاست میں فوج کا استعمال کر رہی ہے۔ (نام نہاد) سرجیکل سٹرائیک کے بعد جس طرح سے اس معاملے کو ہوا دی گئی اور پورے ملک میں ایک جنونی کیفیت پیدا کر دی گئی‘ اس سے یہ قیاس لگانا غلط نہ ہو گا کہ برسر اقتدار پارٹی اپنے سیاسی مفاد کے لئے فوج کا بھرپور استعمال کر رہی ہے۔ 24 اکتوبر کو مشن یو پی کے آغاز کے تحت‘ وزیر اعظم نے مہوبہ میں اپنی تقریر کے دوران فوج کے جوانوں سے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے ملک کے عوام سے اپیل کی تھی کہ وہ دیوالی پر اپنے تہنیتی پیغام فوجی جوانوں کو بھیجیں کیونکہ وہ اپنے گھر پر دیوالی نہیں منا سکتے۔ انہیں سرحدوں پر کشیدگی کے باعث ہمہ وقت مورچوں میں ہوشیار رہنا پڑتا ہے۔ اب اتر پردیش‘ بی جے پی کے ریاستی صدر‘ کیشو پرساد موریہ نے یہ فیصلہ لیا ہے کہ ان کے دستخط والے خطوط فوجیوں کے گھروں میں پہنچائے جائیں۔
فوجی جوانوں کو عام شہری قدر کی نظر سے دیکھتے ہیں کیونکہ وہ ملک کی سالمیت اور تحفظ کے لئے اپنی جان کی بازی لگانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ گھر والوں سے دور یہ لوگ نامساعد حالات میں زندگی گزارتے ہیں اور وقت پڑنے پر بھوکے پیاسے رہ کر اپنی فرض شناسی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ فوجیوں کے لئے حکومت نے بہت سی ایسی سہولتیں بہم پہنچائی ہیں جو دیگر سرکاری ملازموں کو نہیں دی جاتی ہیں‘ جیسے بغیر کسی قسم کے ٹیکس کے فوجی کینٹین سے ہر قسم کے سامان ملنے کی سہولت‘ مفت راشن کی سہولت‘ بچوں کی تعلیم کے لئے کینٹ ایریا میں پبلک سکولوں کا انتظام وغیرہ۔ فوج کو عام انسانوں سے زیادہ خلط ملط نہیں ہونے دیا جاتا ہے‘ لہٰذا وہ کینٹونمنٹ (چھائونی) میں ہی رہتے ہیں۔ کسی سیاسی پارٹی نے آزادی کے بعد‘ ابھی تک ان کا سیاسی استعمال نہیں کیا‘ لیکن بی جے پی اپنے فوجیوں کو بھی ایک سیاسی ایشو بنا کر‘ اتر پردیش کے الیکشن میں کامیابی حاصل کرنا چاہتی ہے۔ ایسا ظاہر کیا جا رہا ہے کہ جیسے فوج کی سب سے بڑی ہمدرد‘ بی جے پی ہے اور آج تک جتنی پارٹیوں نے ملک کی باگ ڈور سنبھالی‘ انہوں نے فوجیوں کی بہبود سے بے توجہی برتی ہے۔ مگر افسوس کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ وہ فوجی جو اپنا گھر بار چھوڑ کر اپنے چہیتوں‘ والدین‘ بھائی‘ بہن اور بیوی بچوں سے دور بیرونی دشمنوں سے سرحدوں پر ملک کی حفاظت کرتے ہیں اور قدرتی آفات کے موقع پر اندرون ملک بھی اپنی خدمات خوش دلی سے پیش کرتے ہیں۔ وقت پڑنے پر ان کے خواب چکنا چور ہو جاتے ہیں۔ ویر عبدالحمید پر پورے ملک کو ناز ہے اور پرم ویر چکر‘ (جو بھارت میں اعلیٰ فوجی اعزاز ہے) پس از مرگ سب سے پہلے ملک کے اس عظیم سپوت کو ملا لیکن ان کی بیوہ سولن بی بی کے آنسو بھی کسی نے نہیں پونچھے۔ ان کی غربت و افلاس کی درد ناک داستانیں‘ موقع بہ موقع اخبارات میں شائع ہوتی رہیں لیکن حکومت کی طرف سے ایسا کوئی انتظام نہیں کیا گیا‘ جس سے وہ سکھ چین کے ساتھ اپنی زندگی کے دن گزار سکیں۔ لوگوں نے ان کو پٹرول پمپ دلانے کی بہت کوشش کی لیکن ان کی عرضی سیاسی موقع پرستوں کے درمیان ہی گھومتی رہی۔ پٹرول پمپ کا الاٹمنٹ لیٹر‘ اس بے سہارا بیوہ کو نہ مل سکا۔ اسی طرح کارگل کے فوجی جوانوں‘ دہشت گردوں کے حملوں میں شہریوں اور پارلیمنٹ پر حملوں کے دوران جانیں دینے والوں کی بے بس بیوائیں‘ حکومتی وعدے پورے نہ ہونے پر‘ میڈلز واپس کرنے کے لئے مجبور ہو گئیں۔ مودی حکومت میں سابق فوجیوں نے ون پنشن ون رینک میں اضافہ کے لئے جنتر منتر پر بھوک ہڑتال بھی کی تھی۔ آج بھی سابق فوجی موجودہ حکومت پر وعدہ خلافی کا الزام لگاتے ہیں۔ سرجیکل سٹرائیک کو اپنی انتخابی حکمت عملی کا ایک حربہ بنا کر فوجیوں کا استعمال اپنے سیاسی مفاد کے حصول کے لئے غیر مناسب ہے۔ اتر پردیش حکومت کا حصول بی جے پی کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ بہار‘ دہلی‘ بنگال‘ کیرالہ اور تامل ناڈو میں زبردست شکست کا سامنا کرنے کے بعد بی جے پی یہ نہیں چاہتی کہ اتر پردیش میں بھی اس کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑے۔ اپنے دل کے ارمانوں کو پورا کرنے اور پوشیدہ ایجنڈے پر عمل درآمد کے لئے ایوان بالا (راجیہ سبھا) میں اکثریت حاصل کرنا برسر اقتدار پارٹی کے لئے ضروری ہے۔ اس لئے بی جے پی‘ یو پی کا الیکشن ہر قیمت پر جیتنا چاہتی ہے۔ یو پی میں بی جے پی کی انتخابی پالیسی بنانے کے لئے سات لوگوں کی ایک ٹیم کام کر رہی ہے‘ جس میں یو پی کے انچارج اوم ماتھر‘ کیشو موریہ‘ جنرل سیکرٹری ارون سنگھ‘ وکاس پریتم اور بی جے پی کے جنرل سیکرٹری‘ سنیل بنسل شامل ہیں‘‘۔
یہ ہے بھارت کی اس فوجی طاقت کی اصل حقیقت‘ جس کے دعوے کئے جاتے ہیں۔ اس کے برعکس پاک فوج کی جنگی صلاحیتوں‘ ان کے حوصلے اور شوق شہادت کی تمنا کے ساتھ‘ دنیا کی کسی بھی اعلیٰ ترین فوج سے موازنہ کیا جا سکتا ہے۔ اگر میں غلط نہیں تو اقوام متحدہ کی طرف سے عالمی محاذوں پر خدمات انجام دینے کی خاطر‘ جہاں جہاں پاکستانی افواج گئیں‘ وہاں ان کے کارناموں کے ہر طرف چرچے کئے جاتے ہیں۔ ایسے ایسے ممالک جو خانہ جنگیوں کا شکار تھے‘ وہاں امن قائم کرنے کے لئے اقوام متحدہ نے متعدد ملکوں سے فوجی خدمات حاصل کی گئیں‘ ان میں سے بیشتر اپنی مہمات میں کامیاب نہ ہو سکے‘ لیکن جب پاکستانی دستے بھیجے گئے تو وہ کامیاب و کامران رہے۔ صومالیہ کی مثال آج بھی دنیا کی بہترین اور کامیاب فوجی مہمات میں شمار ہوتی ہے۔ دہشت گردوں کے خلاف جنگ لڑنا‘ دور جدید کی مشکل ترین مہم شمار کی جاتی ہے۔ امریکہ نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر افغانستان میں دہشت گردوں کے خلاف جو طویل جنگ لڑی‘ اس میں بہترین اسلحہ‘ اعلیٰ تربیت یافتہ فوجی اور جدید ترین جنگی حربے استعمال کئے گئے۔ امریکہ کے دیگر اتحادی ملکوں نے اپنے فوجیوں کو شاندار تربیت دی اور مشقیں کرائیں۔ انہیں جدید ترین اسلحہ دے کر اس کے استعمال کے طریقے سکھائے۔ لیکن جب انہیں افغانستان میں آ کر میدان جنگ میں خدمات انجام دینا پڑیں تو بری طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ جہاں بھی امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے کوئی جنگ زدہ علاقہ خالی کرانے کے لئے مقامی افواج سے مدد لی‘ صرف پاک فوج نے ہی وہ جنگ زدہ علاقے دہشت گردوں سے خالی کرائے۔
دنیا بھر کے فوجی ماہرین بالعموم تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان کے اندر دہشت گردوں نے جگہ جگہ جو خفیہ مراکز قائم کر رکھے تھے‘ ان کا خاتمہ مشکل ترین کام تھا۔ ان مراکز میں انہیں مقامی آبادی کی طرف سے‘ افرادی قوت ہی نہیں‘ ہر طرح کے وسائل فراہم کئے جاتے تھے۔ وہ کسی بھی نئے علاقے میں جاتے تو وہاں کی مساجد ان کے لئے مہمان خانوں کا کام دیتیں۔ وہ آسانی کے ساتھ ملک کے ہر حصے میں کارروائیاں کرتے تھے۔ جب مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے برسر اقتدارآئی تو نئی قیادت کا دہشت گردوں پر غالب آنا ممکن نظر نہیں آتا تھا۔ مجبوری کے عالم میں نواز حکومت نے دہشت گردوں کے ساتھ سمجھوتے کا فیصلہ کیا۔ حکومت نے مذاکرات کے لئے اعلیٰ سطحی وفد تیار کیا‘ لیکن حکومت سے بات چیت کرنے والوں نے اپنا کوئی قابل ذکر کمانڈر نامزد نہیں کیا۔ حکومت پاکستان نے اپنے وفد میں ایسے لوگ نامزد کئے‘ جو دہشت گردوں کے ہمدرد اور اتحادی تھے۔ یہ صورت حال دیکھ کر موجودہ آرمی چیف نے طاقت کے نشے میں دھت دہشت گردوں کو سبق سکھانے کا از خود فیصلہ کیا اور آپریشن ضرب عضب شروع کر دیا۔ پاک فوج نے قابض علاقوں میں مضبوط ترین مراکز پر فوج کشی کی تو حیرت انگیز کامیابیاں اس کے حصے میں آئیں۔ ملک بھر میں سینکڑوں بلکہ ہزاروں معصوم شہری اور فوجی دہشت گردی کے واقعات میں جام شہادت نوش کر رہے تھے‘ لیکن آپریشن ضرب عضب شروع ہوتے ہی ساری صورتحال تبدیل ہو گئی۔ مزید تفصیل کی ضرورت نہیں۔ آج کے پاکستان میں دہشت گردی کے بڑے واقعات قصہ پارینہ ہوتے نظر آرہے ہیں۔ کہیں کہیں‘ ا کا دکا وارداتیں ہوتی ہیں۔ وہ ہماری انتظامیہ کے درپردہ عناصر کی سرپرستی کے باعث رکنا ممکن نہیں۔ لیکن اب پس پردہ عناصر کی نشاندہی ہو چکی ہے۔ وہ وقت دور نہیں جب پاک فوج انشااللہ‘ درپردہ سرپرستیوں میں چلنے والے مراکز کا خاتمہ بھی کرنے لگے گی۔ جنگیں اسلحے کی بھرمار اور افرادی قوت کی برتری سے نہیں جیتی جا سکتیں۔ جنگوں میں کامیابی کے لئے وہی صلاحیتیں درکار ہوتی ہیں جو پاکستانی فوج کو حاصل ہیں۔ میں نے اپنے روایتی دشمن بھارت کی فوج کے اندرونی مسائل کی نشاندہی کرکے یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ سپاہی کا حوصلہ اور ہتھیاروں کے استعمال کی مہارت ہی ایسی چیزیں ہیں‘ جو اسے دوسروں پر برتری دلاتی ہیں۔ موازنے کی گنجائش نہیں۔ جگہ ہوتی تو اس موضوع پر بہت کچھ لکھا جا سکتا تھا۔