کافی عرصہ پہلے کی بات ہے کہ یہ تجویز بڑے زور و شور سے منظر عام پر آئی تھی کہ جو سیاست دان حکومتی عہدوں پر فائز ہو جائیں‘ وہ اس دوران کوئی کاروبار یا تجارت نہ کر سکیں گے۔ اس پر بڑی بحث چھڑی۔ نتیجہ تو یاد نہیں کیا نکلا‘ مگر اتنا یاد رہ گیا کہ تجارت اور کاروبار میں جتنا لین دین سرکاری عہدوں کے دوران ہونے لگا‘ اس میں باقی سارے کاروبار مندے پڑ گئے۔ سیاست میں بھارت کے سرمایہ دار ادارے زیادہ تجربہ اور مہارت رکھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اصل سیاست دان وہی ہوتے ہیں‘ جو خود تجارت سے دور رہتے ہیں۔ برصغیر میں سیاسی عہدوں پر فائز شخصیات یا پارٹیاں ہمیشہ سیاست اور تجارت کو یکجا کرنے سے گریز کرتی ہیں۔ ہر چند سیاسی جماعتیں ایک یا زیادہ تجارتی گروپوں کی مددگار ہوتی ہیں۔ کسی ایک کے ساتھ شریک ہونے سے بچتی ہیں۔ سب جانتے ہیں کون سی پارٹی کا مددگار کون سا تجارتی گروپ یا کمپنی ہے۔ گزشتہ انتخابات میں سرمایہ دار کمپنیوں نے انڈین نیشنل کانگرس کو انتخابی مہم کے لئے 1.72 ارب روپے چندے کی مد میں دیے۔ یہ بھارت کی سب سے مقبول اور قدیم سیاسی پارٹی ہے اور یہ طویل عرصے سے اقتدار پر قابض تھی‘ لیکن بھارتی سرمایہ داروں نے اپنے جو ریسرچ گروپ بنا رکھے ہیں‘ ان کے تجزیے اور اندازے قریباً درست ہوتے ہیں۔ پاکستان یا دنیا کے دوسرے جمہوری ملکوں میں سیاست کے اندر سرمائے کے اتنے اثرات ہوتے ہیں کہ اگر ان کا تجزیہ کر کے دیکھا جائے تو حیرت ہوتی ہے۔ یعنی خود سیاسی پارٹیوں کے تجزیے اور اندازے‘ انتخابی نتائج کے بارے میں اتنے درست ثابت نہیں ہوتے‘ جتنے سرمایہ دار گروپوں کے۔
بھارت میں گزشتہ انتخابات سے پہلے سرمایہ داروں نے سیاسی پارٹیوں کے بارے میں جو اندازے لگائے‘ وہ حقائق سے قریب تھے۔ سرمایہ داروں نے ہر چند علیحدہ علیحدہ تجزیے کئے‘ لیکن سب کے اندازے حیرت انگیز طور سے یکساں نکلے۔ ان تجزیوں کی روشنی میں کانگرس کو ملنے والے عطیات 1.72 بلین روپے تھے جبکہ بی جے پی‘ جو پہلی مرتبہ ملک گیر انتخابات میں کانگرس کا مقابلہ کر رہی تھی‘ کو ملنے والے عطیات 1.92 بلین روپے تھے۔ ماضی کے تجربات کی روشنی میں کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ بی جے پی‘ کانگرس سے بہتر نتائج حاصل کر سکتی ہے‘ لیکن سرمایہ داروں کو خبر تھی۔ بی جے پی کبھی بھی ایک منظم‘ متحد جماعت نہیں تھی۔ یہ دائیں بازو کے مختلف گروہوں کا گٹھ جوڑ تھا‘ جس میں ہر گروہ کی
سربراہی ایک علیحدہ سیاسی گروپ کر رہا تھا‘ اور ہر سیاسی گروپ کے نہ صرف نظریات الگ الگ تھے بلکہ ان کی قیادتیں کرنے والے لیڈروں کی شخصیات میں بھی فکری اور نظریاتی تضادات پائے جاتے تھے۔ اس کے برعکس کانگرس ایک منظم اور متحد جماعت تھی اور اس کی قیادت پر بھی نہرو خاندان کا قبضہ تھا۔ عام اندازہ یہی تھا کہ سیاست اور اقتدار میں سب سے طویل تجربہ رکھنے والی یہی پارٹی ہے۔ دوسری طرف بی جے پی نے جس سیاست دان کو وزارت عظمیٰ کے لئے اپنا امیدوار منتخب کیا‘ وہ کسی بھی معیار سے بھارت جتنے بڑے ملک کی قیادت کے لئے موزوں نہیں تھا۔ بی جے پی میں بزرگ اور تجربے کار سیاست دانوں کی
تعداد کم و بیش ایک درجن سے زیادہ تھی۔ ان کی موجودگی میں نریندر مودی جیسے سیاست دان کو وزارت عظمیٰ کے منصب کے لئے چننا‘ ایک پُرخطر
تجربہ تھا۔ سینئر سیاست دانوں کے مقابلے میں نریندر مودی جیسے متنازعہ لیڈر کو انتخابی مہم میں اتارنا بلا شک و شبہ خطرناک لگتا تھا۔ مودی‘ سیاست اور اقتدار کا طویل ترین تجربہ رکھنے والی کانگرس کے سینئر لیڈروں کے مقابلے میں‘ حیرت انگیز تجربہ تھا۔ اس پُرخطر تجربے کے پیچھے‘ سرمایہ داروں کے سیاسی تجزیے اور ان کی تنظیمی قوت تھی۔ سرمایہ محض نوآموز مودی کو نہیں دیا جا رہا تھا‘ اس کے پیچھے سرمائے کی مجموعی طاقت تھی۔ جو عطیات سیاسی پارٹیوں کو مجموعی طور پر دیے گئے‘ وہ اصل سرمائے سے کہیں زیادہ تھے‘ جو غیر رسمی طور پر انتخابی اخراجات کے لئے دیے گئے۔ سرمایہ داروں کی ان سرگرمیوں سے یہ اندازہ لگا لیا گیا کہ بھارت میںکوئی بڑی تبدیلی رونما ہونے والی ہے۔ سب سے نمایاں اندازے میڈیا کے رویے اور طرز عمل سے لگائے جا رہے تھے۔ میڈیا مختلف سیاسی جماعتوں اور قیادتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے‘ وزارت عظمیٰ کے نئے امیدوار‘ مودی کے حق میں اتنی وسیع اور ہمہ گیر مہم چلا رہا تھا کہ عام آدمی کے ذہن میں یہ تصور غالب آ گیا کہ بی جے پی‘ واقعی جیت رہی ہے۔ جتنے تبصرے‘ جتنے تجزیے‘ جتنے مباحثے میڈیا پر کرائے گئے اور سینئر صحافیوں نے جتنے مضامین لکھے‘ ان سب میں باہمی اختلافات ہونے کے باوجود‘ نتیجہ صرف یہی نکالا گیا کہ مودی اچھا ہے یا برا ہے‘ لیکن اس کی عوامی مقبولیت سب سے زیادہ ہے۔ الیکشن دور کے بھارتی میڈیا کا مطالعے اور جائزوں کو گہری نظر سے دیکھ کر سمجھا جا سکتا ہے کہ جدید دور کے انتخابات میں سرمایہ دار اور میڈیا مل کر کتنا موثر اور فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔
میں جب اپنی قومی سیاست خصوصاً ان دنوں سپریم کورٹ میں زیر سماعت ایک مقدمے بلکہ ایک خاندان پر لگے ہوئے الزامات کا جائزہ لیتا ہوں تو ندامت سے بچنے کا کوئی راستہ سجھائی نہیں
دیتا۔ دعوے اتنے بلند بانگ اور بڑے بڑے کئے جاتے ہیں اور جب تحقیق کے نتیجے میں حقائق سامنے آتے ہیں تو ہمارے سیاسی ڈھانچے کا کھوکھلا پن میرے اعتماد کو پرزہ پرزہ کرکے اڑا دیتا ہے۔ کوئی بھی غیر جانبدار بیرونی مبصر جب ہماری سیاست کا مطالعہ کرکے نتائج اخذ کرے گا تو وہ ہمارے کسی صورت سر اٹھانے کی گنجائش نہیں چھوڑتا۔ جب میں ٹی وی اور اخبارات میں اپنے برسر منصب وزیر اعظم کو اپنے بچوں کے ہمراہ‘ ملزموں کی نشستوں پر بیٹھے دیکھتا ہوں تو قوموں کی برادری میں ہماری کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟ دنیا میں کرپشن ہر جگہ ہوتی ہے‘ لیکن شرم بھی ایک چیز ہوتی ہے۔ حیا بھی ایک چیز ہوتی ہے۔ ندامت بھی ایک چیز ہوتی ہے‘ اور جب ان ساری چیزوں پر نگاہ ڈالتا ہوں تو اپنے قومی وقار کے درجے اور مقام کو دیکھتے ہوئے ندامت کی دلدل میں اس بری طرح سے دھنسنے لگتا ہوں کہ باہر نکلنے کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔ ہو سکتا ہے ہمارے اربابِ اقتدار کے ذاتی سرمائے کا ڈھیر دنیا بھر کے سیاست دانوں کی مجموعی ذاتی دولت سے زیادہ ہو۔ میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ کرپشن دنیا کے ہر سیاسی نظام میں پائی جاتی ہے لیکن کیا یہ ''برتری‘‘ ہمیں کسی نوعیت کے فخر کی اجازت دیتی ہے؟ ہماری تذلیل کے لئے کیا یہی کافی نہیں کہ ہمارے برسر منصب وزیر اعظم پر خیانت پر مبنی الزامات کے تحت ایک مقدمہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت میں زیر سماعت ہے۔ ہمارے ارباب اقتدار نے ہماری شرمندگی کے لئے بہت سی گنجائشیں پیدا کی ہیں مگر اتنی بھی نہیں۔ دولت اور منصب کا حصول‘ عزت اور سماجی برتری کے لئے کیا جاتا ہے‘ مگر اس دولت کے ڈھیر کا کیا فائدہ جو ندامت اور خجالت کے سوا کچھ نہ دیتا ہو؟ ہمارے سیاسی کباڑ خانے کے بیشتر کردار کالک میں اپنا حصہ لینے کے لئے حیلے بہانوں سے اپنا اپنا منہ ایک دوسرے سے بڑھ کر آگے کر رہے ہیں‘ ایک عمران خان کے سوا۔